سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(67) کلام اللہ میں جو معجزے نبیوں سے صادر ہوئے ہیں..الخ

  • 5846
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1311

سوال

(67) کلام اللہ میں جو معجزے نبیوں سے صادر ہوئے ہیں..الخ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کلام اللہ میں جو معجزے نبیوں سے صادر  ہوئے ہیں۔ان کو آپ حقیقت مانتے ہیں یا مجاز پر حمل کرتے ہیں۔جیسے ابراہیم ؑ سے جانوروں کا بلانا۔اوردائود علیہ السلام سے لوہے کا موم ہونا اور عیسیٰ علیہ السلام سے مردوں کا زندہ ہونا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

معجزات کیا قرآنیہ کیا حدیثیہ سب حقیقی ہوئے ہیں۔ جب تک حقیقتا قلب ماہیت نہ ہو معجزہ کس طرح ہوسکتا ہے۔ہاں کسی خاص امر کے معجزے ہونے نہ ہونے میں اختلاف ہوسکتاہے۔سو اس کی بناء اس بات پر نہیں ہے۔ کہ فریق ثانی مطلقا معجزہ سے منکر ہے بلکہ اس میں خاص امر کی صورت اعجازی کے ثبوت میں اختلاف ہوتا ہے۔سو اس کا کوئی حرج نہیں۔کیونکہ جو لوگ معجزے کے سرے سے ہی منکر ہیں۔وہ کسی معجزے کو بھی نہیں مانتے اوران کے انکار کی بنا اس بات پر ہے۔کہ کوئی شے بغیر علت کے موجود نہیں ہوسکتی۔اور علت تامہ بشر الطہا موجود ہو تو معلول کا تخلف نہیں ہوسکتا۔لیکن ہمارے نزدیک علت و معلول کا سلسلہ سب کچھ خدائے قادر کے ہاتھ میں ہے۔وہی علت بناتا ہے۔وہی معلول کو موجود کرتا ہے۔وہ کسی چیز کا محتا ج نہیں۔لا  موثر الا الله الصمد ہر چیز اس کے کلمے کن کے ما تحت ہے۔

کسی موجود سے ایجاد کرنا نام رکھتا ہے       مگر لوح عدم پر نقش کرنا کام رکھتا ہے

طیور ابراہیم ؑ  کی نسبت خاکسار کی تحقیق یہ ہے کہ وہ حقیقتا زندہ رکر کے دکھائے گئے تھے۔ لیکن قرآن شریف کے الفاظ میں اس کا فیصلہ قطعی نہیں۔فہم و استنباط و استدلال کے دخل سے خالی نہیں۔اس لیےفریق ثانی اگر یہ کہے کہ زندہ جانور وں کو بلا کر اگر سمجھایا گیاتھا۔ کہ جس طرح یہ جانور تم سے مانوس ہوکر تمہارے بلانے سے دوڑے چلے آتے ہیں۔اسی طرح مردے ہمارے حکم سے جی اٹھیں گے۔تو یہ بعید نہیں۔ کیونکہ مھسوسات سے معقولات کی  تفہیم قرآن وحدیث میں با کثرت وارد ہے۔ چانچہ صحیح بخاری میں آپ ﷺ نے بھی سوال کیف یاتیک الوحی۔کہ جواب میں  فرمایا تھا۔کہ  احيا نا يا تيني مثل صلصلة الجرس تو یہ گھنگرو کی آواز سے تشبیہ محض تفہیم کے لئے تھی۔کہ سائل اس سے آشنا تھا۔ ورنہ وحی کی حقیقت دیگر ہے۔اس طرح ہوسکتاہے کہ سوال کیف تحی الموتیٰ کے جواب میں  ایسی معروف صورت بتلائی جاوے۔ جس سے سائل معتاد ہے۔کیونکہ انتقال زمین کا فائدہ اس سے بھی ہوسکتاہے۔قرآن مجید میں اس لے لئے صرف فصرھن الیک۔وارد ہے۔جس کی دو قراتیں ہیں۔ اول بضم صاد جو معروف و متواترہے۔ اور اس کے معنی مائل کرنے اور سدھانے کے ہیں۔دوسری یسکر صاد جس کے معنی قطع کرنے کے ہیں۔(تفسیر معالم)پس جس نے صرف سدھانا مراد لیا اس نے قرآت متواترہ کی بنا پرکیا اور جس نے قطع کرناوغیرہ مراد لیا اس نے دوسی قراءت کی بنا پر کہا لہذا کسی فریق لہذا کسی پر الزام نہیں۔تفسیر جلالین میں بھی اس کے معنی املهن لکھے ہیں۔اور حضرت شاہ عبد القادر صاحب نے بھی یہ ترجمہ کیا ہے ’’پس ہلا ان کو‘‘ قراءت متواترہ کی روسے استدلال طور پر سمجھایا گیا اور دوسری قراءت کی رو سے عیانی طور پر دکھایا گیا وَاللَّهُ عَلىٰ كُلِّ شَىءٍ قَديرٌ‌ ہاں اگر یہ امر حدیث میں علی التعین وارد ہوجاتا تو کوئی گنجائش باقی  نہ رہتی۔ لیکن کوئی حدیث مرفوع اس باب میں ثابت نہیں ہوئی۔اور جو امور قرآن وحدیث میں منطوق نہ ہواور علماء کے فہم و استنباط وغیرہ  کے نتائج ہوں۔یا ان کی بنا غیر مرفوع روایات پر  ہو۔ان میں علماء مختلف ہو جایئں تو ایک دوسرے پر الزام نہیں آسکتا۔جیسا کہ حجتہ اللہ البالغہ کی عبارت (1) میں کے سو مال کے جواب میں گزر چکا۔فتدبر اسی طرح دائود علیہ السلام کے ہاتھ میں لوہے کا موم ہوجانا۔قرآن مجید میں مذکور نہیں صرف النا کا لفظ ہے۔جس کے معنی نرم کرنے کے ہیں۔اورنہ حدیث مرفوع میں مذکور ہے۔    لہذا فریق ثانی  کا انکار اس وجہ سے نہیں کہ وہ ایک پیغمبر برحق کے ہاتھ میں لوئے کا موم ہونا ممکن نہیں جانتا۔بلکہ اس وجہ سے ہے کہ اس کا ثبوت قرآن وحدیث میں نہیں پایا گیا۔ اگرچہ خاکسار کی  تحقیق میں اس لوہے کا نرم ہونا بھی اعجازی صورت میں تھا۔ لیکن چونکہ اس  کی بناء استدلال  و رعایت قواعد واصول اس پر ہے۔لہذا منطوق نہ ہونے کے سبب دوسرے فریق کو الزام نہیں دے سکتا باقی رہے معجزات عیسویہ وہ تو سب کے سب حقیقی ہیں ان  میں تاویل کی گنجائش نہیں۔نہ لغتا نہ عقلا کیونکہ وہ سب ثبوت رسالت میں پیش کیے گیے ہیں۔اور ثبوت رسالت میں  بطور از دعویٰ رسالت وہ امر پیش ہوسکتا ہے۔ جس دوسرے  پر حجت پوری ہوسکے۔اور ماسوا ررسول ؑ کے دوسرے میں موجود نہ ہوں۔ اور ظاہر ہے کہ یہ سب امر  مجازی صورت میں انبیاء وغیرہ انبیاء میں برابر پائے جاتے ہیں۔پس ان کے سوائے حقیقت کے اور کوئی صورت جائز نہیں۔(خاکسار محمد ابراہیم سیالکوٹی 18 دمسبر 12ء؁)

 -------------------------------------------

1۔یہ عبارت آپ ص200 پر ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

 

 

جلد 01 ص 207

محدث فتویٰ

تبصرے