السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حدیث 73 فرقوں والی صحیح نہیں ہے۔ مگر بناوٹی بھی نہیں ہے۔ کیونکہ بناوٹی موضوع کو کہتے ہیں۔ البتہ ضعیف ہے۔ (یکم محرم الحرام 1365ء)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث 73 فرقوں والی صحیح نہیں ہے۔ مگر بناوٹی بھی نہیں ہے۔ کیونکہ بناوٹی موضوع کو کہتے ہیں۔ البتہ ضعیف ہے۔ (یکم محرم الحرام 1365ء)
73 فرقوں والی حدیث کو امام احمد ترمذی۔ و ابو داؤد حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے۔ ترمذی نے اس کو حسن غریب کہا ہے ایک راوی ترمذی کی سند میں مختلف فیہ ہے بعض نے اس میں کلام کیا ہے۔
والامام بخاري يقوي امره ووثف هيضا يحيي بن سعيد القطان وسند احمد والحاكم حسن (تنقیع الرواۃ ج 1 ص 41)
حدیث بالا کے ماتحٹ فرقہ ناجیہ کی تشریح
حضرات فرقہ ناجیہ کا خیال ایک حدیث شریف سےاٹھتا ہے۔ جس کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ آپﷺ نے فرمایا! ’’کہ میری امت تہتر فرقوں میں مقسم ہوجائے گی ایک فرقہ کے سوا باقی سب دوزخ میں جایئں گے۔‘‘
اس ایک فرقہ کو قائم رکھنے میں حکمت خاونددی یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کی ساری امت گمراہ نہ ہوجائے۔ اور دین محمدی ﷺ ختم نہ ہوجائے۔ نیز یہ کہ اس فقہ حصہ سے دوسروں پر حجت پوری ہوتی رہے۔ چنانہچہ شاہ ولی اللہ صاحب حجۃ اللہ میں فرماتے ہیں۔ فان لله طائفة من عباده لا يضرهم من خذ لهم حجة الله في الارض (حجۃ اللہ مصری جلد اول صفحہ 153) ’’یعنی اللہ تعالیٰ کے بندوں سے ایک گروہ ہے جن کو وہ شخص جو ان کا ساتھ چھوڑ دے کچھ بھی ضرر نہیں پہنچا سکتا اور وہ زمین میں خدا کی حجت ہیں۔‘‘
اگلے دین اسی سبب سے محرف ہوگئے کہ اختلاف کے وقت ان میں کوئی فرقہ بھی سنن انبیاء پر قائم نہ رہاتھا۔ یہ امر اس شخص پر بہت آسان ہے۔ جو تاریخ یہود و نصاریٰ اور ان کی کتابوں کا مطالعہ گہری نظر سےکرے۔ اور ان کے باہمی اختلافات کو فکر صائب سے سوچے۔
یہ ایک فرقہ کون سا ہوگا۔ ؟جن لوگوں کی آنکھ پر تخرب و ت تشنیع کی پٹی بندھی ہوئی ہے۔ وہ حقیقت کو نہ دیکھتے ہوئے یہی زعم کریں گے۔ کہ وہ بس فرقہ ہمارا ہی ہے۔ باقی سب فی النار والمسقر4۔ جیسا کہ اگلی امتوں کے اختلاف کی نسبت ان کے مزعومات کا زکر کیا۔
’’ ترجمہ۔ یعنی انبیاء علھیم السلام ک بعد ان کی امتوں نے دین (واحد) کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ اور ہر فرقہ اپنے عندیئے پر نازاں ہورہاہے۔ ‘‘ (مومنون) لیکن قربان جایئں اس رسول پاکﷺ کے کہ آپﷺ نے اس فرقہ ناجیہ کی حیققت پر کوئی پردہ نہیں رہنے دیا۔ اور اس کی تعین کے لئے ہمین بھول بھلیوں میں نہیں چھوڑ گئے کہ ہر کوئی اپنے مزعومات و تخیلات وتوہمات پر ڈینگیں مار سکے۔ چنانچہ حدیث مذکور الفوق کا تتمہ یوں ہے’’صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا حضرت! وہ فرقہ کونسا ہوگا۔ آپﷺ نے فرمایا!مااناعلیہ واصحابی یعنی جو اس طریقے پر ہوں گے جس پر میں ہوں اور میرے صحابہرضوان اللہ عنہم اجمعین ہیں۔‘‘
حدیث کے پہلے ٹکڑے یعنی اختلاف امت اور مختلف فرقے بن جانے کی تصدیق واقعات نے کردی۔ اوراس کے لئے اب کسی حالت منتظرہ کا انتظار باقی نہیں ہے تو کیا دوسرا ٹکڑا تعین مصداق کے سوا ہی رہے گا۔ یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ مخبر صادق کی خبر ایک جزو تو درست اترے اور دوسری میں ہم ڈاواں ڈول رہیں۔ اب تعصب کی پٹی کھول کر ما انا علیہ و اصحابی۔ کے مطابق ہر فرقے کے مسائل (اصولی و فروعی) کو دیکھ لیا جائے۔ جس کےعقائد اور عملیات سنت رسول اللہﷺ کے مطابق اور تعامل صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے موافق ہوں۔ اس کو حق پر جانتے ہوئے اس میں شامل ہو جائے۔ بس اللہ اللہ خیر سلا۔ نہ اس میں آپ کوئی تردد ہ ہوگا نہ ہونا چاہیے۔
اس حقیقت کو مکدر کرنے کےلئے قرآن وحدیث کے نصوص میں بہت کچھ کھینچ تان کی گئی ہے۔ اور طرح طرح کی تاویلات بلکہ تحریفات سے کوشش کی گئ ہے۔ کہ اپنے مرجومات کو قرآن وحدیث سے ماخؤذ بنایا جائئے۔ لیکن حضرات میں یہ مضمون ایک ایسے طرق پر بیان کرتا ہوں۔ جس میں اپنے اپنے خیال کی پچ نہیں ہے اور وہ فرقہ بندی کی قید سےآذاد ہے۔ حقیقت مطلوبہ کو نمایاں کرنے کے لئے ایک اور امر کی وضاحت ضروری ہے۔ جس پر اس کی بنیاد ہے۔ وہ یہ کہ صحیح بخاری میں حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور صحیح مسلم میں حضرت جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور ثوبانرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رویات ہے۔ آپﷺ نے فرمایا! ’’میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ رہے گا۔ جو حق پر لڑتا رہے گا۔ حتیٰ کہ خدا کا حکم آجائے۔ اوروہ اسی ھالت معنونہ پر ہوگا۔ ‘‘
اس وقت میرا استدلال حدیث کے لفظ ''لا تزال'' (ہمیشہ رہے گا۔ ) سے ہے۔ کہ آپﷺ اپنی امت میں سے ایک جماعت کے ہر زمانے میں قائم رہنے کی بشارت سناتے ہیں۔ اس بنا پر ہم کو تاریخی طور پر دیکھنا چاہیے کہ کس فرقے کا وجود بلحاظ عقائد وعملیات کے ہر زمانے میں پایا جاتا رہا ہے۔ یا یہ کہ کسی کی روش کے آثار حوادث کی پائمالی سے کسی زمانے میں بھی نہیں مٹ سکے۔ سو معلوم ہوا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے آخری سال میں ایک یہودی النسل شخص عبد اللہ ابن سبا نے آپ کے برخلاف سیاسی ایجی ٹیشن شروع کی جس سے سبائی دو جماعتیں بن گئیں۔ اور اس کا انجام حضرت عثمانرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت سے ہوا۔ آپ کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ ہوئے اور سبائی ان کے ساتھ ہوگئے۔ عثمانی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خون کا انتقام لینے کے لئے ان کے بالمقابل کھڑے ہوگئے۔ اور باقاعدہ صف آرائی سے جنگ شروع ہوگئی۔ جنگ صفین میں اس بات پر لڑائی تھم گئی کہ ایک منصف حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے اور ایک حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے مقرر ہو۔ وہ جو فیصلہ کریں طرفین کے وہ فیصلہ منظور کرنا ہوگا۔ سبائی صلح نہیں چاہتے تھے کہ ایک بہانے سے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک انسان کا کہنا ماناہے۔ اور خدا کو چھوڑ کر انسان کا کہنا ماننا شرک ہے۔ کوئی بارہ ہزار سبائی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طاعت سے خارج ہوگئے۔ اور انکا نام خارجی ہوا۔ جو لوگ حضرت علیرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طرف دار تھے۔ ان کے مقابلہ ان کا نام شعیان علی۔ یعنی حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جماعت پڑا۔ اس فتنہ عظیم کے وقت ایک بڑی جماعت غیر جانبدار رہی۔ اور انہوں نے کسی طرف بھی حصہ نہ لیا۔ اس لئے کہ کہ آپﷺ نے ایسے موقع پر فتنے میں حصے نہ لینے کی بابت حکم دیا تھا۔ آہستہ آہستہ اس سیاسی فتنے نے مذہبی صورت اخیتار کرلی۔ اور ہر طرح کی عملی اور اعتقادی بدعات شروع ہوگئیں۔
