السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک پادری کے چند سوال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مجھ احقر سے ایک پادری مشن سے حضرت محمد رسول اللہﷺ کے بارے میں گفتگو ہوئی تو اس نے مجھ سے یہ سوال کئے جو بغرض جواب ارسال ہیں۔ (مراسلہ امین الدین خریدار اہل حدیث نمبر 5195 سکندرہ رائو)
سوال نمبر 1۔ حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت عیسیٰؑ تک ایک ہی خاندان ہے۔ اور انھیں میں انبیاء گزرے ہیں۔ ہم سب کو مانتے ہیں۔ چونکہ حضرت محمد صاحب اسی خاندان سے نہیں اس لئے ان کو نہیں مانتے ۔
جواب نمبر 1۔ اس کا کچھ ثبوت ہے۔ کہ سارے انبیاء ایک ہی خاندان سے گزرے ہیں۔ ؟اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَإِن مِن أُمَّةٍ إِلّا خَلا فيها نَذيرٌ ﴿٢٤﴾
ہر ایک قوم میں کوئی نہ کوئی رسول گزراہے۔ پھر ہم کیوں یہ مان لیں کہ ایک ہی خاندان میں گزرے ہیں۔ تو اس سے یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ دوسرے خاندان کے نبیوں کو ماننا ضروری نہیں۔ اس ممانعت کے لئے کوئی حکم ہے۔ ہو تو دیکھایئے۔ ورنہ غلط دعویٰ کرنے سے شرماہیے۔
سوال نمبر 2۔ یہ ہے امت محمدیہ کا یہ قول کے ایک لاکھ چوبیس ہزرپیغمبر ہوئے ہیں۔ یہ بات بالکل غلط ہے۔ اور غلط نہیں ہےتو آپ ہم کو کل پیغمبروں کے نام بنام فہرست دیجیئے۔
جواب نمبر 2۔ ہم بھی اس ر وایت کو صحیح نہیں مانتے جبکہ ہمارا اعتقاد ہے کہ ہم نبیوں اور رسولوں کی تعداد صحیح نہیں جانتے قرآن مجید میں ارشاد ہے۔ ۔ مِنهُم مَن قَصَصنا عَلَيكَ وَمِنهُم مَن لَم نَقصُص عَلَيكَ ۗ
’’یعنی بعض رسول ہم نے تمھیں بتائے ہیں۔ اور بعض نہیں بتائے۔‘‘
سوال نمبر 3۔ جس خاندان میں حضرت محمد صاحب ﷺ پیدا ہوئے ہیں۔ ان سے قبل اس خاندان میں کوئی اور نبی پید ہوا تھا؟
جواب نمبر 3۔ اس خاندان کے جد امجد حضرت اسماعیل ؑ نبی تھے۔ قرآن مجید میں مذکور ہے۔ وَاذكُر فِى الكِتـٰبِ إِسمـٰعيلَ ۚ إِنَّهُ كانَ صادِقَ الوَعدِ وَكانَ رَسولًا نَبِيًّا ﴿٥٤﴾
’’یعنی اسماعیل ؑ بڑا راستباز نبی تھا۔‘‘
بائبل سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اسماعیل ؑ حضرت ابراہیم ؑ کا موعود فرزند تھا۔ (پیدائش باب نمبر6)
سوال نمبر 4۔ یہ ہے اس کی وجہ کیا ہے۔ حضرت محمد رسول اللہﷺ زمین عرب میں پیدا ہوئے حالانکہ جتنے انبیاء گزرے ہیں کل زمین کنعان میں پیدا ہوئے۔
جواب نمبر 4۔ ہمارا اعتقاد تو یہ ہے کہ انبیاء ساری دنیا میں پید ا ہوئے۔ یہاں تک کہ ہندوستان میں بھی پیدا ہوئے لہذا ہم پر یہ سوال وارد نہیں ہوسکتا۔
سوال نمبر5۔ اس بات کا ہم کو کافی طور پر پکی اور مستند روایات کا پتہ بتلایئے کہ قیام دنیا کب سے ہے۔ ؟
جواب نمبر5۔ دنیا کی ابتداء اور ابتداء سے آج تک کتنی مدت ہوئی ہے۔ اس کا علم ہم کو نہیں قرآن مجید میں اس کا زکر صاف لفظوں میں نہیں ملتا۔ جو کوئی کہتا ہے اس کا خیالی اعتقاد ہے وگر ہیچ آپ کے پاس کوئی ثبو ت ہو تو پیش کیجئے۔ (24 شعبان 38ء)
بقلم مولانا حضرت ابو القاسم صاحب سیف بنارسی
انبیا ء بنی اسرائیل پر جس قدر کتب سماویہ نازل ہوئیں۔ ان کو علمائے مسیحی نے لقب بائبل (بمعنی کتاب) دے کر دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
1۔ عہد عتیق یعنی حضرت مسیح کے قبل جتنی کتابیں انبیاء بنی اسرائیل پر اتریں۔
2۔ عہد جدید یعنی ناجیل اربعہ کے ساتھ حواریوں کے اعمال خطوط اور مکاشفات پہلے عہد عتیق کا حال ملاحظہ ہو۔
مروج عہد عتیق میں 39 کتابیں ہیں۔ لیکن علماء یہود نے ان کو 24 کتابوں میں شمار کر کے تین حصوں میں منقسم کیا ہے۔
1۔ توراۃ جس کو قانون کہتے ہیں۔ اس میں پانچ کتابیں ہیں۔ 1۔ تکوین۔ 2۔ خروج۔ 3۔ احبار۔ 4۔ اعداد۔ استثنار
2۔ ففیم ان میں یوشع ۔ قضاۃ سموئیل۔ اول و دوم۔ ملوک اول و دوم۔ یشعیاہ ۔ یرمیا۔ حوقیل اور بارہ چھوٹے بڑے پیغمبر شامل ہیں۔
3۔ بتیم ۔ ان میں زیور ۔ امثال سلیمان۔ ایوب۔ دوعوت۔ نوحہ یرمیاہ۔ واعظ استیز دانیال ۔ عزرا۔ نحیاہ ایام اول و دوم ہیں۔
موجودہ مجموعہ عہد عتیق کہ مطالعہ سے معلوم ہواتا ہے۔ کہ بہت سی کتب سماوی معدوم اور لاپتہ ہوگئیں۔ صرف ان کا حوالہ عہد عتیق میں باقی رہ گیا ہے۔ چنانچہ ملاحظہ ہو۔ عہد نامہ موسیٰ لاپتہ ہے حوالہ اس کا خروج 24/7 میں ہے۔
2۔ جنگ نامہ خداوند حوالہ اعدادی 14/21
3۔ کتاب بشیر ھوالہ یوشع 10/13
4۔ کتاب فائن بنی واحید و مکلاشفات یعدو کاہن ۔ حوالہ ایام دوم 9/29
5۔ کتاب یاہو بن حنانی ۔ حوالہ ایام دوم 20/24
6۔ دکتاب اشعیا بن عمروص ھوالہ ایام دوم 26/22
7۔ مثال ونغمات سلیمان و کتاب خواص نباتات و حیوانات و کتاب اعمال سلیمان حوالہ ملوک اول 4/32۔ 33 و 11/41 (ماخوذ از تاریخ صحف سماوی) پروفیسر نواب علی۔
یہود کی کتب سماوی کی بربادی کا سبب سے بڑا سبب وہ ہولناک حوادث ہیں جو حضرت سلیمان کے بعد پے درپے واقع ہوئے۔ آپ کی وفات کے بعد اسباط بنی اسرائیل میں تفرقہ پڑگیا۔ اور ان کی جدا گانہ سلطنتیں جو ایک دوسرے کی ر قیب تھی قائم ہوگیئں۔ دو اسباط یعنی یہود اور بنیامین نے رجیام بن سلمان کی اطاعت کی لیکن دس اسباط بغاوت کر کے علیحدہ ہوگئے۔ اور بجانب شمال سماویہ کو اپنا درالسلطنت قرار دیا۔ عبادت الہٰی کے ساتھ سونے کے بچھڑوں کی بھی پرستش کرنے لگے۔ (ملوک اول 12/28،30 آخر 774 قبل مسیح میں آسٹریلیا والوں نےاس سلطنت کو تباہ کیا۔ اور بنو اسرائہل کو نینوا پکڑ کر لے گئے اس طورسے دس اسباط فنا ہوگئے۔ یا بت پرست قوموں میں جزب ہوکر یہودیت سے ہمیشہ کے لئے علیحدہ وہوگئے۔ دوسری سلطنت کو بھی 586 ق م میں بخت نصر تاجدادر بابل نے برباد کیا۔ اور بہت المقدس کو مع تورات و تبرکات کے جلا کر خاک سیاہ کردیا۔
532 ق م عزرا اور نحیاہ کی کوششوں سے بیت المقدس کی تکمیل ہوئی۔ عزرا نے توراۃ یعنی سلسلہ اول کی پانچ کتابوں کو مورخانہ حیثیت سے قلم بند کیا۔ پھر نحمیا نے دوسرے سلسلہ رنبیم کی کتابوں کو مع زبور جمع کیا۔ (کتاب سقا بیان دوم 2/32) دو سو برس بعد یونانیوں کی فتوحات کا سیلاب آیا۔ انطاکیہ کے یونانی بادشاہ انٹو نیس نے بیت المقدس میں یونانی ریوتازئیس کامندر بنادیا۔ اور تورات وغیرہ کی تلاوت بند کردی۔ یہہود کے شعائر کی ممانعت کردی۔ ؛پھر تمام مقدس صحیفوں کو جلودیا۔ یہ کتب مقدسہ کی دوسری بار تباہی ہوئی۔ پھریہود امقابی نے شاہ انطاکیہ کو شکست دی بیت المقدس کو پاک صاف کیا اور مقدس محض اپنی باد سے جمع کیا۔ ساتھ ہی تیسرے سلسلے کتبیہ کا کا بھی اضافہ کردیا۔ اب رومیوں کی تلوار چمکی ۔ 7 ستمبر 70 کو ٹائٹس رومی نے بہت المقدس کو فتح کرکے ہیکل سلیمانی کو مسمار کردیا۔ اور مقدس صحیفوں کو بطور یادگار فتح کے رومہ سے گیا۔ (ملخص) (اہل حدیث امرتسر۔ ص8-9 ربیع الثانی ص1351ہجری)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب