السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حاضر ناضر کے کیا معنی ہیں۔ کیا حضرت رسول کریم ﷺ اور اولیا ء کرام حاضر وناظر ہیں۔ اور کیا استحضارخیالی سے ندا آ سکتی ہے۔ ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حاضر وناضر کے معنی ہیں سامنے موجود پس انبیاء اولیاء کو حاضر وناظر جاننا شرک ہے۔ کیونکہ خدا کی کسی صفت خاصہ سے کسی دوسرے کو موصوف جانناشرک ہے۔ (1) (اہل حدیث امرتسرص13۔ 25 زی الحجہ 1351ہجری)
اخبار ''الفقیہ''فقہ کے نام سے موسوم ہے۔ مگر اشاعت اس فقہ کی کرتا ہے۔ جو اسلام سے پہلے بھی عرب میں مروج تھی۔ اور لطف یہ ہے کہ بڑی ہوشیاریسے لکھتا ہے۔ مدرسہ دیوبند و وغیرہ مدارس وہابیہ سے جو طالب علم فارٖغ ہوکر نکلتے ہیں۔ دو
تھیلیاں ان کے گلے میں لٹکائی جاتی ہیں۔ ایک شرک کی۔ دوسری بدعت کی۔ فارغ شدہ طالب علم گلی کوچوں میں کہتا پھرتا ہے۔ کہ لوگو! شرک لے لو۔ بدعت لے لو۔ (الفقیہ مورخہ 21 تا 28 مئی ص4)
ہمارے خیال میں اس واقعے کو بیان کرنے میں ''الفقیہ'' سے تھوڑی سی غلطی ہوئی ہے۔ وہ شرک لے لو بدعت لے لو نہیں کہتا بلکہ ''شرک لو اور بدعت سے بچو''کہتا ہے۔ جس کو ہماری بات ماننے میں تامل ہو۔ وہ طلبہ وہابیہ سے تحقیق اور تصدیق کر سکتاہے۔ یہ تو اس مضمون نگار کی تمہیدی غلطی ہے۔ جسے وہ نہیں سمجھا۔ اصل مضمون سے بھی زیادہ غلط ہے۔
''الفقیہ'' کا نامہ نگار آپ ﷺ کو حاضر و ناظر ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا تا ہے۔ اس کے سر دفتر دلیل یہ آیت ہے ۔ وَيَكونَ الرَّسولُ عَلَيكُم شَهيدًا ۗ
اسکے معنی کرتا ہے کہ رسول تم پر حاضر و ناظر ہو۔ پھر ان چند تفسیروں کے حوالے نقل کرتا ہے۔ جن کو اس مضمون سے دور کا تعلق بھی نہیں ہے۔ مگر ہم اس بے تعلقی کا زکر پھر کبھی کریں گے۔ سر دست جو بات ہم کو کھٹکتی ہے ۔ اسے پیش کرتے ہیں۔ آیت کریمہ کے سارے الفاظ یوں ہیں۔ ۔ وَكَذٰلِكَ جَعَلنـٰكُم أُمَّةً وَسَطًا لِتَكونوا شُهَداءَ عَلَى النّاسِ وَيَكونَ الرَّسولُ عَلَيكُم شَهيدًا ۗ (پ2ع1)
’’اس کا یہ ہے۔ کہ ہم نے تم کو اعتدال والی امت (موصوفہ باوصاف حمیدہ) بنایا تاکہ تم مسلمان لوگوں پر گواہ ہوجاؤ۔ اور رسول تم پر گواہ ہو جائے‘‘ ''الفقیہ'' کے مضمون مذکورہ پر ہم نے بہت ہی غور کیا۔ اس کا فاضل نامہ نگار معطوف علیہ (لتکونو شہداء) کی تفسیر کیا کرتا ہے۔ کیونکہ وہ مقدم ہے۔ افسوس ہے کہ اس نے لفظ کو چھوا تک نہیں۔ شاید اس کے قلمی قرآن مجید میں یہ لفظ مرقوم ہی نہ ہوگا۔ ورنہ ایسی بدیانتی کوئی مسلمان نہیں کرسکتا۔ پس جو معنی معطوف علیہ کے ہیں۔ وہی معنی معطوف کے کرنے چاہییں۔ اگر معطوف ۔ وَيَكونَ الرَّسولُ عَلَيكُم شَهيدًا ۗ
کی تفسیر سے یہ نتیجہ نکلتا ہے۔ کہ آپﷺ ہر جگہ حاضر ناضر ہیں۔ تو معطوف علیہ (لتکونو شھداء) کا نتیجہ بھی یہی ہونا چاہیے۔ کہ کل مسلمان ہر جگہ حاضر ناضر ہیں۔ وھذا خلف)
نقض اجمالی جانتے ہو کیا ہوتا ہے۔ اور اس کا ضرر مدعی کو ہوتا ہے۔ یا سائل کو؟ناضرین کرام! آیت کے دونوں جملےآپ کے سامنے ہیں۔ لتکونوا اور یکون۔ دونوں کا مصدر بھی ایک ہے۔ اور دونوں کی خبریں بھی ایک ہیں۔ اس لئے ہمارے ہمارا سوال ہے۔ اگرشہید کے معنی حاضر وناضر کے ہیں۔ یعنی آپﷺ ہر جگہ حاضر وناضر ہیں۔ تو حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ ابو ہریرہرضی اللہ تعالیٰ عنہ اور انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ بھی بلکہ اور بھی جتنے مسلمان با ایمان گزرے ہیں۔ کیا وہ سب ہرجگہ حاضر ناضر ہیں۔ اگر ہیں تو کیا ثبوت ؟اگر نہیں تو کیوں نہیں۔ پس آپ حضرات الفقیہ پارٹی سے اس نقض اجمالی کو اٹھوائیے اورساتھ ہی یہ بھی کہہ دیجئے۔
لگا رہنے دے جھگڑے کو یار تو باقی رُکے ہے ہاتھ ابھی ہے رگ گلو باقی
----------------------------------------------------
1۔ اس مسئلہ کی پوری بحث کےلئے مولانا عبد الروئوف صاحب رحمانی جھنڈے نگری کی کتاب ''حاضرو ناظر''ملاحظہ کیجئے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب