السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مرزایئوں کا اسلام علیکم کہنا یا سلام کا جواب دینا جائز ہے یا نہیں؟ مرزایئوں کے گھر ماتم رپٌرسی کرناجائز ہے یا نہیں۔ جب کہ وہ ہارے گھروں میں ماتم پرسی کو لینے اآئے ہیں۔ مرزائی اگردعوت ولیمہ کے واسطے کہے تو قبول کرنا جائز ہے یا نہیں۔ اگر مرزائی ہماری مسجد کی تعمیر میں کچھ رقم بنطور چند ہ دیوے جہاں وہ خود بھی نماز پڑھتا ہے۔ جائز ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس میں شک نہیں کہ مرزائی گروہ اسلام سے بالکل اگ ہے؛ ان کے روش سے معلوم ہوتا ہے۔ کے وہ مرزا صاحب کے اقوال وافعال کو سند مانتے ہیں۔ بلکہ احادیث سے بھی مقدم سمجھتے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ حکم عدل تھے۔ ان کا فیصلہ ہر بار میں فیصل ہے۔ اس لئے ایسے گروہ کے ساتھ کوئی معاملہ بحیثیت مسلمان کے نہیں کرنا چاہیے۔ ۔ تعزیت کرنا۔ دعوت شادی قبول کرنا۔ رسمی سلام کرنا۔ مسجدمیں چندہ لینا یہ مخصصوص قوم مسلم سے نہیں ہیں۔ کیونکہ غیرمسلموں سے بھی یہ برتائو کرنا جائز ہیں۔ جیسے آپﷺ یہود ونصاریٰ سے برتائو کرتے تھے۔ (13 ستمبر 19 40ء)
عرصہ ہوا می نے مرزا صاحب کا نوشتہ ’’براہین احمدیہ‘‘ میں پڑھا تھا کہ
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ ﴿٣٣﴾سورة التوبة
پر حضرت عیسیٰؑ دوبارہ اس دنیا میں آیئں گے۔ تو سب ادیان پر اسلام کو غلبہ ہوگا۔ میں بلہ بہت سے مسلمان مرزا صاحب کی اس تحقیق کے مطابق حضرت عیسیٰ ؑ کی آمد کے منتظر رہے۔ جب ہماری آنکھیں پتھرا گئیں۔ توخداخداکر کے قادیان سے آواز آئی کہ جس عیسیٰ ؑ موعود کے تم منتظر تھے وہ میں ہوں۔ تو بے ساختہ ہمارے منہ سے نکلا
خواستیم آنچہ مافراز آمد آب از جوئے رفتہ باز آمد
اسی لئے ہم اس سیاسی غلطے ک منتظر رہے۔ جو جنامرزا صا حب ے نے ''براہین احمدیہ'' کے ص498 پر مسیح موعود لکھا تھا۔ ہم بہت خوش تھے کہ اب مسلمانوں کو ایک ایسا روحانی لیڈرمل گیا جو ان کو اسلام کے پہلے عروج پر بلکہ اس سے بھی اوپر پہنچائے گا۔ مگر واقعات نے ثابت کردیا کہ
جو آرزو ہے اس کا نتیجہ ہے انفعال ا ب آرزو یہ ہے کہ کوئی آرزو نہ ہو۔
آہ ،ماری بدنصیبی اور رسیہ بختی کی کوئی حد نہیں رہی جب کہ ہم نے اس مسیح موعود کو یہ کہتے سنا۔ جو ہم کو غیروں کی غلامی سے آذاد کرانے اور دین اسلاج کو ہام عروج پر پہنچانے کوآیا تھا۔ اس کی قلم کے الفاظ لکھے جب بھی ہم نے پڑھے۔ کہ''انگریزون کی حکموت کو اولی الامر منکم کی حکومت سمجھو۔ (رسالہ ضرورت امام)
ساتھ ہی اس کے یہ امر ہماری حیرت میں اضافہ کرنے کو کافی سے زیادہ ثابت ہوا جب ہم نے ان کی تحریروں میں یہ بھی پڑھا کہ انگریزی قوم یاجوج ماجوج ہے۔ (حمامۃ البشریٰ) ہم حیران ہوئے کہ الہٰی یہ دومقدمات کسیے صحیح ہیں۔
1۔ انگریز یاجوج ماجوج یں۔ 2۔ انگریز ہمارے الولی الامر منکم ہیں۔
ان دونوں مقدمات مین کا نتیجہ منطقی اصول سے تو یہی براآمد ہوتا ہے۔ کہ''ہم مرزا صاحب کو ماننے والے) یاجوج ماجوج ہیں۔ واللہ یہ نتیجہ سمجھ کر ہمارے دل کانپ اٹھے کہ الہٰی یہ کیا ماجرا ہے۔ ؟ وہ عیسیٰ ؑ مسیح موعود جو مسلمانوں کے سیاسی غلبہ اورسینی ترقی کےلے آئے تھے۔ انہوں نے آج اپنے اتباع کو یاجوج ماجوج کے ماتحٹ رہنے کا بلکہ ان کو اپنے میں سے جاننے کا ھکم دیتے ہیں۔ للعجب
اس کے علاوہ ہم نے دنیا کے واقعات پر غور کیا و ناقابل تردید صداقت یہ پائی کہ حضرت مرزا صاحب کے پیدا ہونے اوردوعویٰ مسیحت کرنے سے پہلے مسلمانوں کی سیاسی حالت جو تھی وہ آج سے بہت چھی تھی۔ دنیا کے بہت سے ملکوں میں ان کو آذاد حکمومتیں تھیں۔ ان کو سیاسی اعزاذ حاصل تھا۔ مگر جونہی اس مسیح موعود نے ظہور فرمایا وہ سیاسی کیفیت تبدییل ہونے لگے۔ یہاں تک کہ یہ منہحوس آواز بھی ہم نے سنی کہ قسطنطنیہ پر غیر مسلم کا قبضہ ہوگیا۔ جو بہادر جوانمرد کی ہمت سے اٹھ گیا۔ للہ الحمد
یہ تو ہوئی مسلمانوں کی سیاسی کیفیت اس کے علاوہ مزہبی کیفیت مین بھی اسلام کچھ ترقی و نہ کرسکا۔ نہ مسلما نوں کی مردم شماریوں میں نمایاں ترقی ہوئی۔ نہ اقتصادی امور می کچھ کامیابہوئے بلکہ جس مذہب عیسایئت کو مٹانے کےلئے (فرضی) حضرت مسیح موعود تشریف لائے تھے اس کی دن دوگنی اوررات چوگنی ترقی ہوئی دور نہ جایئں اور کبوتر کی طرح ہم آنکھٰں نہ بند کریں تو ہم کو مسیح موعودحضرت مرزا صاحب کے اپنے ملک میں نظرآتا ہے۔ کہ ان کے دعوے سے پہلے عیسائی چند نفوس تھے مگر آج صرف پنجاب میں نصف کروڑ کے قریب پہنچ گئے ہیں۔
یہ ہیں واقوات جوہم کو حضرت مرزا صاحب کے مذہبی اور ملکی رہنما بنانے میں مانع ہیں۔ اور بے ساختہ ہمارے قلم سے یہ شعر نکل رہے ہیں۔
یہ مان لیا ہم نے کہ عیسیٰؑ سے سوا ہو۔ جب جانیں کے درد دل عاشق کی دوا ہو۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب