سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(190) غیر مسلم یعنی ہندوئوں سے میل جول رکھنا

  • 5978
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 871

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

غیر مسلم یعنی ہندوؤں سے میل جول رکھنا دینی اور دنیاوی کاموں میں مشورہ لینا۔ ہندوئوں کو آداب اور سلام کہنا سنت محمدیہ کے موافق ہے۔ یا مخالف ہم نافہموں کے لئے صاف صاف بیان کرنا۔ ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس ہندو سے تعلق ہو وہ ہندو قابل بھروسہ ہو۔ اس سے مشورہ کرناجائز ہے۔ جیسے آپ ﷺ ابو طالب سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ ایسا ہی کسی معزز ہندو کے لائق اس کو آداب سلام کہنا منع نہیں۔ حدیث شریف میں ہے۔ اذا جاءكم كريم قوم فاكرموه

بیان مہاتما گاندھی ریفارمر ہند

مسلمانوں کے ساتھ گہرے تعلق ہونے کی وجہ سے میں نے پیغمبرﷺ کی زندگی کا مطالعہ کیا اوراسے اپنا فرض سمجھا۔ میں نے پہلے پہل افریقہ میں ان کی زندگی کو پڑھنے کی کوشش کی لیکن اس وقت میں اردو کی کافی قابلیت نہیں رکھتا تھا۔ ہندوستان میں اپنے ایام اسیری کے دوروان میں مجھے خوش قسمتی سے موقع مل گیا۔ اور میں نے مولانا شبلی کی تصنیف کردہ ''حضرت محمد ﷺ'' کی سوانح حیات کو پڑھا۔ یہ کتاب مجھے مرحوم حکیم اجمل خان نے میری درخواست پر جیل بھیجی تھی۔ حضرت کی زندگی کے علاوہ میں نے ان کے دوسرے ساتھیوں کی زندگی کو بھی پڑھا ہے۔ علاوہ ازیں میں نے’’اسلام اورحضرت محمد ﷺ صاحب‘‘  کے متعلق انگریزی زبان میں بھی بہت سی تصنیفات کا مطالعہ کیاہے۔ اس مطالعہ سے  میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں۔ کہ ویدوں اور گینا کے علاوہ قرآن  اوربائبل بھی میرے لئے مقدس کتب ہیں۔ حضرت محمد رسول اللہﷺ اور حضرت مسیح ؑ بھی دونوں زبردست پیغمبرتھے۔ اسلام کے مطالعہ سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے۔ کہ پیغمبر اسلام ﷺستیہ کے متلاشی اور خدا ترس بزرگ تھے۔ میں یہ جانتا ہوں میں یہ باتیں کر کے آپ کے سانے کوئی نئی باتیں پیش نہیں کررہاہوں۔ میں صرف یہ بتلا رہا ہوں کہ پیغمبر اسلام ﷺ کی زندگی نے مجھ پر کس طرح اثر کیا۔ ان پر انتائی مظالم کئے گئے۔ لیکن وہ سچائی کے راستے پر چلتے گئے۔ انہوں نے نتائج کا خیال کئے بغیر وہی کیا جو ان کے خیال میں درست تجا۔ اگران کے خیال می کوئی تبدیلی ہوتی تھی۔ تو وہ بلاخوفدوسرے ہی دن اس کا اظہار کردیتے تھے۔ پیغمبر اسلام ﷺ ایک فقیرتھے۔ انھوں نے دنیا کی تمام چیزوں کوترک کردیا تھا۔ اگ ان کی خواہش ہوتی تو وہ دنیا کی بہت سی  دولت جمع کرسکتے تھے۔ جب میں ان کی ان کے خاندان کی اور ان کے ساتھیوں کی غریبی کے حالات  پڑھتا ہوں تو میری آنکھوں میں مسرت کے آنسو آجاتے ہیں۔ میرے جیسا ستیہ کی متلاشی کس طرح اس کی عزت کیے بغیر رہ سکتاہے۔ جس کادما غ ہمیشہ خدا کی طرف لگا رہا۔ جوہمیشہ خدا سے ڈرتا رہا۔ اور جس کے دل میں بنی نوع انسان کےلئے بے انداز رحم تھا۔ آپ تمام قرآن  پڑھتے ہیں۔ مگر آپ میں سے بہت کم ان کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔ آپ کہیں گے کہ اگرہم قرآن کی تعلیم پر عمل نہیں کرتے تو ہندو بھی تو گینا کی تعلیم پر نہیں چلتے۔ آپ کا یہ کہنادرست ہے۔ میرا یقین ہے کہ اگر دونوں فرقے اپنے اپنے مزہب کی تعلیم پر چلیں تو فرقہ وارانہ جھگڑے ماضی کی داستان بن کر رہ جایئں گے۔ اس وقت دونوں فرقوں کے اشخاص نے اپنی عقل کو خیر آبآد کہہ کرایک دوسرے پر کیچؑر پھینکنا اپنا جزو ایمان بنا رکھاہے۔ اگر ایک بھی مسلمان صورت حال کا احساس کرے تو کیں سمجھوں گا کہ آپ کے سامنے میری تقریر فضول نہیں گئی۔

   ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 377

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