السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مٹھائی وغیرہ سامنے رکھ کر فاتحہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں کیا آئمہ اربعہ نے ایسا کیا ہے۔؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ طریقہ بدعت ہے۔کسی امام کا قول یا مذہب نہیں ہے۔(اہلحدیث ج41 نمبر 26)
از قلم حضرت مولانا عبد السلام صاحب (مولوی فاضل)بستوی مصنف تصانیف
سوال۔نمبر1۔کیا حضرت امام ابو حنیفہ اپنے وقت میں کس کی نیاز یا فاتحہ دی تھی یا دالئی تھی؟
سوال نمبر2۔آج کل جو ہندوستان میں بڑے پیر صاحب نظام الدین اولیاء یا خواجہ معین الدین اجمیری کے نام پر نیا ز فاتحہ کرتے ہیں۔اس کھانے کو فقیر اور مساکین کے علاوہ بڑے امراء و روساء بھی بڑے شوق سے کھایا کرتے ہیں۔کیا اس قسم کے کھانے عوام کے لئے جائز ہیں یا نہیں؟
سوال نمبر3۔اگر نیاز فاتحہ نہ بھی جائے صرف بزرگان دین کے نام سےکھانا پکایاجائے۔تو اس کے کھانے کو مساکین اور غرباء کے علاوہ اور لوگ بھی کھا سکتے ہیں کہ نہیں براہ کرم تینوں باتوں کے جواب میں فقہ کا حوالہ بھی دیں۔
جواب۔1۔نہیں۔2۔ناجائز ہے۔3۔دن تاریخ اور رسموں کی پابندی کے بغیر جائز ہے۔اور صرف فقراء مساکین کا حق ہے۔اب ان کا مفصل جواب سنیئے۔
1۔شاہ ولی اللہ دہلوی ؒوصیت نامہ میں لکھتے ہیں۔ از بدعات شنعیہ ما مردم اسراچ است۔در ماتم یا درسوم وچہلم و ششماہی۔فاتحہ سالینہ وایں ہمہ اور قرون اولی وجود نہ بود مصلحت آنست۔کہ غیر تعزیہ وارثان میت تاسہ روز وطعام ایشاں یک شبان وروز زر سے نہ باشد یعنی ''جو بد ترین بدعتیں ہم میں جاری ہیں۔ان میں ماتم کی فضول خرچی اور تیجہ چالیسواں ششماہی۔و فاتحہ برسی ہ۔خیر القرون میں ان تمام بدعتوں کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ صرف تین روز تک میت کے وارثوں کے تسلی وتسکین و ہمدرری اور غم خواری اور ایک دن رات تک انہیں کھانا بھیجنے کے سوا سب رسموں کو ترک کر دینا چاہیے۔
2۔امام سندھی مدنی حاشیہ ابن ماجہ میں لکھتے ہیں۔
قد زكر كثير من الفقهاء ان الضيافة من اهل النيت قلب المعقول لان الضيافة حقها للسرور لا للحزن
یعنی اکثر فقہاء نے یہ لکھا ہے ۔کہ میت والے دعوت کریں یہ تو بالکل الٹی بات ہے اور خلاف عقل ہے۔ضیافت خوشی کے موقع پر ہوتی ہے نہ کم غم کے موقع پر۔
3۔حنفیہ کے سر تاج امام ابن الہمام فتح القدیر میں لکھتے ہیں۔''اہل میت کی طرف سے دعوتوںکا ہونا مکروہ ہے۔کیونکہ مشروع تو یہ ہے کہ خوشی کے وقت دعوتیں کی جائیں۔نہ کے غمی کے وقت پس مصیبت کے وقت یعنی میت کے بعد یہ دعوتیں سب کی سب بدترین بدعت ہیں۔
4۔مولانا عبد الحئ حنفی لکھنوی مجموعہ فتاویٰ میں فاتحہ مروجہ کے طریقہ کی نسبت لکھتے ہیں۔اس کی اصل شرع میں نہیں ہے۔اور سوائے ہندوستان کے کسی ملک میں مروج نہیں۔
5۔مجموعہ فتاویٰ جلد سوم میں مروجہ فاتحہ کی نسبت لکھتے ہیں۔
''ای طور مخصوص نہ ورزمان آپﷺ بود ونہ در زمان خلفاء بلکہ وجود آں اور قرون ثلاثہ کے مشہود لہا بالخیرات منقول نہ شدہ یعنی مروجہ فاتحہ رسول اللہﷺ یا خلفاء اربعہ کے یا صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے اور تابعین کے زمانے میں نہ تھی تیجے کی نسبت اسی کو کتاب میں لکھتے ہیں۔''درشریعت محمدیہ ثابت نیست ''۔اسلام میں یہ ثابت نہیں۔
6۔خلاصہ میں ہے۔ لا يباح اتخاذ الطعام في اليوم الاول والثاني والثالث وبعد الاسبوع (یعنی تیجہ کرنا ددرست نہیں)
7۔فتاویٰ بزازیہ میں ہے۔يكره اتخاذ الطعام في اليوم الاول والثاني والثالث وبعد الاسبوع (یعنی میت کے بعد پہلے دوسرے تیسرے دن اور ہفتہ کے بعد دعوت کرنی مکروہ ہے۔
8۔ملا افندی حنفی رسالہ رد بدعات میں لکھتے ہیں۔’’جو خلاف شرع باتیں ہمارے زمانہ میں ہورہی ہیں۔ان میں یہ بھی ہے کہ قبر پر تیسرے روز جمع ہونا اور خوشبوپھل وغیرہ تقسیم کرنا اور خاص خاص دنوں میں کھانا کھلانا جیسے تیسرے پانچویں نویں دسویں بیسویں چالیسویں دن اور چھ ماہ کے بعد۔‘‘
9۔شیخ عبد الحق دہلوی مدارج النبوۃ میں لکھتے ہیں۔’’یعنی قبرستان یا میت کے گھر پر کسی اور جگہ لوگوں کو جمع ہوکر قرآنی خوانی۔ختم کرنے کی سلف صالحین میں عادت نہ تھی۔‘‘
10۔شیخ علی متقی رسالہ رد بدعات میں لکھتے ہیں۔’’یعنی میت پر قرآن پڑھنے کے لئے قبرستان یا مسجد میں یا گھر میں لوگوں کا اجتماع بدترین بدعت ہے۔‘‘
11۔حنفی مذہب فقہ کی معتبر کتاب جامع البرکات اور کشف الغطا میں ہے۔’’جو کھانا ان اطراف میں برسی ششماہی اور چہلم میں پکا کر کھلاتے ہیں۔اس میں کوئی بھلائی نہیں بلکہ اس کو کھانا بھی نہیں چاہیے۔‘‘
12۔ ماۃ مسائل جو مولانا شاہ اسحاق صاحب حنفی نے 1245ھجری میں خاندان تیموریہ کے بعض اراکین کے سوالات کے جواب مین فرمائی ہے۔جس کا اردو ترجمہ امداد السائل بھی خود حنفیوں کے نامور مولوی صاحب مولانا عبد لحئی صاحب نے کیا ہے۔ اس کے صفحہ 33 پر لکھا ہے۔شریعت سے چالیسیوں کی فاتحہ کے لئے دن مقرر کرنا ثابت نہیں بلکہ چہلم کے کھانے وغیرہ کا انتظام بھی اچھا نہیں سمجھا گیا ۔
13۔ اسی کتاب کے صفہ 86 پر ہے۔روٹیوں میں فاتحہ دینا جیسا کہ مرو ج ہے کسی حدیث اور مجتہدین کی کسی روایت سے ثابت نہیں ۔
14۔اسی کتاب کے صفحۃ آخر پر لکھتے ہیں۔فاتھہ مروج کی کچھ بھی اصلیت نہیں اس لئے یہ امور جو لوگوں میں رائج ہیں۔وہ حضرت رسول اللہﷺ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین اور تا بعین سے منقول نہیں۔
15۔حنفی مذہب فقہ کی کتاب عالم گیری میں ہے۔'سورہ کافرون سے آخر تک لوگوں کا جمع ہوکرپڑھنا مکروہ ہے۔اس لئے کہ یہ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین سے منقول نہیں۔
16۔فقہ حنفیہ کی کتاب نصاب الاحتساب میں ہے۔’’سورۃ کافرون سے لے کر آخرتک مجمع جمع ہوکر پڑھنا مکروہ ہے اس لئے کہ یہ بدعت ہے۔صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین اور تابعین سے منقول نہیں۔
17۔ہدایہ میں ہے کہ صبح صادق کے بعد دو سنتوں کے علاوہ اور کچھ پڑھنا مکروہ ہے۔اس لئے کہ باوجود حرص کے آپﷺ نے دوسنتوں کے علاوہ اور کچھ نہیں پڑھا اور اسی طرح عید گاہ میں اسی طرح عید گاہ میں عید سے پہلے نفل پڑھنے کو منع کرتے ہوئے یہی دلیل وارد کی ہے۔کتاب الحج میں صحابہؤ کے فعل کی نقل نہ ہونے کی دلیل بنا کر مسئلہ ثابت کیاہے۔اور 14۔15 کی دلیل میں آپ پڑھ آئے ہیں کہ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین اورتابعین سے منقول نہ ہونے کو کراہیت کی دلیل سے پیش کیاہے۔پس ثابت ہوا کہ کسی فعل شرعی کا آپﷺ اور صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین اور تابعین سے منقول نہ ہونا اس فعل کے بدعت ہونے اور مکروہ ہونے کی دلیل ہے۔پس مروجہ فاتحہ اور رسوم چہلم وغیرہ بھی بوجہ عدم ثبوت از رسول اللہﷺ بدعت و مکروہ ہوگا۔