جس طرح ایک کثیر جماعت نے سیاسی فتنے میں حصہ نہیں لیا تھا۔ اور ہر طرح سے فتنے سے بچتے رہے تھے۔ اس طرح ان بدعات کے وقت بھی ایک بھاری جماعت طرز اول او طرز قدیم پر قائم رہی۔ یعنی آپﷺ کے عہد میں اور اس فتنے سے پہلے صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے دور کے وقت میں جو دین کی حالت تھی۔ اس پر قائم رہی۔ اور ان کا نام اہل سنت ہوا۔ ان اہل بدعت کی (بدعی روایات کی قبولیت سے پرہیز کرتے رہے۔ چنانچہ محمد بن سیرین تابعی کا قول ہے۔
فينظر الي اهل السنة فيوخذ حديثهم وينظر الي اهل البدع فلا يوخذ حديثهم (مقدمہ صحیح مسلم)
اس قول سے معلوم ہوا ک ہ امام محمد بن سیرین کے وقت تک ایک گروہ کا نام اہل سنت پڑ چکا تھا۔ جن کی رویاات قابل اعتبار سمجھی جاتی تھیں۔ امام ابن سیرین تابعی ہیں۔ اپنے وقت کے امام تھے 33ھ میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت میں پیدا ہوئے۔ بڑے بڑے مشہور صحابہرضوان اللہ عنہم اجمعین سے روایت لی ۔ مثلا ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ۔ حضرت انس بن مالکرضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عبد اللہ بن زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابو سعید خدریرضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابو درداءرضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابو قتآدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ (نواسہ رسولﷺ) وغیرہم۔ رضوان اللہ عنہم اجمعین آپ کی وفات ستتر سال کی عمر میں 9 شوال 110ھ کو ہوئی۔ اس سے صاف ثابت ہے کہ اہل سنت نام پہلی صدی ہجری میں پڑ چکاتھا۔ اور جو یہ کہا جاتا ہے کہ اہل سنت کا مذہب مذاہب اربعہ (حنفی ۔ مالکی۔ شافعی۔ اورحنبلی) میں منحصر ہے۔ ااور جو کوئی ان چاروں کی تقلید سے خارج ہو۔ وہ اہل سنت سے خار ج ہے۔ صریحا غلط ہے۔ کیونکہ پہلی صدی ہجری مں ان مذاہب اربعہ کا وجود کزائی ہرگز موجود نہیں تھا کیونکہ حنفی امام ابو حنیفہ ؒ کی طرف منسوب ہیں۔ آپ80ھ میں کوفہ میں پیدا ہوئے۔ اور 150ہجری میں بغداد میں قید خانہ میں ظلما شہید کئے گئے۔ اور مالکی امام مالک کی طرف منسوب ہیں۔ اور آپ 93ھ میں مدینہ طیبہ میں پیدا ہوئے۔ اور اسی پاک زمین میں 179ھ میں فوت ہوئے۔ اورشافعی امام محمد بن ادریس شافعی کی طرف منسوب ہیں۔ اور آپ 150ھ میں پیدا ہوئے اور 204ھ میں مصر میں فوت ہوئے۔ اور حنبلی امام احمد بن حنبل کی طرف منسوب ہیں۔ آپ 164 میں بغداد میں پیدا ہوئے اور بغداد ہی میں 241ھ میں فوت ہوئے ۔
اس تفصیل سے معلوم ہواکہ پہلی صدی ہجری میں مذاہب اربعہ کا وجود ہی نہیں تھا۔ تو ان کی تقلید کہاں تھی ؟کہ جو شخص ان کی تقلید سے خارج ہے۔ وہ اہل سنت سے خارج ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ معاذاللہ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین اور تابعین اہل سنت نہ تھے۔ یہ کیسی غلط اور بے معنی بات ہے۔ کہ آئمہ اہل سنت اہل سنت تھے کیونکہ اہل سنت نام تو ان آئمہ سے پیشتر ہی مشہور و مروج ہوچکاہے۔ اب نفی کے کیا معنی؟
نیز کہ صحیح بخاری میں حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے۔ کہ آپ ﷺ نے فرمایا!خير امتي قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم قال عمران فلا ادري اذكر بعد قرنه مرتين او ثلا ثا (الحديث)
’’ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں سے میرا زمانہ سب سے بہتر ہے۔ پھر وہ لوگ جو ان سے ملیں گے۔ یعنی ان کے بعد ہوں گے۔ پھر وہ جو ان سے ملیں گے۔ حضرت عمران صحابیرضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں رہا۔ کہ آپﷺ نے اپنے زمانے کے کر کے بعد دو دفعہ (دو زمانوں کا) زکر کیا یا تین دفعہ۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہواکہ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین و تابعین و اتباع تابعین بہترین امت ہیں۔ اور انہی کو قرون ثلاثہ کہتے ہیں۔ اور چونکہ آپ ﷺ نے ان کی خیریت کی شہادت دی ہے۔ اس لئے انھیں مشہود لہا بالخیر کہتے ہیں۔ ان تین زمانوں کی حدیں بھی سن لیئے۔
پیارے بھایئو!میں پھر عاجزی سے کہتاہوں کہ میں کوئی بات بھی اپنی طرف سے بنا کر نہیں کہتا جوکچھ کہتا ہوں صحیح صحیح کتابی حوالہ سے کہتاہوں۔ اور خدا کے فضل سے وہ بات ہوتی بھی حق ہے۔ اور درست ہے۔ اور مطابق واقعہ عقل و دین میں مقبول ہے۔ واللہ الموفق
1۔ آپﷺ کا زمانہ 11ھ تک رہا۔ یعنی آپﷺ کی وفات 11 ہجری میں ہوئی۔
2۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا زمانہ 110 ھ تک رہا۔ کیونکہ آخری صحابی ابو الطفیلرضی اللہ تعالیٰ عنہ 110 ھ میں فوت ہوئے۔
3۔ تابعین کا زمانہ 180ھ تک رہا اور
4۔ اتباع تابعین کا زمانہ 220 ھ تک رہا۔
ان زمانوں کی مذکورہ بالا تحدید فتح الباری (ج 14 353) اور تدریب الراوی ص 209۔ 215) میں مذکور ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ قرون خیاد کی میعاد 180 ھ تک یا زیادہ سے زیادہ 240 ھ تک ہے۔ اور ان چار مذہبوں کی تقلید اس وقت تک نہیں تھی۔ کیونکہ چوتھے امام احمد کی وفات 241ھ میں ہوئی۔ اور یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ امام احمد کی تقلید ان کی زندگی میں واجب جانی جاتی تھی۔ پس جس طریق پر قرون ثلاثہ مشہود لہا بالخیر گزرے۔ وہی طریقہ حق اور موجب نجات ہے۔ اور وہ کیا تھا۔ ؟بغیر ایچ پیچ اور کھینچ تان کے اور بغیر کسی خاص شخص کی تقلید کے قرآن وحدیث پر عمل کرنا چنانچہ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں۔
اعلم ان الناس كانوا قبل المائة الرابعة غير مجمعين علي التقليد الخامص لمذهب واحد بعلينه (حجتہ اللہ مطبوعہ مصر جلد اول ص 152)
’’اس بات کو جانے رکھو کہ (امت محمدیہ کے ) لوگ چوتھی صدی (ہجری) سے پیشتر بعینہ کسی خاص مذہب کی تقلید پر جمع نہیں تھے۔
ان تاریخی حوالوں کے بعد یہ کہناچاہتا ہوں کہ جماعت اہل حدیث کو اہل سنت کا مصداق قرار دینا میرا اپنا اختراع و ایجاد نہیں ہے۔ بلکہ آئمہ محدثین انھیں کو قرار دیتے ہوئے آئے ہیں۔ چنانچہ امام ترمذی حضرت قرہ بن ایاس صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث نقل کر کے لکھتے ہیں۔
قال محمد بن اسماعيل (البخاري) قال علي بن مديني هو اصحاب الحديث (ترمذی جلد 2 ص 42)
’’امام بخاری نے کہا کہ میرے استاد علی بن مدینی نے کہا کہ وہ اصحاب حد یث ہیں۔‘‘ اسی طرح حافظ ابن حجر ؒ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں۔
اخرج العالم في علوم الحديث بسند صحيح عن احمد ان لم يكونة اهل الحديث فلا ادري من هم امام حاکم نے اپنی کتاب علوم الھدیث میں امام احمد سے بسند صحیح نقل کیاہے کہ آپ نے فرمایا! اگر ان سے مراد اہل حدیث نہیں تو پھر میں نہیں جانتا کہ وہ لوگ کون کراد ہیں''اور حضرت پیران پیر صاحب فرقہ ناجیہ کے زکر میں فرماتے ہیں۔ کہ ان کا نام تو بس اصھاب الحدیث اور اہل سنت ہی ہے۔ (غنیہ ص212 مترجم فارسی)
اسی طرح امام ابن حزم قرطبی فرماتے ہیں۔
