السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
استویٰ علی العرش میں اہل سنت کا کیا عقیدہ ہے اور معتزلی کا کیا؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس امر میں اہل سنت کے دو فریق ہیں۔مفوضین و مادلین خاکسار کا مسلک تفویض کا ہے۔حضرت شاہ صاحب حجۃ البالغہ میں غیر کی قسم میں فرماتے ہیں۔(واتفقوا علىإثبات الاستواء على العرش والوجه والضحك على الجملةثم اختلفوافقالقوم إنما المراد معان مناسبة فا لاستواء هوالا ستيلاء والوجه الذات وطواها قومعلي غرها وقالوا لاندري ما ذا ريد بهذا الكلمات وهذا لافسم لست استصح ترفع احدي الفرقتين علي صتجبنخت بتمخت هلي السة ص10) مطبوعه مصرعلماء نے اثبات ستوائ علی العرش پر اور وجہ اور ضحک پر اجمالا تو اتفاق کیا ہے ۔لیکن تفسیر میں مختلف ہوئے ہیں۔ کسی نے تو کہا ہے کہ ا ن سے ظاہر کے سوا ان کے مناسب معنی مراد ہیں۔پس استواء سےمراد استیلا (غلبہ ہے) اور وجہ سےمرادذات ہے۔اور بعض نے ان کو بحال خود (غیر متکیف) چھوڑ دیا ہے۔اور کہا ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ ان کلمات سے کیا مرادہے۔اس قسم (غیر منطق کی نسبت میں کسی فریق کو دوسرے پر ٹھیک طور پر ترجیح نہیں دے سکتا۔کہ فلاں گروہ اس امر میں سنت پر ہے۔اسی طرح کتاب الاسماء والصفات میں امام بہقی استاد ابو منصور سے نقل کرتے ہیں۔
وفيما كتب الي الاستاذ ابو منصور بن ابي ايوب بن كثيرا من متاخري اصحابنا ذهبو ا الي ان الا ستواء هوالقهر والغابة ومضاه ان الرحمن غلب العرش وقهره ص 293
کہ انھوں نے جو تحریر میری طرف لکھی اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ ہمارے متاخرین اصحاب میں سے بہت سے اس طرف گئے ہیں۔کہ استواء سے مراد غلبہ ہے۔اور اس آیت کے یہ معنی ہیں۔ کہ رحمٰن نے عرش پر تصرف کیا۔اور اس پر اپنا حکم چلاباقی رہا۔سائل صاحب کا یہ سوال کہ اس امر میں معتزلی کا کیا عقیدہ ہے۔سو اس کی نسبت معروض ہے کہ ہر شخص اپنے عقیدے کو خوب بیان کر سکتاہے۔ دوسرے کے اس کو کیا پڑی اس لئے کسی معتزلی سے دریافت کریں۔
مااہل حدیثم و غارا نہ شنا سیم
علم کلام میں ایک طوفان بے تمزی برپا ہوگیاہ۔کہ منطوق اور غیرمنطوق امور میں فرق نہ کر کے علماء کے فہم واستباط کی بنا پر بھی مذاہب مدون ہوگئے ہیں۔ہر ایک نے اپنے فم کو سنت قرار دیا ہے۔اور دوسرے کے قیاس کو الہاد وزندقہ حالانکہ اہل سنت ہونے کے یہ معنی تھے۔کہ امور منصوصہ میں سنت کے خلاف اعتقاد نہ رکھیں۔اور غیر منصوصہ امور پرمذہبی تفریق کی بنا نہ رکھیں۔کیونکہ جس امر کی تفصیل اورچگونگی صاحب شریعت سےثابت نہیں اس امر میں علماء میں اختلاف پڑے۔ اور ضرو ر ہے کہ پڑے تو بوجہ اس کے کہ ایک کا فہم دوسرے پر حجت نہیں کوئی فریق دوسرے کو الزام نہیں دےسکتا۔ اس طرح استواء علی العرش تو بے شک ثابت ہے۔لیکن اس کی کیفیت ماثور نہیں ہے۔تواب الزام کیسا یہی امر حضرت شاہ صاحب پر جنھوں نے اس امر پر تنبیہ کی اب علماء کا کام ہے کہ اسے معقول پا کر قبول کریں یا اس سے بہتر لائیں تمت۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب