سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(193) بخاری ومسلم کی ہر حدیث پر عمل کرنا بخاری مسلم کی تقلید نہیں

  • 5981
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1926

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا بخاری ومسلم کی ہر ہر ایک حدیث پر عمل کرنا بخاری مسلم کی تقلید نہیں ہے۔ ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بخاری مسلم ہو یا کوئی اور کتاب جس کتاب میں احادیث مرفوعہ ہوں اس پر عمل کرنا ان احادیث پر عمل کرنا ہے۔ یہ ان محدثین کی تقلید نہیں کیونکہ تقلید کسی غیرنبی کے ذاتی قول کو ماننے کانام ہے۔

تشریح

امام بخاری کی (بخاری ) کل تصنیفات ہیں۔ الجامع الصحیح ۔ جوآج بخاری کے نام سےمشہور ہے۔ اوردنیا کے ان تمام حصوں میں جہاں جہاں اسلامی اثر پہنچا ہے۔ شائع ہے۔ خصوصیت کے ساتھ قابل زکر ہیں۔ جن وجوہات سے مسلمانوں نے امام بخاری کو امام المحدثین نے امیرالمومنین فی الحدیث کا لقب دیا  ہے۔ ان میں  یہ مبارک کتاب  بھی ہے۔ ہ رتبہ افضلیت۔ یہ شرف یہ اعتبار متقدمین میں سے لے کر متاخرین تک اسلام می نہ کسی محدث کی تصنیف کو حاصل ہوا نہ کسی فقیہ اور امام کی تالیف کو۔ آج اسلام میں کتاباللہ کے بعدکس کی تالیف اور کونسی کتاب ہے جس کے آگے کل اسلامی دنیا تسلیم سر خم کرتی ہے۔

له الكتاب الذي يتلوا الكتاب هدي السيادة ليس ينصدع

(ططقات کبریٰ)

صحیح بخاری ایک ایسی کتاب ہے کہ اگرصرف اس کی تعریف لکھی جائے اور ہر پہلو سے اس پر بحث کیجائے تو کئی ضخیم جلدیں لکھنی پڑیں۔ علامہ ابن خلدون اپنی مشہور تاریخ کے مقدسہ میں ( جس میں انہوں نے علم تاریخ کے حکیمانہ اصول اور فلسفیانہ نکتے و تمدنی قواعد ضبط کئےہیں۔ فرماتے ہیں۔ ولقد سمعت كثيرا من شيوخنا رحمهم الله يقولونشرح كتاب البخاري دين علي الامة یعنی میں نے اپنی اکثر اساتذہ اور شیوخ کو فرماتے سنا کہ صحیح بخاری  کی شرح لکھنے کا قرض امت پر اب تک باقی ہے۔

علاوہ ابن خلدون آٹھویں صدی کے مورخ ہیں۔ نویں صدی کے ابتداء میں وفات پائی ہے۔ مقدمہ تاریخ انھوں نے 779ء؁ میں ختم کیا ہے۔ اس وقت تک صحیح بخاری کی شروح کثرت سے لکھی جاچکی تھی۔ تیسری صدی کے بعد ہی سے اس کی شرح کی طرف اہل علم متوجہ ہوگئے۔ لیکن اس فاضل مورخ کے تتبع واستقراء اور تحقیق میں کوئی شرح اس قسم کی نہیں لکھی گئیں۔ جوصحیح بخاری کے نکات فقیہ اور تدقیقات حدیثہو تاریخہ کی طرف پوری طرح رہبر ہوسکے۔ جہاں تک خیال کیا جاتا ہے۔ زمانہ موجودہ تک صحیح بخاری کی شروح کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ چکی ہے۔ اوراہل علم نے کوئ پہلو یا کوئی موضوع ایسا نہیں چھوڑا جس پر بحث نہ کی۔ کسی نے نوی تحقیقات سے بحث کی کسی نے  تراجم ابواب کو موضوع ٹھراکر کتاب لکھی۔ کسی نے لغات سے بحث کی کسی نے رجال سے کسی نے تعلقات کو موصول کیا۔ کسی نے متابعات سے بحث کی کسی نے استخراج کیا۔ کسی نے استدراک کیا۔ کس نے تنقیدپر کتاب لکھی۔ تاہم امام بخاری کے دقیق خیال اور لطیف استدلال تک بہت کم لوگوں کی رسائی ہوئی۔ علامہ ابوالخیرسخماوی البرالمسوک فی زیل الملوک میں علامہ ابن حجر کے ترجمہ میں فتح لباری(1) نسبت رقم طراز ہے ۔ کہ اگر فاضل ابن خلدون کو فتح اباری سے واقفیت  ہوئی ہوتی جنھوں نے یہ لکھا تھا کہ شرح صحیح بخاری کی شرح کادین امت پر باقی ہے۔ تو اس شرح

کو دیکھ کر ان کی آنکھیں اس دین کے بھر پانے سے ٹھنڈی ہوتیں۔ لیکن بقول بعض ہمارے شیوخ کے کیا معلوم کہ فاضل مولف کے بلند خیال میں بھی دین ادا ہو یا ابھی باقی ہے۔ حقیقت امر یہ ہے کہ يزيدك وجهه حسنا اذا ما زدته نظرا یہ مصرعہ شاید اسی مبارک کتاب کے لئے موزوں ہوا ہے۔ جس قدر جسکو  زیاہ غور کا موقعہ ملتا ہے۔ اسی قدر نکات فقیہ اورتدقیقات حدیثہ سے  اس کے دل و دماغ کو بہرہ یابی ہوتی ہے۔ اس کی رفعت شان کا اندازہ اس س سے کیا جاسکتا ہے۔ کہ تیئس کروڑ افراد انسانی اس کو مایہ ناز سمجھتے ہیں۔ اور یقین کرتے ہیں کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کے اقوال وافعال تقریرات۔ اس تنقید اور تحققق کے ساتھ اس کتاب میں جمع کئے گئے ہیں کہ اس سے بڑھ کر ہونا غیر ممکن ہے وہ یقین رکھتے ہیں۔ کہ امام بخاری نے اپنی  نے اپنی جانفشانی اہپنی محنت اپنی سعی اپنی جان نثاری اپنے خداداد حافظہ کا کوئی دقیقہ باقی نہیں چھوڑا قرآن مجید کے بعد اس کتاب کی صحت کا اقرار کرنے اور ماننے میں عرب وعجم اہل حجاز اہل شام اہل عراق اہل ہند۔ ترکی۔ کابلی۔ ببری۔ افریقی۔ رومی۔ روسی۔ بدوی۔ شہری۔ محدث فقیہ متکلم صوفی سبمتساویہ الاقدام ہیں۔ ٹو مس ولیم بیل اورنٹیل بیوگر لفیکل ڈکشنری مطبوعہ لندن 1890ء؁)  میں لکھتے ہیں۔ امام بخاری کی تصنیف صحیح بخاری کی سب سے زیادہ قدر کی جاتی ہے۔ اور  روحانی ودنیاوی معاملات غرض دونوں حیثیت سے قرآن کے بعد معتبر سمجھی جاتی ہے۔ آگے لکھتے ہیں اس کتاب میں محمد ﷺ کی وحیاں والہامات اور افعال وقوال ہی نہیں مندرج  ہیں۔ بلکہ قرآن کے  اکثڑ مشکل مقامات کی تفصیل بھی درج ہے۔ (ملخص از کتاب سیرۃ البخاری صفحہ 176۔ تا  181 مصنفہ حضرت مولانا محمد عبد السلام مبارکپوری)

--------------------------------------------------

1۔ حضرت علامہ ابن حجر عسقلانی کی مشہور عالم کتاب ہے جس کو لکھ کرآپ نے حضرت امام بخاری کی صحیح بخاری کا امت کے سرسے قرض ادا کردیا۔ یہ کتاب تحقیقات اور تدقیقات کے اعتبار سے نہایت بے  ظیر ہے۔ جس میں بخاری شریف کی ہر پہلو سے بہترین تشریح کی گئی ہے۔ 17 ہجری میں علماہ ابن نے اس کی تالیف کا  کام شروع کیا اور  842 ہجری میں مکمل ہوئی۔ (راز)

 

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 380

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