’’اہل سنت جن کو ہم اہل حق کے نام سے یاد کریں گے اور ان کے سوا کو اہل باطل کہیں گے۔ پس تحقیق وہ اہل سنت تو صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین ہیں۔ ارو نیک تابعین میں سے ہر وہ جو ان کے طریق کی پیروی کرے۔ پھر ان کے بعد اصحاب حدیث ہیں۔ اور ہمارے اس زمانے تک جس قدر فقہا یکے بعد دیگرے جو بھی ان کے پیرو ہوئے دنیا کے مشرق و مغرب تک وہ سب عوام بھی جنھوں نے ان کی پیروی کی ان سب پر خدا کی رحمت ہو۔ اس لقب سے معلوم ہوگیا کہ لفظ اہل سنت کے پورے مستحق اہل حدیث ہیں۔ اور انہی کی بابت آپﷺ کلی نجات کی بشارت سنا رہے ہیں۔
بعضج لوگ کہا کرتے ہیں کہ جماعت اہل حدیث تھوڑے عرصے سے قائم ہوئی ہے۔ یہ بات بالکل غلط اور تاریخی ناواقفیت کی وجہ سے ہے۔ ہم فقہ کی ایک مشہور اور معتبر کتاب کے حوالے سے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جماعت اہل حدیث اللہ کے فضل سے قدیمی گروہ ہے۔ بلکہ ہر چہار مذاہب کے قائم ہونے سے بھی پہلے کی ہے۔ چنانچہ شامی در مختار میں ہے۔
''روایت ہے کہ قاضی ابو بکر جوزجانی کے عہد میں ایک حنفی نے ایک اہل حدیث سے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگا تو اس اہل حدیث نے انکار کردیا۔ مگر اس صورت میں کہ وہ حنفی مذہب چھوڑ دے۔ اورامام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھا کرے۔ اور رکوع جاتے وقت رفع الیدین بھی کیا کرے۔ مثل اس کے اہل حدیث کے دوسرے کام بھی کیا کرے۔ پس اس حنفی نے اس بات کو منظور کرلیا تو اس اہل حدیث نے اپنی لڑکی اس کے نکاح میں دے دی۔ '' (شامی جلد نمبر 3 ص 293)
اب قاضی ابو بکر جوز جانی کا زمانہ دیکھنا چاہیے کہ کونسا زمانہ ہے۔ ؟
آپ تیسری صدی کے قاضی ہیں۔ اور ابو سلیمان کے شاگرد ہیں۔ اور وہ بلاواسطہ امام محمد کے شاگر دتھے۔ (الفوائد البہیہ ص12) اس حوالے سے صاف ظاہر ہے کہ تیسری صدی میں بھی مستقل ایک گروہ موجود تھا۔ جن کو لوگ اصحاب الحدیث یا اہل حدیث پکارا کرتے تھے۔ اور ان کے امتیازی مسائل میں سے قراءت خلف الامام۔ اور رکو ع جاتے وقت رفع الیدین بھی تھے۔ کیا اس زمانے بھی انہی مسائل کی وجہ سے اہل حدیث سے عداوت نہیں کی جاتی۔ جس کے جواب میں ہماری طرف سے صرف یہی مظلومانہ آواز ہے۔
مکش بہ تیغ ستم والہان سنت را نکروہ اندبجز پاس حق گناہ وگر
(محمد ابراہیم سیالکوٹی۔ (اہل حدیث امرتسر 27 رمضان 1350ہجری)
سوال۔ عامل بالحدیث جو تقلید شخصی کا قائل نہیں جس کے اعتقاد کا مدار فقط حدیث ر سول اللہ ﷺ پر ہو۔ او ر وہ خود کو آئمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی جانب منسوب نہیں کرتا بلکہ خود کو اہل حدیث کہلاتا ہے۔ کیا یہ بدعت نہیں۔ اور اس سے ایک نیا فرقہ اسلام میں پیدا نہیں ہوتا۔ خدائے پاک نے ہم کو قرآن مجید میں مسلم او ر مسلمان کے پیارے لقب سے یاد کیا ہے۔ اتنا بس نہیں۔ ؟کیا خلفاء راشدینرضوان اللہ عنہم اجمعین یا تابعین تبع تابعین میں سے کسی نے اپنے کو اہل حدیث کہلایا پھر یہ کیسے جائز ہوسکتاہے۔ ؟
جواب۔ اہل حدیث میں جو لفظ حدیث ہے۔ اس کا مضاف الیہ رسول اللہﷺ ہیں۔ پس معنی اس لقب کے یہ ہیں۔ کہ حضرت محمد رسول اللہﷺ کی تعلیم پر عمل کرنے والے یہی معنی مسلم کے ہیں۔ دیگر فرقوں کی نسبتیں اس کی طرف نہیں۔ آپ خود دیکھ لیں۔ حنفی اور شافعی کے کیا معنی ہیں۔ ان بزرگوں کی طرف منسوب ہیں۔ اس لئے یہ لقب ایک جدید فرقہ پیدا کرتے ہیں۔ اہل حدیث کا لفظ جدید فرقہ پیدا نہیں کرتا۔ رہا یہ سوال کہ یہ لقب پہلے نہ تھا۔ اب کیوں رکھا گیا؟اس کا جواب یہ کہ اسلام میں جب مذاہب مختلفہ ہوئے۔ تو ایک فریق اس وقت بھی ایسا تھا۔ جس کا یہ دعویٰ تھا کہ ہم مذہبی امور میں کسی اور کی بات نہ سنیں گے۔ نہ عمل کریں گے۔ بلکہ خاص رسول اللہ ﷺ کی تعلیم بصورت قرآن و حدیث ہماری نصب العین رہے گی۔ چونکہ قرآن مجید امت میں مشترک تھا اور حدیث ہی مابہ الامتیاز چیز تھی۔ اس لئے اس گروہ کا نام اصحاب الحدیث یا اہل حدیث مشہور ہوگیا۔ پس یہ اہل حدیث عملی امتیازی لقب ہے۔ مسلمان مذہبی لقب ہے۔ در حقیقت دونوں کا مصداق ایک ہے۔ (جمادی الثانی ا1345 ہجری)
یہ نام مرفوع حدیث اور صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین سے ثابت ہے۔
عن انس قال قال النبي صلي الله عليه وسلم اذا كان يوم القيامة يجيي اصحاب الحديث و معهم المحابر فيقول الله لهم انتم اصحاب الحديث الي قوله انطلقوا الي الجنة اخرجه الطبراني (القول البدیع للسخاوي ص189) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو اہل حدیث کہا (دیکھو اصابہ ج3 ص202) تذکرۃ الحفاظ ج1 ص29) حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی اہل حدیث کہا گیا۔ (دیکھو تاریخ بغداد ج3 ص 227 و ج9 ص 154) حضرت ابو سعید خدری نے فرمایا!
انتم خلوفنا واهل الحديث بعدنا ( کتاب الشرف للخطیب ص 21)
امام شعبی تابعی جنھوں نے 500 صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کو دیکھا اور 48 صحابیوں رضوان اللہ عنہم اجمعین سے حدیثیں پڑھیں تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تمام صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین اہل حدیث تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ ج1 ص 72)
لا تزال طائفة من امتي منصور ين لا يضرهم من خذ لهم الخ
جس طائفہ حقہ کی بابت حضورﷺ نے پیشگوئی فرمائی ہے۔ ابن مدینی جو امام بخاری کے استاد ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے اصحاب الحدیث مراد ہیں۔ (رواہ ترمذي وقال حدیث حسن صحیح مشکواة ج2 ص 584)
ایک مخلص دوست نے کہا ہے کہ اہل حدیث اہل حدیث کیوں کہلاتے ہیں۔ چونکہ سوال وجواب عام ناضرین اور جماعت اہل حدیث سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لئے درج اخبار کیے جاتے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں۔ مولانا دام فیوضکم: السلام و علیکم ! آپ کا اور مولانا ابراہیم سیالکوٹی صاحب کا دعویٰ ہے کہ ہم اہل حدیث ہیں۔
اہل حدیث کون تھے؟
اس ہیچدان کے خیال میں اہل حدیث وہ لوگ تھے جو کہ کسی خاص مجتہد کی تقلید نہیں کرتے تھے۔ بلکہ مسئلے کو پہلے قرآن مجید حدیث شریف صحابہ کرام کے عمل سے تلاش کرتے۔ پھر مجتہدین کی عرق ریزی سے فائدہ اٹھاتے پھر اپنا دماغ خرچ کرتے۔
اصل مذہب بھی یہی ہے احقر بھی اسی کو قابل عمل یقین کرتا ہے۔
کیا وہ اہل حدیث کہلائے؟
میرے خیال میں اس درجے کے علماء نے اپنے آپ کو اس نام سے بالکل نہیں گردانا بلکہ دوسرے علماء نے واسطے شناخت ان کا نام ایسا رکھ دیا۔ کیونکہ حنفی ۔ شافعی ۔ مالکی۔ حنبلی۔ کے مقابلہ میں ان کا نام اہل حدیث رکھا۔ انہوں نے اپنے نام کے ساتھ یہ لفظ بالکل نہیں لگایا ۔
کیا عامی لوگ بھی اہل حدیث کہلا سکتے ہیں۔ ؟
جوہری وہ ہے کہ جو ہر قسم کے جوہر سے پوری مہارت رکھتا ہو ہر فرد جوہری نہیں ہے۔ مولوی وہ ہ کہ جو علوم شرعیہ عربی فارسی سے واقف ہو۔ ہرآدمی مولوی نہیں کہلاسکتا۔ بالکل اسی طرح اہل حدیث وہ ہے۔ جو کہ مذکورہ تعریف پر پورا اترے۔ جس کو قرآن مجید پرھنا نہیں آتا۔ یا بالکل ان پڑھ ہے۔ وہ اہل حدیث کس طرح ہوسکتا ہے۔
آج کل کے اہل حدیث ان پڑھ یا معمولی لیاقت کے آدمی کیا ہیں۔ ؟
حضرت مولانا آپ معاف فرمایئں گے۔ اگراحقر آپ کے پیروں کو آپ کا مقلد کہے جو کہ ددر اصل صحیح ہے کیا وجہ ۔ سوا اس کا جواب یہ ہے کہ میں قرآن مجید کو نہیں جانتا۔ اورنہ ہی حدیث شریف کو لہذا میرے ئے ضروری ہے کہ میں آپ کے علم پر بھروسہ کروں۔ اور آپ سے فتوے طلب کرکے اس پر عمل کروں۔ بس اسی کو مقلد کہتے ہیں۔ لہذا اس بات سے بخوبی ثابت ہے۔ کہ عامی لوگ مقلد ہوتے ہیں۔ خواہ آپ کے مولوی صاحب کے یا اپنے شہر کے یا اپنے قاضی کے۔
