سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(87) اتقوافراسة المؤمن کامطلب ؟

  • 588
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 925

سوال

(87) اتقوافراسة المؤمن کامطلب ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک حدیث میں آتاہے ۔

«اتقوافراسة المؤمن فانه ینظربنورالله  الحدیث »

’’ مومن کی فراست سے ڈروکہ وہ اللہ کے نورسے دیکھتاہے ‘‘

توکیانبی صلی اللہ علیہ وسلم  نورالہی ٰ کے ذریعہ سے علم مغیبات نہیں رکھتے ۔حالانکہ آپ مجمع النورین تھے۔ایک نورنبوت اور دوسرا نورالہی۔ چنانچہ آپ نے اپنے چچاحضرت عباس رضی اللہ عنہ کوخاص بات جوانہوں نے اپنی بیوی ام الفضل سے کہی تھی۔ بدرکے دن بتلائی ۔جبکہ انہوں نے فدیہ یوم بدر دینے سے عذرکیا۔یہ واقعات بتلاتے ہیں کہ آپ علم مغیبات رکھتے تھےاورآپ عالم الغیب تھے ۔؟ ا زراہِ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیں۔جزاكم الله خيرا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

فراست کےمعنیٰ ہیں کہ کسی کے رنگ ڈھنگ سے کسی  بات کاپتہ لگالینا۔سو یہ بہت محدودعلم ہے۔پھرعلم غیب کی قسم سے بھی نہیں۔ چنانچہ نمبراول کےجواب میں علم غیب کی تعریف  سے ظاہرہے ۔قرآن مجیدمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ارشادہے:

﴿وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِي لَحْنِ الْقَوْلِ ۚ﴾--سورة محمد30

 ’’یعنی اے محمد!(صلی اللہ علیہ وسلم )تومنافقوں کی طرزبات میں پہچان لےگا۔‘‘

دوسر ی آیت میں ہے ۔

﴿وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ ۖ وَإِن يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ ۖ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ ۖ﴾--سورة منافقون4

’’اےمحمد!جب تومنافقوں کودیکھتاہے توان کے جثے تجھ کوتعجب میں ڈالتے ہیں ۔اوراگربات کرتے ہیں توان کی بات کوسنتاہے ۔گویاکہ وہ لکڑیاں (دیوارسے)کھڑی کی گئی ہیں۔‘‘

تیسری آیت میں ہے۔

﴿وَمِنۡ أَہْلِ ٱلْمَدِينَةِ مَرَدُواْ عَلَى ٱلنِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمۡۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمۡۚ﴾

’’یعنی اہل مدینہ سے کئی نفاق پراڑے ہوئے ہیں۔اے محمد!توان کونہیں جانتا ہم جانتے ہیں۔‘‘

پہلی آیت میں پہچان کا ذکرہے ۔دوسری میں ذکرہےکہ ان کے جثے دیکھ کران کوشریف سمجھ کران کی بات توجہ سےسنتاہے حالانکہ وہ نکمے ہیں۔ جیسے دیوار سے کھڑی ہوئی لکڑیاں بے کارہیں۔تیسری آیت میں صاف ہےکہ کئی منافقوں کاتجھے علم نہیں۔ حالانکہ وہ مدینہ میں رہتے ہیں۔ ان سب آیتوں کوملاکریہی نتیجہ نکلتاہے کہ وحی کےسوا عام حالات حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے باقی انسانوں کی طرح ہیں صرف کمی بیشی کافرق ہے۔ کسی کی فراست زیادہ تیزہے۔عقلوں اوربینائیوں وغیرہ میں فرق ہے مومن کی فراست نور ایمانی کی وجہ سے نسبتاً زیادہ تیزہے اللہ کےنورسے نور ایمانی مرادہے مگراس کمی بیشی سے کوئی بشریت سے متجاوزنہیں ہوسکتا۔اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کوسمجھ لیناچاہیے ۔اگرچہ آپ کی فراست  نسبۃ  تیزہے ۔مگربعض دفعہ پتہ نہیں لگتا۔چنانچہ اوپرآیات سے واضح ہے۔

خلاصہ یہ کہ ایک تویہ علم محدودہے۔ ہرشے کاعلم نہیں۔دوم علم غیب كی قسم سے نہیں بلکہ اسباب عادیہ سے حاصل ہے۔سوم اس میں غلطی بھی ہوجاتی  ہے۔کیونکہ فراست ضروری نہیں کہ صائب ہو۔چنانچہ یہ مشاہدہ ہے ۔خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قسم کے بہتیرے واقعات ہیں۔ چنانچہ سورۃ حشرکے شان نزول کا واقعہ اس قسم کا ہے جس میں ذکرہے۔کہ یہودنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دیوارنے نیچے بٹھایااور اوپر سے پتھرپھینک کرآپ کا کام تمام کرنا چاہا۔مگرجبرئیل نے آکر اطلاع کردی ۔اس موقعہ پربجزوحی کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فراست اور آپ کے ساتھیوں کی فراست  کچھ نہ کرسکی۔غرض اس قسم کے بہتیرے واقعات ہیں ۔پس اس کوعلم غیب سے کوئی تعلق نہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اہلحدیث

کتاب الایمان، مذاہب، ج1ص222 

محدث فتویٰ 

 

تبصرے