سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(184) اللہ کی اورسول کی بات کو چھوڑ کر غیر للہ کی بات ماننا

  • 5972
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 899

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اللہ کی اورسول کی بات کو چھوڑ کر غیر للہ کی اور غیر رسول کی بات ماننا کفر اور شرک ہے یا نہیں۔ غیر نبی کی تقلید کرنے والے کو آپﷺ کی شفاعت ہونے کی کسی دلیل سے ثبوت ہے۔ جب بدعتی کو حوض کوثر سےآپ ﷺ ہانک دیں گے۔ تو پھر ان کی شفاعت کیسی؟مقلد دین کے اندر بدعتی ہے یا مشرک؟رسول اللہ کا کلمہ پڑھتے ہوئے غیر نبی کی تقلید کرنے والا کیا مسلمان ہوسکتاہے۔ (خریدار نمبر 10690)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن شریف میں مومن کی علامت یہ بتائی گئی ہے۔

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا ﴿٣٦سورة الأحزاب

’’کسی ایماندار مرد یا عورت کو جانز نہیں کے اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے بعد ان کو کوئی اختیار ہو۔‘‘ اس آیت نے فیصلہ کردیاہے کہ اللہ اور ررسول ﷺ کی بات کوچھوڑ کر غیر خدا کی بات ماننی ایمان کےخلاف ہے۔ اسی میں سب کچھ آگیا۔

تشریح

حضرت مولانا اسماعیل شہید اپنی کتاب تنویر العینین میں  فرماتے ہیں۔

اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ﴿٣١سورة التوبة

’’کاش میری سمجھ میں یہ بات آجاتی۔ کہ نبی کریم ﷺ کی صاف صریح روایات کے مقابلے میں کسی شخص کی معین تقلید کیسے جائز ہوسکتی ہے۔ جبکہ وہ رویات صراحت کے ساتھ مقلد امام کے قول کے خلاف آرہی ہیں۔ ایسی حالت میں امام کے قول کو نہ چھوڑنا اور احادیث صحیحہ صریحہ کو رد کر دینا اس میں ضرور شرک کی بو آتی ہے۔ جیسا کہ عدہ بن حاتم نے کہاتھا۔ یا رسول اللہ علماء۔ درویشوں۔ کورب بنانے کا مطلب کیا ہے۔ (کہ ہم نے ان کوکبھی رب نہیں بنایا)  تو آپ نے  فرمایا تھاکہ رب بنانے سے مراد یہ ہے  کہ جس حلال کو ان لوگوں نے حرام کردیا۔ اس کو تم نے حرام ہی جان لیا۔ اور جس حرام کو حلال کردیا۔ اس کو تم بھی حلال ہی جاننے لگے۔ اوردرویشو  ں اور علماء کا یہی رب یہی ٹھیرانا ہے۔ اعاذنا اللہ منہ (راز)

دیگر

عمل تقلیدی  کسی ایک حجت شرعیہ میں سے نہیں ہے۔ یعنی عمل بقول اس شکص کے کرنا کہ جس کا قول بلادلیل شرعی کے حجت نہ ہو اس کو عمل تقلیدی کہتے ہیں۔ اور تقلید کی تعریف یہ ہے ۔

التقليد العمل بقول الغير ن غير حجة مععلق بالعمل والمراد بالحجة حجة من الحجج الاربع كذا في كتب الاصول الحنفية وغيرها كما لا يخفي علي الماهر با لا صول

پس تقلید کی تعریف سے حسب اصطلاح مقلدین کی واضح ہوا کہ عمل تقلیدی دلائل اربعہ کتاب اللہ وسنت رسول اللہ ﷺ و اجماع صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  ومجتہدین اور قیاس صحیح متجہد مسلم الاجتہاد سے خارج ہے۔ اور یہ عمل تکلیفی شرعی اصلاً نہیں اور جو عمل بلاادلہ اربعہ ک پایا جاوے وہ عمل  تلیفی شرعی نہیں۔ وہ شرعا مردود  اور باطل ہے۔ پس عمل  تقلیدی بھی مردود او ر باطل ہوا الحمد للہ کے بے اصل شرعی ہونا تقللید کا بموجب اصلطلاح مقلدین کے ثابت ہوا اور یہ مقلدین پر سخت حجت ہے۔ (العاجز محمدنزیر حسین عافاہ اللہ فی الدارین فتاویٰ نزیریہ جلد 1 ص100)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

 

جلد 01 ص 371

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