السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
صوفیائے کرام کی اصطلاح میں سنا گیا ہے۔ کہ فنا فی اللہ ہونے کےلئے فنافی الشیخ اورفنا فی الرسول ہونا ضروری ہے۔ بغیر اس کے فنا فی اللہ ہونا نا ممکن ہے کیا یہ دونوں درجے صحیح اورشرعا جائز ہیں۔ اگر نہیں تو عدم جواز کے جو دلائل ہوں ان کو واضح فرمادیجئے۔ اور اگر جائز ہیں تو ان کے دلائل؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صوفیائے کرام کی اصطلاح میں فنا فی الشیخ کے معنی ہیں۔ شیخ کی محبت کامل اور فنا فی الرسول کے معنی ہیں کامل محبت اور اتباع رسول یہاں تک کہ اپنی کوئی امنگ خلاف سنت نہ ہو۔ جیسا حدیث شریف میں ہے۔ لا يومن احدكم حتي يكون هواه تبعا لما جئيت به (یعنی کوئی شخص مومن نہ ہوگا۔ جب تک اسکی دلی خواہش اور امنگ میری تعلیم کے ماتحت نہ ہو۔ ) یہی مضمون مولوی روم مرحوم کی مثنوی کے اس شعر میں ہے۔
تاہوای تازاست ایمان تازہ نیست کایں ہوایٰ جز قفل آں دروازہ نیست
یعنی جب تک انسان کی اپنی خواہش زندہ ہے۔ ایمان مردہ ہے۔ کیونکہ یہ خواہش ایمان کے لئے بمنزلہ قفل کے ہے۔ ''
پس محبت شیخ اور محبت رسول در حقیقت اصل مقصود تعلق باللہ اور تبتل الی اللہ کے لئے تمہید ہے تعلق بالالوہیت سی کا نام ہے۔ فنا فی اللہ یعنی پہلے درجے میں مرید اپنے شیخ کو صرف استاد جانتا ہے۔ جیسے طفل مکتب اپنے علم کو دوسرے درجے میں رسول کو بطور ہادی ک دیکھتا ہے۔ آخری درجے میں خدا کو بحیثیت معبود کے دیکھتا ہے۔ اس لئے اس درجے میں نہ کوئی دوسری چیز اس کے مساوی ہوسکتی ہے۔ نہ اس سے بلند اس لئے بعض صوفیاءکے منہ سے بجوش توحید یہ شعر نکل گیا ہے۔
پنجہ در پنجہ خدادارم من چہ پروائی مصطفےٰ ادارم
یعنی الوہیت کے درجے میں میری نظر کسی طرف نہیں جاسکتی۔ کیونکہ وہاں ذات بحت اور فرد واحد ہے۔ (جل جلالہ) اس تشریح پر تو کوئی اعتراض نہیں۔ دوسری تشریح جو آجکل کے گمراہ صوفی کر تے ہیں۔ وہ سراسر محل اعتراض ہے۔ یعنی شیخ کا تصورسامنے رکھے۔ اس کی اتنی مشق کرے۔ کہ جدھر نظر کرے۔ شیخ کی شکل سامنے ہو۔ اس کے بعدرسول سے بھی یہی برتائو کرے۔ پھر ترقی کر کے اس درجے پر پہنچے کہ خدا کو ہر طرف دیکھے۔ اوراس کی زبان سے صحیح طور پر یہ مصرع نکلے ع۔
جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے۔
یہ تشریح سراسراسلام کے خلاف ہے۔ اعازنا اللہ منہ
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب