سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(80) چند دینی سوال

  • 5863
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1067

سوال

(80) چند دینی سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

چند دینی سوال


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہمارے پا س یہ سوال عیسائی کالج لاہور کے پروفیسر یوسف خان نے بھیجے ہیں۔ جو مع جواب درج زیل ہیں۔

براہ کرم مفصلہ زیل سوالات کے جوابات مختصر یا مفصل جیسی رائے ہو جلالہ عنایت فرما کرشکر گزاری کا موقع دیجئے گا۔ یہ سوالات محض احقاق اور حقیقت پسندی کی خاطر کیے گئے۔ ہیں تاکہ مختلف مذاہب کا موازنہ کیا جا سکے۔ آپ کی ذات سے مجھے یقین ہے کہ مجھے واقعی امداد سے محروم نہ فرمایئں گے۔

سوال نمبر 1۔ وہ طریقہ گیا ہے جس کے ذریعے سے ایک شخص آپ کے مذہب میں داخل ہوسکتا ہے۔ ؟

جواب نمبر1۔ صرف کلمہ شریف لا اله الا الله محمد ر سول الله معنی سمجھ کر بالیقین پڑھ لینے سے داخل اسلام ہوجاتا ہے۔

سوال نمبر 2۔ آپ کا مذہب اختیار کرنے کے بعد کیا اس شخص میں کوئی فوری تبدیلی ہوجاتی ہے۔

جواب نمبر 2۔ احکام اسلام کی پابندی اپنے اوپر لازمی جانے تو صحیح معنی سے شائستگی یعنی خدا خوفی پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر پہلے ہے تو اس میں ترقی ہوجاتی ہے۔ قرآن مجید میں اس کا ثبوت یوں ملتا ہے۔ ۔ وَالَّذينَ اهتَدَوا زادَهُم هُدًى وَءاتىٰهُم تَقوىٰهُم ﴿١٧سورة محمد

’’یعنی جو لوگ ایمان میں ہدایت یاب ہوئے خدا انکو ہدایت زیادہ دیتا ہے۔ اور ان کو تقویٰ نصیب کرتا ہے۔‘‘

سوال نمبر 3۔ کن احکام کی پابندی اس شخص پر عائد ہوتی ہے۔ تاکہ وہ راسخ العقیدہ موکن بنا رہے۔

جواب نمبر 3۔ قرآن مجید میں اس کی تفصیل کئی جگہ آئی ہے۔ ان میں سے ایک مقام کی فہرست درج زیل ہے۔ وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ﴿٢٣ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ﴿٢٤ رَّبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ ۚ إِن تَكُونُوا صَالِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلْأَوَّابِينَ غَفُورًا ﴿٢٥ وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا ﴿٢٦ إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا ﴿٢٧وَإِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِّن رَّبِّكَ تَرْجُوهَا فَقُل لَّهُمْ قَوْلًا مَّيْسُورًا ﴿٢٨ وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا ﴿٢٩ إِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا ﴿٣٠ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ ۚ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا ﴿٣١ وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَىٰ ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا ﴿٣٢ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّـهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۗ وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ ۖ إِنَّهُ كَانَ مَنصُورًا ﴿٣٣ وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۚ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا ﴿٣٤ وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴿٣٥ وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا ﴿٣٦ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّكَ لَن تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَن تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولًا ﴿٣٧ كُلُّ ذَٰلِكَ كَانَ سَيِّئُهُ عِندَ رَبِّكَ مَكْرُوهًا ﴿٣٨ذَٰلِكَ مِمَّا أَوْحَىٰ إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ ۗ وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ فَتُلْقَىٰ فِي جَهَنَّمَ مَلُومًا مَّدْحُورًا ﴿٣٩سورة الإسراء

’’یعنی تمہارے پروردیگار نے قطعی فیصلہ کردیا ہے۔ کے میرے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ اور ماں باپ سے سلوک کرو۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہاری موجودگی میں بڑھاپے کو پہنچیں۔ تو خدمت کرتے ہوئے ان کے سامنے ہائے تک بھی نہ کہو۔ اور ان کے سامنے نرمی سے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرتے رہو۔ کہ ہمارے رب ان پر رحم کر جیسا انہوں نے مجھ کو چھوٹی عمر میںپرورش کیا سنو!اگر تم نیک اور فرمانبردار رہو گے تو تہمارا رب بھی نیک بندوں کے حق میں بخشنے والا مہربان ہے۔ ان حقوق خداوندی اور اور آبائی کے علاوہ پھر سنو کہ قرابت داروں۔ اور مسکینوں۔ اور مسافروں کے حقوق ادا کیا کرو۔ یعنی حسب مقدور ان سے سلوک کیا کرو۔ اور فضول خرچی مت کیا کرو۔ کیونکہ فضول خرچ شیطانوں کے بھائی ہوتے ہیں۔ اور یہ شیطان تو خدا سے منکر ہے۔ اور اگر کسی بھلائی کی امید پر جس کو تم آئندہ سے توقع رکھتے ہو۔ رشتہ داروں سے سلوک نہ کرسکو۔ تو ان کو نہایت آسان اور نرم بات کیا کرو۔ جس سے ان کی دل شکنی نہ ہو۔ اور تمہاری معذرت ظاہر ہو۔ اوراپنا ہاتھ خرچ کرنے سے نہ تو بالکل بند کرلیاکرو۔ کہ کوری بھی نہ خرچ کرو۔ اور نہ بالکل فراخ دستی میں اختیارکرو۔ کہ جو ہاتھ لگا سو اڑایا۔ ایسا کرنے سے تم خود شرمندہ اور لاچار ہوجائو گے۔ سنو! یہ نہ سمجھو تمہارا رب جو تم کو خرچ کرنے کا حکم دینتا ہے۔ وہ کوئی محتاج ہے۔ بلکہ تمہارا رب ہی جس کو چاہتاہے ۔ فراخ رزق دیتا ہے۔ اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے۔ (سب قبضہ اسی کا ہے) تحقیق وہ اپنے بندوں کے حال پر بینا اور خبردار ہے۔ ان احکام کے علاوہ تمدنی احکام سنو کہ اپنی اولاد کوبھوک کے خوف سے جان سے نہ مارا کرو۔ ہم ہی ان کو اور تم کو رزق دیتے ہیں۔ بے شک ان کا قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ اورزنا کے قریب بھی نہ جانا تحقیق وہ بے حیائی اور بدکاری ہے۔ اور کسی نفس کو ناحق قتل نہ کیا کرو۔ اور جو کوئی مظلوم ماراجائے۔ ہم نے اس کے ولیوں کو حق دلایا ہے۔ پس وہ بھی قتل کرنے میں جلدی نہ کیا کریں۔ کچھ شک نہیں کہ سرکار کی طرفسے ان کی حمایت کی جائے گی۔ اور یتیم کے مال کے نزدیک بھی مت جایاکرو۔ ہاتھ سے چھونا بھی تم کو جائز نہیں ہاں جس طریق سے ان کو فائدہ ہو۔ (مثلا ان کے مال کو تجارت میں لگا کرنفع حاصل کرو) جب تک وہ جوان ہو یہی حکم ہے۔ اور عہد وپیمان کو پورا کیا کرو بے شک عہد کے بارے میں سوال ہوگا۔ کہ پورا کیوں نہ کیا۔ اورجب ناپ تول کرنے لگو تو پورا کرو۔ اور سیدھی ترازو سے تولاکرو۔ یہ تمہارے حق میں خدا کے نزدیک بہترہے۔ اوردنیا میں بھی اس کا انجام اچھاہے۔ (کہ دکان کی نیک نامی ہونے سے فائدہ پہنچتا ہے۔ ) اورجس بات کی تم کو خبر نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑا کرو۔ ( کہ خوامخواۃ دیکھے بھالے سنے سنائے کشیدہ خاطر ہو جائو) بے شک کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے سوال ہوگا۔ کہ ان کو کہاںکہاں استعمال کیا۔ اورزمین پر متکبرانہ وضع اختیار نہ کرو۔ کہہیں تم زمین کو نہیں پھاڑ سکو گے اور نہ تم لمبے ہوکر پہاڑ پر نہیں چڑھ جائو گے۔ سنو یہ تمام کام تہارے رب کے نزدیک برے ہیں۔ (پس ان سے بچتے روہ) اے پیغمبر یہ دانائی کی باتیں ہیں۔ جو تیرے رب نے تیری طرف الہام کیں۔ پس ان پر عمل کیا کر۔ اور خدا کے ساتھ شریک نہ بنائو۔ ورنہ شرمندہ اور ذلیل ہوکر تو جہنم میں ڈالاجائے گا۔ ‘‘

اس فہرست کے شروع میں جو عبادت کا حکم ہے۔ اس کی تفصیل بھی کئی ایک جگہ مذکورہے۔ کہ نماز روزہوغیرہ کیاکرو۔

نوٹ

 اس سوال کے متعلق ہمارے دو مستقل رسالےقابل دید ہیں۔ ''الفرقان عظیم''اور ''تعلیم القرآن''

سوال نمبر 4 ۔ مومنانہ زندگی بسر کرنے کا نتیجہ کیا ہوگا۔ ؟

جواب۔ مومنانہ ذندگی کا نتیجہ دنیا اور آخرت میں پاک زندگی ملتی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔ مَن عَمِلَ صـٰلِحًا مِن ذَكَرٍ‌ أَو أُنثىٰ وَهُوَ مُؤمِنٌ فَلَنُحيِيَنَّهُ حَيو‌ٰةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجزِيَنَّهُم أَجرَ‌هُم بِأَحسَنِ ما كانوا يَعمَلونَ ﴿٩٧ سورة النحل

’’ یعنی جو کوئی ایمان داری کی حالت میں نیک کام کرے۔ مردہو یاعورت ہم (خدا) اس کو پاک زندگی بخشتے ہیں۔ اوران کو بہت اچھابدلہ دیتے ہیں۔‘‘

سوال نمبر 5۔ مومنانہ زندگی کا معیار آپ کی کتاب میں پیش کیاگیاہے۔ ؟ اس معیار تک پہنچنے کے لئے آپ کی کتاب اس شخص کو کیا طاقت عطا کرتی ہے۔ ؟

جواب۔ نمبر 5۔ اس سوال کا مطلب میں یہ سمجھا ہوں کہ مومنانہ زندگی حاصل کرنے کازینہ یا کورس کیا ہے؟ اور مومنانہ زندگی حاصل کرنے کے بعد مومن کی پہچان کیا ہے۔ اس کا جواب قرآن مجید کے کئی ایک مقامات سے ملتا ہے۔ مگر بغرض اختصار ہم ایک ہی نقل کرتے ہیں۔ ارشاد ہے۔

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّـهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ﴿٢ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿٣ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَّهُمْ دَرَجَاتٌ عِندَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ ﴿٤سورة الأنفال

اس آیت میں تین مضمون بیان ہوئے ہیں۔ تینوں سوال ہذا سے تعلق رکھتے ہیں۔ پہلے نمبر میں مومنانہ زندگی کامعیاربتایا ہے۔ دوسرے میں کورس یا زینہ کا بیان ہے۔ تیسرے میں نتیجے کا بیان ہے۔ اب سنئے اس آیت کا ترجمہ ارشا ہے۔

1۔ کچھ شک نہیں ایماندار وہ لوگ ہیں۔ جب اللہ کا زکر کیاجاتا ہے۔ ان کے دل کانپ جاتے ہیں۔ اور جب ان کو خدائی احکام سنائے جاتے ہیں۔ تو ان کا ایمان بڑھتا ہے۔ اوروہاپنے رب پر بھروسہ کیاکرتے ہیں۔

2۔ یعنی یہ وہ لوگ جو نماز ادا کیا کرتے ہیں۔ اور ہمارے دیئے ہوئے نیک کاموں میں سے تھوڑا خرچ کیا کرتے ہیں۔ یہی پکے مومن ہیں۔

3۔ خدا کے نزدیک ان کے بہت درجے ہیں۔ اور بخشش ہے اور عزت کی روزی۔

پس یہ تینوں نمبرز سوال کے دونوں چیزوں کے علاوہ تیسرے فائدے (بیان نتیجہ ) پر حاوی ہیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 270-274

محدث فتویٰ

تبصرے