السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک جگہ تفسیرفتح البیان میں الحمدکی تفسیرکرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اسماء اللہ تؤخذباعتبارالغایات التی ہی افعال دون المبادی التی ہی انفعالات ،،
اس کی پوری تشریح بیان کریں ۔یہ علم کلام کامسئلہ ہے؟ ا زراہِ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیں جزاكم الله خيرا
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مثلاً اللہ تعالی ٰ کورحمٰن رحیم کہاجاتاہے تواس کے معنے ٰ یہ ہوئے ۔ کہ خداتعالیٰ رحمت سے موصوف ہے اور رحمت کے معنےٰ رقت قلب کے ہیں۔ تولازم آیا کہ خدا تعالیٰ کے لیے قلب ہو اورقلب گوشت کا ایک لوتھڑا ہے۔تو معاذاللہ خدابھی ایسا ہوگا۔ لیکن یہ خرابی اس صورت میں لازم آتی ہے کہ خدا تعالیٰ کو باعتبارمبدار مصدری معنیٰ) کے رحمٰن رحیم کہا جائے۔ اگرباعتبارغایت اورنتیجہ کے کہاجائے توپھرکوئی اعتراض نہیں۔رقت قلب کی غایت اور احسان ہے۔ یعنی جب کسی کی بابت انسان کادل نرم ہوتاہے تواس کے ساتھ احسان کرتاہے۔ تو گویا خدا تعالیٰ کو رحمٰن رحیم کہنے کے یہ معنی ہوئے کہ خدا اپنے بندوں سے احسان کرتاہے۔ یہ معنی ہیں فتح البیان کی عبارت کے۔کہ خدا کے نام باعتبار غایت کے لیے جاتےہیں نہ باعتبارمبداء کے۔ اس کی زیادہ تفصیل ہم نے آپ کے شاگردمولوی عطاء اللہ کے رسالہ الاہتداء کی تقریظ میں کی ہے۔ جونہایت مفیدہے ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب