سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(118) وسیلہ کے لغوی مانی اور اس کی تفصیلات

  • 5904
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1965

سوال

(118) وسیلہ کے لغوی مانی اور اس کی تفصیلات

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وسیلہ کے لفظی معنی اور اس کا اطلاق کس کس پر ہوتا ہے۔ وَابتَغوا إِلَيهِ الوَسيلَةَ کا کیا حکم ہے۔ بعد آذان کے دعا ات محمده الوسيلةعبد الرحمٰن جامی کا شعر ہے۔

اگر نام محمد رانیا وردے شفیع آدم               نہ آدم یافتے توبہ نہ نوح از غرق نجینا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وسلیہ کے معنی لغت عرب قاموس وغیرہ میں لکھے ہیں۔ قرب اور تقرب یعنی خدا کے نزدیک مرتبہ قرب چنانچہ شاہولی اللہ صاحب اس آیت کا ترجمہ لکھتے ہیں۔ اے مسلمانان بترسید اذ خدا و بطلبید قرب بسوئے او یعنی حکم ہوتا ہے۔ مسلمانوں نیک اعمال کے زریعے خدا کا قرب تلاش کرو۔ ازان کے بعد دعا میں جو وسلیے کا لفظ آتا ہے۔ اس کے معنی بھی یہی ہیں کہ اے خدا! حضرت رسول اللہﷺ کواپنے قرب میں ترقی دے۔ مولاناجامی مرحوم کا شعر شاعرانہ محبت اور بعض غیرصحیح اقوال پر مبنی ہے۔ جس میں زکر ہے حضرت آدم نے تو بہ کرتے وقت کہا تھا کہ اے خدا بطفیل حضرت محمد ﷺ کے میرا گناہ معاف فرما۔ لیکن یہ کسی سند کے ساتھ آ پﷺ سے روایت نہیں ہے۔

شرفیہ

جو شعر سوال میں لکھا ہے۔ وہ باطل قول موضوع روایت پر مبنی ہے۔ اس کا اعتبار نہیں کرناچاہیے۔ وَلا تَقفُ ما لَيسَ لَكَ بِهِ عِلمٌ ۚ (پ15 ع 3)

سوال۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ایک وقت قحط آیا۔ تو اس وقت حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وفات پاچکے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چند لوگوں کو جمع کر کے عباس کے روضہ پر جاکر توسل چاہ کر دعا مانگی۔ فوراً بارش ہوئی۔

جواب۔ زندوں کا وسیلہ تو اس طرھ جائز ہے۔ کہ ان کو کہا جائے کہ آپ ہمارے لئے دعا کریں۔ مردوں کو اس طرح جائز نہیں کیو کہ وہ سنتے نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عباسرضی اللہ تعالیٰ عنہ کوزندگی میں کہا تھا۔ کہ آپ ہمارے ساتھ چلئے۔ بارش کے لئے آپ کے ساتھ دعا مانگیں گے۔ آپﷺ کی زندگی میں حضورﷺ کے ساتھ مانگا کرتے تھے۔ اب آپ کے ساتھ مانگتے ہیں۔ یعنی حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دعا کی اور باقی لوگوں نےآمین کی۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

 

جلد 01 ص 338

محدث فتویٰ

تبصرے