18۔مولانا شاہ اسحاق صاحب کی کتاب ماۃ مسائل کے ترجمہ اردو امداد السالئل ص119 میں ہے۔کھانے کی چیزوں شیرینی وغیرہ پر فاتحہ دلانا اور ان راتوں میں یعنی جمعہ کی رات شب عاشورہ شب برات شب قدر وغیرہ میں احادیث اور کتب معتبرہ کی روایات سے ثابت نہیں اور احادیث صحیحہ مرفوعہ متصل الاسناد سے ارواھ کا ان راتوں میں آنا بھی ثابت نہیں۔
خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی سوئم اور چہلم کے عنوان سے اپنے رسالہ درویش مجریہ یکم جون 1926ء میں لکھتے ہیں۔لوگ کہتے ہیں۔مرگئے مردود جن کی فاتحہ نہ درود۔ میں کہتا ہوں فاتحہ کرنے والوں کو مرنے والوں کے ایصال ثواب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔وہ تو محض اپنی ناموری کے لئے سوئم اور چہلم کی رسمیں ادا کرتے ہیں۔سوئم چہلم دسویں۔بیسویں۔کا رواج رسول اللہﷺ کی سنت سے ثابت نہیں ہے یہ سب رسمیں مسلمانوں نے ہندوئوں سے سیکھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضڑت مولانا عبد الباری صاھب مرھوم لکھنوی نے وصیت فرمائی تھی۔کہ ان کا سوئم چہلم نہ ہو جیسے حیدر آباد والے زیادت کہتے ہیں۔قبر میں میرے اعمال میرے ساتھ جائیں گے۔میں کسی کا محتاج مرنا نہیں چاہتا۔جو خرچ سوئم اور چہلم میں ہوتاہے۔ وہ میں اپنی زندگی میں نیک کاموں کے لئے کروں گا۔ تاکہ میں اپنے والوں کا محتاج نہ رہوں۔پس ہرمسلمان مرد ااور عورت کے لئے لازم ہے کہ سوئم چہلم کی رسم ترک کردے۔او ر جو نیکی کرنی ہو اپنی زندگی میں کرے۔زندگی میں جو نیک کام کیا جاتاہے۔ اس کا ثواب بہت زیادہ ہوتا ہے مرنے کے بعد سوئم چہلم چنوکہ نام دیمور کےلئے کیے جاتے ہیں۔اور ہندوں کی دیکھا دیکھی اس کا رواج ہوا ہے۔اس واسطے بجائے ثواب کے الٹا عذاب مردے کی روح کو ہوگا۔
19۔شامی میں ایک لمبی بحث کر کے ان تمام افعال کی نسبت فیصلہ لکھا ہے۔فلا شك في حرمته وبطلان الوصية به یعنی یہ کام تمام بے شک وشبہ حرام محض ہیں۔اوراگر مرنے والوں نے اس کی وصیت کی ہو۔اس کی وصیت بھی یقینا باطل اوربے کار ہے۔
20۔رد المختار جو حنفی مذہب کی چوٹی کی کتاب ہے۔اس میں تحریر ہے۔''ہندوستان وغیرہ میں جو بد رسم ہے کہ میت کے بعد راستوں پر دریاں وغیرہ بچھا کر بیٹھتے ہیں۔یہ بہت بری رسم ہے۔
21۔صاھب قاموس مجددین فیروز آبادی سفر السعادت میں لکھتے ہیں۔''سلف صالحین میں یہ دستور نہ تھا کہ قبر پر یا کسی او جگہ جمع ہوکر کسی مردے کے لئے قرآن خوانی کریں یا ختم پڑھیں۔
22۔ حنفی مذہب کی بہت ہی معتبر کتاب خانیہ میں ہے۔''اگر مرنے والا وصیت بھی کر جائے ہ میری موت کے بعد آنے جانے والوں کو تین دن کھلاتے پلاتے رہنا تو یہ وصیت بھی باطل ہے۔وارثوں کے لئے اس کو پورا کرنا جائز نہیں۔
23۔تذکرہ قرطبی میں ہے۔''یعنی جن کے ہاں میت ہوگئی ہو وہ لوگوں کی دعوت کریں۔یہ فعل اسلام سے پہلے کے جاہلوں کا ہے ۔
24۔اسی کتاب میں ہے۔''یعنی جس گھر میں کوئی مر گیا ہوں۔وہ کھانا پکائیں۔یہ کام ان لوگوں کا ہے۔جن کا دین اسلام میں کوئی حصہ نہ ہو۔
25۔تلخیص السنن میں ہے۔ان ھذا الاجتماع الخ۔یعنی میت کے مخصوص مقررہ دنوں میں جمع کرنا مطلقا ثابت نہیں بلکہ ایسا کرنے والے گویا سلف پر صحا بہرضوان اللہ عنہم اجمعین پر رسول اللہﷺ پر بلکہ خدا پر طعنہ کرنے والے ہیں۔کہ امر دین اور میت کے نفع کی چیز ان سب کو تو معلوم نہ ہوئی۔اور اس کے کرنے والوں نے معلوم کر لی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب