سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(127) تفسیر القرآن کے بارے میں تشریحات

  • 5913
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2533

سوال

(127) تفسیر القرآن کے بارے میں تشریحات

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قرآن کی تفسیر احادیث میں تمام آیات کی ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کونسی مفسر نے تفسیر القرآن بالحدیث لکھی ہے یانہیں؟ اگر نہیں تو جن بعض آیات کی تفسیر ترمذی کے ابواب تفسیر القرآن اور بخاری کی تفسیر القرآن میں نہ ملے تو ان کی تفسیر کس طرح کی جاوے۔اگرتفسیر بالرائے کی جاوے۔ تو وہ ابودائود کی حدیث کی رو سے کفر ہے۔اور نہیں تو پھر کیا کیا جاوے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تفسیر القرآن احادیث میں بہت کم ہے۔صحیح تفسیر کا اصول حسب قاعدہ تفسیر یہ ہے کہ باقاعدہ عربیہ تشریح کی جاوے۔ عربیت کے خلاف تفسیر کرنے کا نام تفسیر بالراء ہے۔ موافق قواعد عربیہ تفسیر بالراء نہیں۔

شرفیہ

جواب سوال تمام قرآن مجید کی تفسیر احادیث میں ہے۔ یا نہ اس کا جوب مولانا نے مختصر دیا ہے۔ مناسب ہے کہ کچھ تفصیل بھی ہوجائے۔ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ﴿٤٤﴾ (پ 14 ع 13)

پس اصل مفسر رسول اللہ ﷺ ہیں۔جو آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین  کو تفسیر قولا ۔فعلا۔ تقریباًکر کے بتادی۔پھر جو ان صحابہرضوان اللہ عنہم اجمعین  نے آپ سے سنی۔ یا بسبب اپنی لغت یا اس وقت کےمحا ورہ سے جب قرآن نازل ہورہا تھا۔ اس  کے معنی سمجھے۔اور بیان کیجئے۔خصوصا قرآن مجید سیاق وسباق اوردوسری آیت سے اس لئے کہ بعض آیات میں اختصار یا اجمال ہے۔ اور دوسری جگہ تفصیل و تفسیر ہے او ر جوبعض آثار میں اختلاف تفسیر  تو بعض مقام میں ایسا ہوتا ہے۔ کہ چونکہ قرآن مجید جامع اکلم ہے۔ایک ایک جملے کے دو یاتین بلکہ زائد معنی ہوسکتے ہیں۔ کہ جن میں اختلاف و تناقض نہیں ہوتا۔ اگر کہیں معلوم  ہوتا  ہو تو یہ ناظر کے فہم کی غلطی ہے۔مستنبط کی  بھی ممکن ہے۔ اور ترجیح کثرت خصوصا جمہورصحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  کو ہوگئی۔اور تمام قرآن کی  تفسیر احادیث مرفوعہ سے تو ملتی نہیں یعنی مصرح نہیں ہاں بقیہ وجوہ دلالت سے اکثر ملتی ہے۔ایسے ہی قرآن کی تفسیر سے بھی علاوہ تصریح کے بقیہ وجوہ دلالت سے بھی ملتی ہے۔ اور چونکہ عربی زبان میں ہے۔  نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ ﴿١٩٣﴾ عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ ﴿١٩٤﴾ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِينٍ ﴿١٩٥﴾۔(پ19 ع15)

لہذا تھا علاوہ محاورہ عرب ولغت عرب خصوصا لغت زبان نزول وحی و استدلال یہ سیاق وسباق و تدبرکتاب اللہ ایسے ہی استدلال با حدیث مرفوعہ صحیحہ  بوجوہ  دلالات جیسے کہ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  نے تفسیر کی ہے۔باوجود یہ کہ  انہں کو سنایا تھا۔

قال رسو ل الله صلي اله عليه وسلم من قال في القران برايه فليتبوا مقعده من النار وفي رواية من قال في القران بغير علم فليتبوا مقعده من النار (رواه الترمذي مشکواۃ ص 25 ج1)

وصحه في الجامع الصغير السيوطي وايضا قال قال رسول الله صلي اله عليه وسلم من قال في القران براية فاصاب فقد اخطا(رواه الترمذي و ابو داؤد مشكواة ص35 ج1ورمز في الجامع الصغير للسنن الثلاثة وحسنه)

پس ثابت ہوا کہ باصول ووجوہ مذکورہ بالا تفسیر بالرائے نہیں جائز ہے۔ بشرط یہ کہ کتاب و سنت کو اساتذہ کا ملین و ماہرین کتاب وسنت سے باقاعدہ پڑھ کر کامل مہارت حاصل کی ہو۔ پھر کیسے باشد اور صحت کا معیار عدم زکر متقدمین کا نہیں ورنہ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  کی تفسیر کا اعتبار بھی نہ ہوگا۔واز لیس فلیس۔ہاں جب اورادلۃ صحیحہ کتاب وسنت یا جمہور صحابہ کے صریح خلاف ہوتوپھر غلط ثابت ہوگی۔اور اسرائیلی روایات کی نقل صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  سے حجت نہ ہوگی۔ لقوله عليه السلام لا تصدقوا اهل الكتابولا تكذبوهموقولواامنا بالله وما انزل علينا (الایةرواہ البخاري ۔مشکواة ص28 ج1) (ابو سعید شرف الدین دہلوی)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

 

جلد 01 ص 344

محدث فتویٰ

تبصرے