کیا آپ کا مقلد اچھا ہے یا آئمہ اربعہ کا؟
میرے خیال میں آئمہ اربعہ کا مقلد آپ کے مقلد سے اچھا ہے۔ کیونکہ وہ عالم بے بدن فاضل اجل تھے۔ اسن کے علم اور تقویٰ میں کسی کو کلام نہیں۔ انھوں نے اپنی زندگیاں فی سبیل اللہ خرچ کردیں۔ اوراپنے مرشد کامل پیر اکمل حضرت محمد رسول اللہﷺ کی امت کے لئے فقہ تدوین کی۔ اور نہایت جانفشانی دیانتداری اورہر طرح کی مصیبت جھیلنے سے ہر ایک مسئلے کی بال کی کھال نکالی اور کتابیں تصنیف کیں۔ تاکہ عامۃ المسلمین ان کی تصنیفات سے مستید ہوویں۔ اور جوکچھ کیا فی سبیل اللہ کیا اور آپ بھی انہی بزرگوں کے خوشہ چین ہیں۔
لہذا صاف ثابت ہے کہ عامہ مسلمین کا مقلد ہونا ضروری ہے اور آئمہ اربعہ کا مقلد موجودہ عالموں کے مقلدوں سے اچھا اور افضل ہے۔
مذاہب اربعہ لکھا جاتا تھا تو کہا جاتا تھا کہ ان چاروں مذہبوں کے مقلدین نے اہل سنت والجماعت کو چار ٹکڑوں میں تقسیم کردیاہے۔ اور یہ تقسیم نہایت ہی بری ہے۔ وغیرہ وغیرہ لیکن جب سے ایک گروہ نے دعویٰ کیاہے۔ کہ ہم اہل حدیث ہیں۔ اور ہم ہی اصل مسلمان ہیں۔ اس سے ہمارے پانچ گروہ ہوگئے ہیں۔ حنفی شافعی مالکی حنبلی۔ اہل حدیث۔ اس قسم کے الزام میں جیسے کہ ایک حنفی پر تشنیع کی جاسکتی ہے۔ بالکل اتنی ہی کا اہل حدیث بھی مستحق ہے۔ سر مو فرق نہیں ہے۔ لہذا بالکل واضح ہوگیا کہ مذکورہ پانچ گروہوں میں شامل ہونے والا اہل سنت والجماعت کو پانچ گروہوں میں تقسیم کرنے والا ہے۔
ہم کو کیا کہلاناچاہیے؟
اس بات میں ہم کو کسی اور شخص عالم ۔ مجتہد۔ بادشاہ۔ امیر کی تابعداری نہیں کرنی چاہیے۔ بموجب ۔ اتَّبِعوا ما أُنزِلَ إِلَيكُم مِن رَبِّكُم وَلا تَتَّبِعوا مِن دونِهِ أَولِياءَ ۗ اب دنیا کی ساری کتابوں کو الگ کردیجئے۔ کہ قرآن کریم ہمارا نام کیا رکھتا ہے۔ آیئئے قرآن مجید کھولیے اور پڑھیے۔
1۔ وَنَزَّلنا عَلَيكَ الكِتـٰبَ تِبيـٰنًا لِكُلِّ شَىءٍ وَهُدًى وَرَحمَةً وَبُشرىٰ لِلمُسلِمينَ ﴿٨٩﴾سورة النحل
2۔ قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٦٢﴾ لَا شَرِيكَ لَهُ ۖ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ ﴿١٦٣﴾سورة الأنعام
3۔ فَإِن تَوَلَّيتُم فَما سَأَلتُكُم مِن أَجرٍ ۖ إِن أَجرِىَ إِلّا عَلَى اللَّهِ ۖ وَأُمِرتُ أَن أَكونَ مِنَ المُسلِمينَ ﴿٧٢﴾سورة يونس
4۔ وَجـٰهِدوا فِى اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ ۚ هُوَ اجتَبىٰكُم وَما جَعَلَ عَلَيكُم فِى الدّينِ مِن حَرَجٍ ۚ مِلَّةَ أَبيكُم إِبرٰهيمَ ۚ هُوَ سَمّىٰكُمُ المُسلِمينَ مِن قَبلُ وَفى هـٰذا لِيَكونَ الرَّسولُ شَهيدًا عَلَيكُم ﴿٧٨﴾سورة الحج
قرآن مجید میں شاید پچاس دفعہ مسلین کا لفظ آیا ہے۔ اگرزیادہ فہرست دوں تو بہت لمبی ہوجاوے گی۔ درخانہ اگر کسی ہست بیک حرف بس است۔ مولانا آپ عالم فاضل ہیں۔ بلکہ باریک بین ہیں۔ میرے خیال میں یہ بھی ایک ٹھوکرہے۔ جو کہ ہم نے کھائی ہے۔ اور فرقہ فرقہ مبارک اسلام کو کردیاہے۔ کوئی اہل حدیث ہے۔ کوئی حنفی کوئی حنبلی وغیرہوغیرہ۔
ہم کو مسلمان کہلوانا چاہیے۔ اور شرع میں مقدم قرآن مجید اور پھر حدیث شریف پھر صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کے اقوال و افعال۔ پھر آئمہ مجتہدین کی محنت اور جانفشانی کی قدر کرنی چاہیے۔ اور دعا مانگنی چاہیے۔ (احقر العباد غلام حسین کلرک محکمہ نہر)
کچھ شک نہیں کہ اسلام ہاں سچا مذہب اسلام وہی ہے۔ جس کی تعلیم حضور پیغمبرﷺ نے امت کو دی۔ اور اپنے سامنے عمل کرتے اس کودیکھا وہ کیا تھا۔ قرآن اور سنت نبی علیہ السلام دین بس یہی دو ہیں۔ اور بس۔ ان ہی دو کی وجہ سے ہمارا نام مسلمان تھا۔ یعنی تابعدار آج اگر اس صورت اور شکل کودیکھناہوکہ جو کچھ حضور ﷺ سکھا گئے تھے کہاں ہے۔ ؟ تو اس کی پہچان صاف ہے۔ کہ ہر ایک فرقہ کے انتسابات کو دیکھا جائے۔ وہ کس کس طرف اپنے آپ کو منسوب کرتاہے۔ یعنی جو فرقہ اسلام کی ماہیت میں ایسے کچھ اجزاء داخل کرتا ہے۔ جن کا دخول نہ حضؤر ﷺ کے حکم سے ہوا۔ نہ حضورﷺ کے زمانے میں تھا تو سمجھا جائے گا۔ کہ وہ فرقہ اسلام میں بوجہ چند باتیں اضافہ کرنے کے جدید اور جو فرقہ انے اندر کسی زائد بات کو یہاں تک کے اپنی نسبت کو بھی داخل نہیں کرتا۔ وہی اسلام کا نمونہ اور وہی قدیم ہے۔ آج جس فرقہ کا نام اہل حدیث ہے۔ اس کا دعویٰ ہے۔
اصل دین آمد کلام اللہ معظم داشتن پس حدیث مصطفےٰ برجاں مسلم داشتن
یہ فرقہ نہ تو اپنی نسبت کسی غیر کی طرف کرتا ہے۔ نہ کرنا جائز جانتا ہے۔ اس فرقہ کا نام اہل حدیث بھی اسی بنا پر ہے۔ کہ یہ لوگ سوائے قرآن وحدیث کے کسی اور کلام کو حجت شرع نہیں جانتے۔ ہاں یہ بات میں صاف لفظوں میں کہتاہوں۔ کہ اس فرقہ کا نام جو اہل حدیث بولا جااتا ہے۔ یہ نام مسلمان کی طرح مذہبی اسم یا لقب نہیں بلکہ عملی طریق کا اظہارہے۔ اس لئے اگرکوئی شخص قرآن وحدیث پر عمل کرے اور اپنی نسبت کسی غیر کی طرف نہ کرے۔ تو گو وہ اہل حدیث نہ کہلائے تاہم وہ اہل حدیث کی اصطلاح میں اہل حدیث ہے۔ گووہ اپنا نام مسلمان ظاہر کرے۔ اور مسلمان کے سوا کوی دوسرا نام اپنے اوپر بولنا پسند نہ کرے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اہل حدیث مزہبی نام نہیں۔ مذہبی نام صرف مسلمان ہے اور یہ نام صرف عملی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص جس کا نام والدین نے ''ابراہیم'' رکھا ہے۔ اس کو علمی زندگی کے لہاظ سے مولوی ابراہیم کہا جاتاہے۔ اگر وہ اپنے دستخطوں میں صرف ابراہیم لکھے تو بھی وہ مولوی ابراہیم ہے۔
رد المختار میں شامی نے لکھا ہے۔ حنفی وہ ہے جسے حنفی مذہب میں بصیرت اور واقفی ہو جو کو مذہب سے واقفی نہیں اس کا اپنے آپ کو حنفی یا شافعی کہنا ایسا ہے۔ جیسے وہ اپنے آپ کو نحوی یا منطقی کہنے لگے۔ (جلد 3 مصری ص 196) اس تعریف سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان میں تمام حنفیوں کی تعدادہزار پانچ سو سے زائد نہ ہوگی۔ کیونکہ ایسے لوگ جو مذہب حنفی میں خاص بصیرت رکھتے ہوں۔ اسی قدر ہوں گے ۔ واللہ اعلم تو کیا ہمارے حنفی بھائوں کو یہ شمار منطور ہے۔ ہرگز نہیں۔ بلکہ وہ تواپنی شمار کروڑوں تک پہنچاتے ہیں۔ کیونکہ اس طرح کے حنفی کی تعریف ان کے انزدیک ایک تو یہ ہے جو علامہ شامی نے کی ہے۔ اس کو اصطلاح خاص میں رکھ کرایک اور اصطلاح بیان کرتے ہیں۔ حنفی وہ ہے جو امام ابو حنیفہ کی فقہ کا تابع ہو۔ عام اس سے کہ اپنی واقفیت سے ہو یا کسی دوسرے کے بتلانے سے ہو۔ بہت خوب یہی اصطلاح اہل حدیث کے متعلق ہے۔ ایک تو وہ اصطلاح جو آپ نے لکھی ہے۔ جو قرآن وحدیث کے واقف پر اطلاق باقی ہے دوسری اصطلاح یہ ہے کہ جو محض قرآن وحدیث کی تابعداری اپنے نفس پر واجب جان کر عمل کرتا ہو۔ عام اس سے کہ وہ قرآن وحدیث کا خود واقف ہو۔ یا کسی کے بتلانے سے واقف ہوا ہو۔ ان معنی سے وہ عام لوگ بھی آجکل جو اہل حدیث کہلاتے ہیں ۔ اہل حدیث ہیں۔ جیسے کہ آجکل عوام حنفی ہیں۔ اسی اصطلاح کو ہم زرا اوروسیع کریں تو مسلمان پر بھی اس کا اجرا ہوتاہے۔ مسلمان وہ ہے جو مذہب اسلام میں براہراست واقفی کرکے اس کا تابعدارہو۔ اس معنی سے مسلمان کی تعداد جتنی ہوگی۔ عیاں راجہ بیان۔ دوسرے معنی مسلمان کے ئیہ یں۔ کہ جو شخص اسلام کا تابعدار ہو عام اس سے کہ خودواقف ہو یا کسی کے بتلاتے سے واقف ہوا ہو۔
رہا یہ مسئلہ کے آئمہ اربعہ کے مقلد آجکل کے اہل حدیث سے جو علماء سے پوچھ کر عمل کرتے ہیں۔ اچھے ہیں قابل غور ہے۔ کسی کی اچھائی یا برائی کا علم تو اللہ کو ہے۔ مگر قواعد علمیہ سے جو معلوم ہوسکتاہے۔ یہ ہے کہ اصل مقصود آپﷺ کی اطاعت ہے۔ یہی معیار ہے اچھائی اور برائی کا۔ پس اس اصول کو معلوم کرناآسان ہے کہ اس منزل تک مقلدین کو پہنچنے میں کتنے وسائط طے کرنے پڑتے ہیں۔ اور اہل حدیث کو کتنے کچھ شک نہیں۔ آجکل کا مقلدج آجکل کے علماء کو ہپوچھے گا۔ ایک مرحلہ یہ ہوا پوچھے گا تو یہ کہ ہمارے امام نے اس مسئلے کی بابت کیا ارشاد فرمایا ہے۔ تاکہ ہم اس کی پیروی کرکے اطاعت رسول کی منزل تک پنچیں۔ یہ دو مرحلے ہیں۔ اہل حدیث کو حضور نبویﷺ میں پہونچنے کے لئے صرف ایک مرحلہ ہے۔ یعنی اپنے زمانے کے عالم سے پوچھ کر عمل کرلینا۔ بتلائے بلحاظ بعد وقرب مسافت کون اچھا ہے۔ ہاں یہ خیال آپ کا کہ آئمہ اربعہ ہر لہاظ سے موجودہ علماء سے اچھے تھے۔ واجب الایمان اور قابل تسلیم امر ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ موجودہ زمانے کا مقلد براہ راست تو آئمہ اربعہ سے نہیں پوچھ سکتا۔ آخر وہ اپنے زمانے کے کسی عالم سے پوچھے گا۔ کہ کیا موجودہ زمانے کے مقلد عالم کی نسبت بھی یہی خیال کرناچاہیے۔ کہ اہل حدیث کے عالم سے ہر حال میں افضل ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے آپ بھی اس کے قائل نہ ہوں گے۔ مختصر یہ کہ اہل حدیث نہ تو کوئی نیا فرقہ ہے۔ نہ اس کا نام اہل حدیث کوئی مذہبی اسم ہے۔ بلکہ طریق عمل کا نام ہے جو حصب ضرورت رکھاگیا۔ اس فرقے کے عام آدمی بھی اپنے اعتقاد اتباع قرآن وحدیث کی رو سے اہل حدیث ہیں۔ کوئی شخص قرآن وحدیث پر عمل کر کے اہل حدیث نہ کہلائے تو خدا کے ہاں اس کا کوئی مواخذہ نہ ہوگا اس لئے میں آپ کو دعامیں شریک ہونے کو کہتا ہوں۔
الهم من احيتيه منا فا حياء علي الاسلام والسنة ومن توفيته منا فتوفه علي الايمان الهم الحقنا با هل الاسلام والايمان (آمین) (اہل حدیث 18 ستمبر 1914ء)
از مولانا ابو مسعود خان صاحب قمر بنارسی پروفیسر چندوسی کالج
جس طرح ہمیں قرآن شریف نے مسلم کہا ہے۔ اسی طرح یہود ونصاریٰ اگلے دین والوں کو بھی مسلم کا خطاب دیا گیا ہے۔ نصرانیوں کے اولین گروہ یعنی حواریوں کا مقولہ قرآن شریف میں ہے۔ وَاشهَد بِأَنَّنا مُسلِمونَ ﴿١١١﴾’’یعنی گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں‘‘ لیکن ان مسلمانوں کو خود قرآن فرماتا ہے: وَليَحكُم أَهلُ الإِنجيلِ بِما أَنزَلَ اللَّهُ فيهِ ۚ
’’اہل انجیل کو خدا کی نازل کردہ وحی کے مطابق ہی احکام جاری کرنے چاہیں۔‘‘
ان دونوں آیتوں سے روز روشن کی طرح ثابت ہے۔ کہ مسلمان اپنی کتاب کی طرف بھی مسنوب ہوسکتے ہیں۔ عیسایئوں کا مسلم ہونا پھر ان کا اہل انجیل ہونا قرآنی لفظوں سے ثابت ہے۔ ان کی کتاب کا نام انجیل تھا۔ ہماری کتاب کا نام خود کتاب میں ہی ''حدیث'' رکھا گیا ہے۔ ارشاد ہے۔ فَبِأَىِّ حَديثٍ بَعدَهُ يُؤمِنونَ ﴿٥٠﴾
دوسری جگہ ارشاد ہے۔ اللَّهُ نَزَّلَ أَحسَنَ الحَديثِ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے متعلق ارشاد ہے۔ وَإِذ أَسَرَّ النَّبِىُّ إِلىٰ بَعضِ أَزوٰجِهِ حَديثًا مختصر یہ کہ قرآن و فرمان سنت رسولﷺ کا نام حدیث ہے۔ اس لئے رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ہے۔ نضر الله امرا سمع منا حديثا الخ یعنی اللہ تعالیٰ اسے ترو تازہ رکھے جو میری حدیث کو سن کر یاد رکرکے دوسروں کو پہنچائے۔ پس ان دونوں کو ماننے والوں اور اس پر عمل کرنے والوں کو اہل حدیث کہتے ہیں۔ چنانچہ رسو ل اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں۔
(عن انس قال قال النبي صلي الله عليه وسلم اذا كان يوم القيامة جاء اصحاب الحديث ما بين يد الله ومعهم المحابر فيقو ل الله انتم اصحاب الحديث كنتم تصلون علي النبي صلي الله عليه وسلم ادخلو الجنة)
(تاریخ خطیب بغدادی ص3 وصواعق الٰھیہ وجواہر الاصول)
’’ رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ جب قیامت کا دن آئے گا اہل حدیث جناب باری کی خدمت میں پیش ہوں گے۔ اور ان کے باکثرت درود پڑھنے و لکھنے کی وجہ سے انھیں خدا فرمائے گا کہ تم جنت میں چلے جاؤ۔‘‘
حضرت امام خطیب بغدادی نے شرف اصحاب الحدیث کے صفحہ 21 پر ایک روایت بیا ن کی ہے کہ''حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب نوجوانان طالب علم حدیث کو دیکھتے تو فرماتے تمھیں رسول اللہﷺ کی وصیت مبارک ہو۔ ہمیں اللہ کے پیغمبر رسول اللہﷺ نے حکم دے رکھا ہے۔ کہ ہم تمہارے لئے اپنی مجلسوں میں کشادگی کریں۔ اور حدیثیں سمجھایئں تم ہمارے لئے ہو اور ہمارے بعد تم ہی اہل حدیث ہو۔ اس سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین بھی اپنے آپ کو اہل حدیث کہتے تھے۔ تذکرۃ الحفاظ میں امام شعبی ؒ جو پانچ سو صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کے شاگر د تھے۔ ایک موقع پر فرماتے ہیں۔ لواستقبلت من امري ما استدبرت ما حدثت الا ما جمع عليه اهل الحديث ۔ ''یعنی مجھے اگر پہلے سے یہ نتیجہ معلوم ہوتا ۔ ۔ ۔ تو میں صرف وہی حدیثیں بیان کرتا جن پر اہل حدیث یعنی صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کا اجماع ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ تابعین بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو اہل حدیث جانتے اور کہتے تھے۔ نیز کتاب الحدائق الحنفیہ مطبوعہ نول کشور ص 134 ملاحطہ کیجئے۔ تو معلوم ہوا کہ سفیان بن عینیہ اور خود حضرت امام ابو حنفیہ بھی اپنے آپ کو اہل حدیث کہا کرتے تھے۔ مندرجہ زیل سے صاف ثابت ہوگیا کہ اہل حدیث امام عملی اور منسوب الی النبی ہے اور خدا اور رسول خدا سے ثابت ہے۔ اور جملہ اصحاب و تابعین اپنے کو اہل حدیث کہا کرتے تھے۔ پس ہم کو بھی اپنے آپ کو اہل حدیث کہنا چاہیے۔ حنفی شافعی وغیرہ منسوب الی الامتی ہے۔ اس لئے محبان رسول کو رسولﷺ کی طرف منسوب ہوناچاہیے۔ لاغیر
بلبل ہمیں کہ قافیہ گل شود بس است
(ابو مسعود خان بنارسی سعید منزل شہر بنارس المرقوم 3 جون 14ھ (اہل حدیث امرتسر 20 رجب المرجب 1360ھ)
مولانا عبد العلی بحر العلوم نے شرح مسلم الثبوت میں لکھا ہے۔ اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ''مروجہ میں کسی ایک مذہب کو اپنے اوپر لازم کرنا شرعا کوئی چیز نہیں ہے۔ بلکہ وہ دلیل حق معلوم ہونے پر ایک مذہب سے دوسرے مذہب کی طرف منققل ہوجانا صحیح ہے۔ لیکن یہ انتقال محض لہو و لعب پر نہ ہونا چاہیے۔ اس طرح کے جانفشانی کے لئے کسی صحیح دلیل کوچھوڑ کر کوئی اس کے خلاف ضعیف دلیل پاویں اور اس کے پیچھے لگ جاویں۔ ایسا کرنا قطعا حرام ہے۔ مذہب کے بارے میں لہو و لعب یادیگر امور میں بہر حال حرام ہے۔ اور واجب صرف وہی جیز ہے جس کو اللہ نے واجب کیا ہے۔ اور یہ ایک حقیقیت ہے کہ امت میں کسی آدمی کے مذہب کو لازمی پکڑنا اللہ نے ہرگز واجب قرار نہیں دیا۔ ایسا خیال اپنی طرفسے ایک نئی شریعت گھڑنا ہے۔ طوالع الانوار میں ہے۔ وجوب تقليد مجتهد معين لا حجة عليه لامن حجة الشريعة ولا من حجة العقل كما كما ذكره شيخ ابن الهام من الحنفية في فتح القدير وفي كتاب المسمي بتحرير الاصول
مولانا عبد الحئی لکھنوی کا فتویٰ دیکھنے سے معلوم ہوا ہے کہ کابرین علماء احناف کو جماعت اہل حدیث سے کسی قسم کا اختلاف نہ تھا۔ تعصب اور عناد تو بجائے خود۔ چنانچہ زیل میں مولانا ممدوح موصوف کا فتویٰ نقل کر کے ہدیہ ناظرین کرتاہوں۔ تاکہ موجودہ احناف کا تعصب اور عناد جو جماعت اہل حڈیث سے ہے۔ دور ہو۔ یہ فتویٰ 21 جنوری 1880 کا ہے۔ شاید احناف کے لئے موجب عبرت ہوسکے ۔ وما توفیقی الا باللہ
’’سوالات و جوابات متعلقہ آرہ جو بذریعہ وکیل عدالت بند سوالات بتاریخ اور جنوری 1880 میں آیا تھا۔ حضرت مولانا استاذ الحفاظ الحاج ابو الحسنات محمد عبد الحئی صاحب قبلہ نے جواب اس کا تحریر فرمایا تھا۔
سوال۔ مسلمان ہونے کے لئے ایک مذہب حنفی شافعی ہونا وغیرہ ہونا خدا و رسول ﷺ نے شرط کیا ہے یا نہیں۔ ؟اور پیغمبر صاحب اور اصحاب رضوان اللہ عنہم اجمعین اور اماموں کے وقت لوگ حنفی شافعی وغیرہ کہلاتے تھے یا نہیں۔ اور اماموں نے اپنی تقلید کرنے کوکہا یا نہیں اور پیغمبر ﷺ صاحب کے بعد کئی سو برس ت ک مسلمان لوگ تقلید ایک امام خاص کی نہیں کرتے تھے۔ اور وہ مسلمان غیر مقلد اصحاب اور تابعین اچھے سچے مسلمان تھے۔ یا ان کے بعد کے مقلدین حنفی شافعی کہلانے والے حدیث اور قرآن کے عامل سے ناراض ہونے والے اچھے ہیں ۔ اور پیغمبر صاحبﷺ نے صحابہرضوان اللہ عنہم اجمعین اور تابعین اور غیر مقلد لوگوں کے زمانہ کو اچھا کہا ہے۔ یا نہیں؟ اور اس کے بعد کے زمانے میں جھوٹ اور گناہ پھیلنے کی خبر دی ہے یا نہیں؟قوی دلیل بیان کیجئے؟
سوال نمبر 1 کاجواب ۔ نام میرا مولوی عبد الحئی بن مولوی عبد الحلیم صاحب ساکن فرنگی محل عمر 32 سال بقول صالح بیان کرتا ہوں۔ حنفی ہونا مسلمانی میں شرط ہونانہین کیا گیا۔ اور پیغمبر ﷺ صاحب اور اصحاب امام کے وقت میں حنفی شافعی وغیرہ سے مسلمان موسوم نہ تھے۔ اماموں نے اپنے قول کی تقلید کی اجازت دی ہے۔ اسی حالت میں جب خلاف قرآن وحدیث نہ ہو۔ مسلمان زمانہ اصحاب اور تابعین کے اچھے تھے ان لوگوں سے جو عامل مبتدین قرآن وحدیث سے ناراض ہیں۔ اور پیغمبر صاھب نے زمانہ صحابہرضوان اللہ عنہم اجمعین اور تابعین اور تبع تابعین کو اچھا کہا ہے۔ اور پچھلے زمانے میں جھوٹ اور گناہ پھیلنے کی خبر دی ہے۔
سوال نمبر 2۔ اگر کسی ایک امام کا مقلد بادشاہ ہو۔ یا کوئی اور مسجد بنادے۔ تو وہ مسجد بنانے والے کی ملکیت باقی رہتی ہے یا نہیں؟ اور ہر مسلمان ہر مسجد میں اپنے طور پر مشروع پر مستحق نماز پڑھنے کا بیک وقت و بیک جماعت یا نہیں؟
جواب۔ نمبر 2۔ مسجد بنانے والے کی ملکیت میں نہیں رہتی۔ اور اس میں سب مسلمان بطورشرع نماز ادا کرسکتے ہیں۔ اور ایک وقت ا ور ایک جماعت سے پڑھ سکتے ہیں۔ مگر ایک ساعت میں ایک ہی مسجد میں دو جماعت نہیں پڑھ سکتے۔
سوال نمبر 3۔ جو شخص بموجب قرآن وحدیث کے نماز ادا کرے۔ اور مسئلوں میں مقلد ایک امام خاص کا نہ ہو۔ اور سب اماموںکا برحق جان کر جس کا مسئلہ موافق حدیث کے سمجھے عمل کرے تو وہ مسلمان سنت جماعت ہے یا نہیں؟
جواب۔ نمبر 3۔ ایسا شخص مسلمان سنت جماعت ہے بشرط یہ کہ قابلیت قرآن وحدیث سمجھنے کی رکھتا ہو اور تخریب دین اس کی منظور نہ ہو۔
سوال نمبر 4۔ آمین بالجہر کہنا نماز میں پیغمبر اسلام کا قول اور فعل ہے یا نہیں اور یہ اسلام کی بات ہے یا کفر کیہ اور حنفی کتابوں سے اور صحیح حدیثوں سے ثابت ہے یا نہیں اور مسلمانوں کا فعل ہے یا نہیں؟
جواب نمبر 4۔ آمین بالجہر کہنا پیغمبر ﷺ کا فعل ہے۔ اور یہ اسلام کی بات ہے۔ اور صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ اور حنفی بھی اس مضمون کو لکھتے ہیں۔ مگر اختلاف ہے اور بہت سے مسلمانان قدیم کا یہ فعل ہے۔
سوال نمبر 5۔ حنفیوں کی کسی کتاب میں آمین بالجہر کہنے والے کے یا اس کے ساتھ کے نماز پڑھنے والوں کی نماز کا ٹوٹنا اور کسی او ر قسم کا حرج اور نقصان ہونا اس کے امام نے لکھا ہے یا نہیں؟
جواب نمبر5۔ آمین بالجہر کہنے والے یا اس کے ساتھیوں کی نماز کا ٹوٹنا یا نقصان ہونا اور پہنچنا کسی کتاب معتبر حنفی میں نہیں لکھا ہے۔
سوال نمبر 6۔ آمین بالجہر سے ناراض ہونا مسلمان کا فعل ہے۔ یا یہودیوں کا حدیث سے کیا ثابت ہے۔ اور کسی امام یا عالم کے قول سے قرآن وحدیث پر عمل نہ کرنے والا اور جوشخص پیغمبر ﷺ کے حکم کو معیوب سمجھ کر خود عمل نہ کرے۔ اور عمل کرنے والے کو برا جانے وہ ازروئے قرآن وحدیث کون ہے۔ ؟
جواب نمبر 6۔ یا وصف علم امر کے کہ آمین بالجہر کہنا فعل نبوی ہے اس سے ناراض ہونا مسلمان کا کام نہیں ہے۔ اور حدیث کا حال اوپر بیان ہوچکا ہے۔ او ر جو قول امام کا یا کسی عالم کا یقینا خلاف قرآن وحدیث کے ہو۔ اس پر عمل کرنا اور قرآن وحدیث کو چھوڑ دینا مسلمانوں کا فعل نہیں۔ اور جو شخص پیغمبر صاحب ﷺ کے حکم کو باوجود اس کے کہ یہ حکم نبوی ﷺ ہے۔ معیوب سمجھے وہ شخص مسلمان نہیں ہے۔ اور عالموں کا برا جاننا درست نہیں ہے۔
سول نمبر 7۔ امور مذہبی میں شد آمد قدیم رسم و رواج کو دخل ہے۔ یا نہیں؟ اگر ہے تو آمین کہنے والا مسلمان آہستہ آمین کہنے والے حنفیوں کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟
جواب نمبر 7۔ امور احکام مذہبی میں رسم و رواج کو دخل نہیں ہے۔ اور زور سے آمین کہنے والا اگر منظور اس کو اتباع شریعت ہو اور فساد منظو ر نہ ہو تو حنفیوں کے ساتھ نماز پڑھ سکتاہے۔
سوال نمبر 8۔ اگر کسی کو کوئی شخص نماز پڑھنے سے یا کسی اور طرح سے یاد الہٰی سے روکے تو روکنے والے کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ظالم اور اس کے واسطے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں عذاب سخت کاحکم کیا ہے یا نہیں؟
جواب نمبر 8۔ جو شخص کسی کو مسجد میں نماز پڑھنے سے یا یاد الہٰی سے بغیر وجہ شرعی کے روکے اللہ نے اسے ظالم کہا ہے۔ اور عذاب سخت کا موعود ہے۔
سوال نمبر 9۔ کسی حاکم کا یہ حکم کے مسلمان لوگ مسجد میں اندر نماز کے آمین بالجہر نہ کہیں۔ دست اندازی امور مذہبی میں ہے یا نہیں اور آمین بالجہر کہنے والوں کو اس حکم امتناعی سے نقصان دینی ہے یا نہیں۔ اور مسجد میں آذان عام واسطے ہر مسلمان کے اپنے طور پر ہے۔ یا نہیں؟
جواب نمبر 9۔ آمین بالجہر کومنع کرنا امور مذہبی میں دست اندازی ہے اور آمین بالجہر کہنے والوں کا نقصان دینی ہے۔ اور مسجد میں ہر مسلمان کے واسطے بطورشرعی نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ (ابو الحسنات محمد عبد الحئی عفی عنہ لکھنوی) (نقل مطابق اصل از فتاویٰ عبد الحئی لکھنوی 402 تا 404) (اہل حدیث امرتسر ص 14۔ 8 زی الحجہ 1350ہجری)
(از قلم مولانا حکیم عبد الشکور صاحب ناظم دارالعلوم شکراوہ ضلع گوڑ گائوں)
بہت سے بھولے بھٹکے عوام اور جعلی مولویوں کا گروہ یہ کہتا رہتا ہے کہ مسلک اہل حدیث ایک نو پیدا شدہ مذہب ہے۔ جو ابھی ماضی قریب میں پیدا ہوا تھا۔ جس کے جوابات ہمیشہ ہمارے جماعت کے عالم قدیم اسلامی لٹریچر سے دیتے رہتے ہیں۔ اس کی اس قددر تکرار کی گئی ہے۔ اور اتنی کتابیں اس مضمون پر لکھی گئیں ہیں۔ کہ ہم اس کی تعداد کا اپنے ذہن میں تصور بھی نہیں لاسکتے۔ مگر پھر بھی کہیں نہ کہیں سے کوئی نہ کوئی پیر اور مولوی بول ہی پڑتے ہیں۔ اور اس پرانے جھوٹ کا اعادہ کرتے رہتے ہیں۔ اس لئے آج کی صحبت میں پھر ہم اس پر کچھ لکھناچاہتے ہیں۔ اور ایسے لوگوں سے اللہ کا واسطہ دے کر باادب درخواست کرتے ہیں۔ کہ جن کو مسند علم پر بیٹھ کر جماعت اہل حدیث اور علمائے محدثین پر ہمیشہ غلط اور پرفریب الزام لگانے کی عادت ہوچکی ہے۔ کہ وہ اللہ سے ڈریں۔ اور یوم الحساب کا تصور کریں۔ کہ جب بارگاہ الہٰی میں جھوٹے اورپرفریب الزامات کے فیصلے شروع ہوں گے اور عاملین بالحدیث اور علمائے محدثین بارگاہ الہیٰ میں یہ فریاد کریں گے۔ کہ ہمارے مولا ان ہمارے بھائیوں نے ہمارے سیدنا محمد رسول اللہﷺ کے صحیح طریقہ پر عمل کرنے کی وجہ سے ہم پر جھوٹے الزامات لگائے۔ بہتان بازیاں کی تھیں۔ اور صرف تیرے نبی ﷺ کی سنتوں پر عمل کرنے والوں کو یہ دستار علم دین باندھنے والے گمراہ و بے دین کہا کرتے۔ اور اپنے رائے قیاس والے معمولات و محدثات کو عوام میں پھیلانے کے لئے بڑی لمبی تقریریں کیا کرتے تھے۔ اور مسند تعلیم پر بیٹھ کر اپنی پر ہیچ تاویلوں اور لطیفوں اور حیلہ جویئوں سے حدیثوں کو رد کیا کرتے تھے۔ اور اپنے احبار و رہبان کے مذاہب کو رواج دینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کرتے تھے۔ آج جبکہ پریس و طباعت کی آسانیوں سلسلہ رسل و رسائل کی سہولتوں اور دیگر امد ورفت کے ذرائع پونے چودہ سو سالہ اسلامی لٹریچر کو جمع کردیا ہے۔ کوئی بات اندھیرے میں نہیں رہی۔ بلکہ نقلی اور عقلی علوم جو اب تک نوشتوں کی شکل میں ملتے تھے۔ قطعی طور پر اب سارے کے سارے انسان کے سامنے آچکے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ ایسا کہنے والے اور ٖغلط الزام لگانے والے کیوں ایسی جراتیں کرتے رہتے ہیں۔ اور حقائق پر پردہ ڈالنے کی کس لئے اس قسم کی بدعنوانیاں اور غلط بیانیاں کرتے رہتے ہیں۔ کیا اب بھی یہ ان کوتوقع ہے۔ کہ وہ فریب خوردہ لوگوں کو اپنا کر عوام کو اس کی دعوت دیتے چلے جایئں گے۔ اور پھر اس کو ان سے منوالیں گے۔ ایک دانشمند اور زی علم انسان کا تو یہ کام نہں ہوسکتا۔ کہ وہ ایسی جرات کرے۔ بلکہ ہر زی ہوش انسان اس بات کو بخوبی سمجھ سکتاہے۔ کہ آج تاریخ کا ریسرچ ہورہا ہے۔ اور قدیم تاریخ کا کھوج لگایا جا رہا ہے۔ جملہ پیروان مذاہب اپنے مذہبوں کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ اور اپنے اسلاف کے غلط معتقدات و محدثات کو چھوڑ کر اپنے مذاہب کے صحیح حقائق تلاش کر رہے ہیں۔ پیر پرستیاں ۔ عوام پرستیاں ۔ خویش پرستیاں ختم ہو رہی ہیں۔ اور عنقریب مذاہب کی ان غلطیوں کا راز فاش ہوجائے گا۔ جن کے وجہ سے اسلام کے ستر دو بہتر ٹکڑے بنے۔ اور قرآن وحدیث کی تکے بوٹیاںکی گئیں۔ بھلا یہ کہیں ٹھکانے لگنے والی بات ہے۔ کہ جو جماعت اپنے منہ سے ہر وقت ہر موقع پر خير الحديث كتاب الله وخير الهدي هدي محمد صلي الله عليه وسلم وشر الامور محدثتها وكل محدثة بدعة وكل بدعة ضلا لة وكل ضلا لة في النار نکالتی ہو۔ اور اس پر اس کا عمل بھی ہو۔ تو وہ جماعت کیونکر نو پیدا شدہ خیال کی جاسکتی ہے۔ کیا یہ نعرہ آج کسی عامل بالحدیث نے وضع کیا ہے۔
بڑے ہی شرم کی بات ہے کہ جس جماعت کا عمل کتاب وسنت کے مطابق ہو اس کو نو پیدا شدہ بتلایاجائے اور جو مذاہب کتاب اللہ کے نزول و تکمیل دین سے صدیوں بعد وضع کیے جایئں۔ اور ان کی نسبتیں صدیوں بعد کے امتیوں سے جوڑی جایئں ان کو اصلی و قدیم بتایا جائے۔ فیا للعجب تم العجب
کیا یہ حقیقت نہیں کہ امام ابو حنیفہ کا مذہب دوسری صدی میں ان کے شاگردوں نے مدون کیا۔ اور صدہا علما اور فقہاء کے رائے قیاس اس میں شامل کئے گئے پھر اس کی سند کا بھی کوئی التزام نہیں کیا گیا۔ جس کی وجہ سے اس میں صدہا عالمو ں نے اپنی رائے قیاس او ر فتووں کو شامل کردیا۔ اس کو تو صحیح اسلام قرار دیا جائے۔ اور جس مذہب کا ڈھانچہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ سے تیار کیا گیا ہو جس کی صحت اور سند کا التزام اسف قدر ھزم واحتیاط اور صحیح نقل کے ساتھ کیا گیا ہو۔ کہ اس سے زیادہ صھت اور سند کا التزام آج تک انسانی دنیا نہ کرسکی ہو۔ اس کو نیا جعلی بناوٹی مذہب قرار دیا جائے۔ اس مقام پر ہم نواب محسن الملک سید مہدی علی خاں بہادر مرحوم کی مشہور کتاب تاریخ تقلید اور عمل بالحدیث سے تھوڑا سا نقل کرتے ہیں جو عمل بالحدیث اورجدید مذاہب کے حقائق پر روشنی ڈالنے کے لئے کافی ہے۔ وھوا ھذا
تبع تابعین کے زمانے میں فقہ کی تعلیم کی صورت تو وہی تھی۔ جو تابعین کی تھی لیکن اس وقت میں بسبب کثرت مسلمانوں کے اورشروع ہونے جھگڑے اور فساد کے اور جاہل ہونے خلفاء وقت کے اور شائع ہونے جھوٹ اور اختراع کے اور واقع ہونے اختلاف کے خدا نے لوگوں کو مسائل کے جمع کرنے اور اصول و قواعد کے منظبط کرانے اور ارکان وآداب وعبادت کی تشریح کرنے اور اجتہاد واستنباط اور استخراج کے قاعدے ترتیب دینے پر راغب کیا۔ اس وقت کے نیک اور پاک لوگوں کو حدیث و فقہ کی تدوین کاشوق دیا۔ چنانچہ دوسری صدی کے اوسط سے جس شہر میں جو نامی اور عالم تھا۔ ان میں بعض بعض نے حدیث کی تالیف اور تدوین پر کمر باندھی اور مسائل کا جمع کرنا شروع کیا۔ چنانچہ مکہ میں ابن جریج اور ابن عینیہ نے اور مدینہ میں امام مالک اور محمد بن عبد الرحمان ابن ابی ذئب نے اور کوفہ میں ثوری نے اور بصرہ میں ربیع ابن صبیح نے اول حدیث میں تالیف کی اور امام ابو حنیفہ اورامام مالک نے فقہ کی تدوین شروع کی۔ سب سے پہلے حنفی مذہب کی بنیاد پڑی۔ اس لئے امام ابو حنیفہ کو خدا نے اجتہاد اور استنباط مسائل اور استخراج فروعات کی ایک خاص قسم کی استعداد تھی۔ اور وہ زہد ورع میں بھی کامل تھے۔ پس انہوں نے اپنے شہر کے فقیہ۔ ابراہیم نخعی کی احادیث و اقوال اور روایات پر اپنے مذہب کی بنیاد قائم کی۔ اورانھیں کے اصول پر استخراج کرنا جزدیئات مسائل کاشروع چنانچہ یہ امر بخوبی اس شخص پر ظاہر ہے کہ جس نے امام محمد کی کتاب الاثار اور جامع عبد الرزاق اور مصنف ابی بکر ابن شیبہ کو دیکھا ہے۔ اور پھر ابراہیم نخعی کے اقوال کو امام ابو حنفیہ کے مذہب سے ملایاہے۔ غرض امام ابو حنیفہ نے اس طور پر فقہ کی تدوین شروع کی۔ تب لوگوں نے ان کی طرف رغبت کی اور ان کے اصول و فروع کو پسند کر کے انسے سیکھا اور فقہائے کوفہ نے ا ن کے اجتہاد کو قبول اور ان کے استخراجی مسائل پر عمل کیا۔ اور جب قاضی ابو یوسف اور امام محمد سے دو شاگرد ان کے ہوگئے۔ تب پہلے شاگرد کی امارت اور قضاء کے سبب سے اور دوسرے شاگرد کے علم اور تالیف کی برکت سے امام کا مذہب سارے عراق اور خراسان وراء النہر میں پھیل گیا۔ حنفی مذہب کے بعد بنیاد مالکی مذہب کی پڑی۔ امام مالک حدیث اورفقہ تقویٰ میں بہت مشہو ر تھے۔ ان کو احادیث نبویہ بہت یاد تھیں۔ اور وہ ان کے ضعف و قوت سے بخوبی واقف تھے۔ چنانچہ انہوں نے نہایت عمدہ اور صحیح اور جامع کتاب حدیث کی لکھی۔ جسکا نام موطا ہے۔ اس کی مقبولیت اعلیٰ درجے پر پہنچی۔ اور ہزاروں آدمیوں نے امام مالک سے حاصل کی۔ پس امام مالک کی اس کتاب کی برکت سے ایسا فائدہ لوگوں نے پایا۔ کہ جس کا کچھ بیان نہیں ہوسکتا۔ پس جہاں جہاں ان کےاصحاب اور شاگرد پہنچے۔ ان کی کتاب کولوگوں نے دیکھا۔ اور ا ن کے مذہب پر عمل کرناشروع کیا۔ پھر تو ان کے بعد ان کے شاگردوں نے ان کے مذاہب کے اصول اور دلائل کو ترتیب دیا۔ اور ان کی کتاب کے خلاصے کیے۔ ان کے کلام اورفتووں کی شرح کی۔ یہاں تک کہ ان کا بھی ایک جدا مذہب قرار پایا۔ اورنواح مغرب کی طرف جہاںان کے تلامذہ زیادہ ہوئے مالکی مذہب پھیل گیا۔ ان دونوں مذاہب کی بنیاد پڑ چکی تھی۔ کہ امام شافعی پیدا ہوئے۔ انھوں نے دونوں مذہبوں کے اصول و فروع کو دیکھ کراوران کے کلیات او ر جزیئات پر نظر کر کے ان باتوں کو جو ان مذہبوں میں ناقص تھی۔ پورا کیا اور نئے طور سے اصول وقواعد کو ترتیب دیا۔ امام شافعی نے سب سے پہلے ایک کتاب اصول کی تالیف کی اور اس میں احادیث مختلف کے جمع کرنے کے قاعدے مرتب کئے۔ اور احادیث مرسل اور منقطع پر استناد کرنے کا بغیرپائے جانے کے اس کی شرائطکا التزام ترک کیا۔ انتھیٰ کلامہ
یہ تو تھا مذہب اور تقلید کے متعلق ہمارے زمانے کے مورخ کا بیان اب زرا ایک پرانی تاریخ کا بیان بھی ملاحظہ کیجئئے۔ 278ہجری میں عیسیٰ بن ملک نامی ایک بادشاہ بڑی سلطنت والا ابو حنیفہ کے مذہب پر تھا اور پرلے درجہ کا متعصب تھا۔ کتاب ''مسعودی''اس کو تمام یاد تھی۔ لوگوں کو حنفی مذہب اختیار کرنے کی ترغیب دیتا تھا۔ اور کہتا تھا کہ سب کے سب امام ابو حنیفہ ہی کے اقوال پر عمل کرو۔ صاحبین یعنی ان کے شاگردوں کے اقوال پر بھی عمل نہ کرو۔ اور اس کے حکم بموجب فقہیوں نے ایک ایسی کتاب اس کوبنا دی تھی۔ کہ جس میں بجز اقوال ابو حنیفہ کے اور کسی کا بھی حکم نہ تھا۔ اس کو بھی اس نے یاد کرلیاتھا۔ اور بسبب تعصب اپنے مذہب کے جس قدر شافعی مذہب والے اس ملک میں تھے۔ سب کو قتل کر ڈالا تھا۔ (تاریخ ابن خلکان)
حضرت حکیم الامت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا معتبر بیان بھی ملاحظہ فرمایئے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں۔
اعلم ان الناس كان قبل المائة الرابعة غير مجمعين علي التقليد الخالص لمذهب واحد بعينه
’’ ترجمہ۔ تم اس بات کا یقین کرلو۔ کہ مسلمان چوتھی صدی سے پہلے کسی خاص مذہب کی تقلید پر متفق نہ تھے۔ مختصر ان حوالہ جات سے یہ بات بخوبی روشن ہوتی ہے۔ کہ مذاہب اربعہ کا رواج کب ہوا اور کس طرح ہوا۔ اب زرا مسلک عمل بالحدیث کی دردناک داستان ملاحظہ ہو۔ حضور نبی کریمﷺ کی زندگی ہی میں آپ نے مسلمانوں کے دلوں اور دماغوں میں یہ سمو دیا تھا کہ میں دو چیزیں تمہارے لئے چھوڑ کرجائوں گا۔ کتاب اللہ وسنت چنانچہ فرمایا؟ تركت فيكم امرين كتاب الله وسنتي اور قرآن مجید کا یہ حکم ہر مسلمان سن چکا تھا۔ کہ ۔ "أَطِيعُوااللَّـهَوَأَطِيعُواالرَّسُولَ"
اس پر تمام مسلمان اور صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین عمل پیرا تھے۔ اور مسائل دینی میں صرف کتاب اللہ وسنت رسول اللہﷺ کو حجت سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ ہمارے زمانے کے مشہور مورخ مولانا اکبر خان شاہ صاحب اپنی کتاب قول حق میں تحریر فرماتے ہیں۔ جو احقاق حق اور اظہار صداقت کےلئئے مرحوم نے تصنیف فرمائی تھی۔ گزشتہ صدی میں اگرچہ دوسرے علوم اور قرآن مجید کے سوا دوسری کتابوں کے لکھنے اور پڑھنے کی طرف مسلمان متوجہ ہوچکے تھے۔ لیکن آپ ﷺ کی حدیثوں کے متعلق ابھی تک یہی دستور چلا آتا تھا۔ کہ تابعی اور تبع تابعی احادیث کو اپنے حافظے میں محفوظ رکھتے اور زبانی ہی اپنے شاگردوں کو یاد کراتے اور لوگوں کو سناتے تھے۔ اجتہادی مسائل میں علماء کہ فتوے مختلف ہو جاتے تھے۔ یہ اختلاف کبھی تو حدیثوں کے مطالب مختلف ہونے کی وجہ سے ہوتا۔ یعنی ایک عالم ایک حدیث کو اپنے فتوے کی بنیاد قرار دیتا۔ اور دوسرا عالم دوسری حدیث کو اختیار کرتا۔ اس قسم کا اختلاف صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے زمانے سے موجود تھا۔ اور اس کو مسلمانوں کے لئے رحمت بتایا گیا تھا۔ مسلمان اس کو رحمت سمجھتے بھی تھے۔ ایک دوسرے پر نہ معترض ہوتا۔ اور نہ اس کو خاطی اور گناہ گار خیال کرتا۔ کبھی یہ اختلاف ایک بھی حدیث سے دو قسم کے مطالب اخذ کرنے پر واقع ہوتا تھا۔ مثلا ایک عالم نے ایک نتیجہ اخذ کیا۔ اور دوسرے نے دوسرا نتیجہ نکالا۔ اس طرح دو مختلف فتوے صادر ہوئے کہ یہ اختلاف بھی اسی پہلی قسم کا اختلاف اور مسلمانوں کے لئے رحمت تھا۔ کبھی اختلاف کی وجہ یہ ہوتی۔ کہ ایک عالم کو ایک حدیث پہنچی۔ تو اس نے حدیث کے موافق فتویٰ دیا اور دوسرے عالم کو وہ حدیث نہیں پہنچی۔ تو اس نے حدیث کے موافق فتویٰ دیا۔ اور دوسرے عالم کو وہ حدیث نہیں پہنچی۔ اس نے اپنے اجہتاد کی بنیاد پر فتویٰ صادر کردیا۔ یہ اختلاف بھی مسلمانوں کے لئے رحمت اور ازیت کا موجب تھا کیونکہ جو شخص حدیث کی غیر موجودگی میں رائے قیاس سے کوئی فتویٰ دیتا۔ تو یہ شرط لگاتا کہ اگر حدیث مل جائے تو میرا فتویٰ چھوڑ دینا اور حدیث پر عمل کرنا فتویٰ دیتے وقت مذکورہ شرط لگانا اس لئے ضروری سمجھا جاتا تھا۔ کہ ان لوگوں کو معلوم ہوتا تھا کہ آپﷺ کی یہ احادیث جو صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کے ذریعہ روایت ہوکر لوگوں کو پہونچی ہیں۔ وہ ساری کی ساری ایک جمع مجتمع نہیں ہیں۔ بلکہ مختلف شہروں اور عالموں تک پہنچ چکی ہیں۔ اور دوسرے شہروں میں جانے اور دوسرے عالموں سے ملاقات کرنے سے واقفیت بڑھتی رہتی ہے۔ کہ مدینہ دمشق قاہرہ کوفہ بصرہ وغیرہ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کے بھی قیام گاہ رہے ہیں۔ اور ان مقامات میں ان کے شاگرد یعنی تابعی اور تبع تابعین موجود تھے۔ جن جن صحابیوں کے شاگرد جن جن شہروں میں زیادہ موجود تھے۔ ان شہروں میں ان صحابیوں کی روایت کردہ احادیث لوگوں کو زیادہ یاد تھیں اور انھیں احادیث کا زیادہ چرچا تھا۔ اور ان ہی صحابیوں یا ان کے شاگردون کے اجتہادی مسائل زیادہ مروج تھے۔ او ر انہیں پر قیاس کر کے نئے نئے اجتہاد بھی کئے جاتے تھے۔ اور اس دوسری قسم کے تمام مسائل فروعی ہوتے تھے۔ باوجود اس اختلاف کے کوئی گروہ بندی اور کوئی تفریق نہ تھی۔ مدینہ والے مکہ والوں کو کوفہ والے بصرہ والوں کو کسی الگ مذہب کا متبع اور دوسرے فرقے کا پیرو نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ وہ لوگ اختلاف کے اس ناگزیر سبب سے واقف تھے۔ ایک کے ذریعے دوسرا اپنی واقفیت کو وسیع کرنا چاہتا تھا۔ اور سب کا ایک ہی اسلام تھا۔ جس کے عقائد نہایت صاف اور سادہ اور اعمال نہایت آسان تھے۔ دماغ کو پریشان کرنے و الی موشگافیاں اور پیچیدگیاں اعمال و عقائد میں مطلق نہ تھیں۔ ان کا قبلہ قرآن مجید اور اس کے بعد احادیث نبویﷺ اور آثار صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین تھے۔ کتاب وسنت کے سوا وہ لوگ اسلام کےلئے اورکسی چیز کو ضروری اور لازمی نہ سمھتے تھے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب