السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
یہاں چند اہل حدیث اور حنفی شافعی اس بات پرمتفق ہیں۔ کہ خدا آسمانوں میں عرش پر ہے۔ اس کا علم و قدرت سارے جہاں میں موجود ہے۔ جیسا کہ سلف صالحین عقیدہ رکھتے ہیں۔ مگر ایک مولوی صاھب نے یہاں آکر بیان کیا ہے۔ کہ خدا ہرجگہ اپنے علم اور وجودسے موجود ہے۔ اس کو ایک جگہ یعنی عرش پر ٹھرانا غلط عقیدہ ہے۔ اوردلیل سے وَنَحنُ أَقرَبُ إِلَيهِ مِن حَبلِ الوَريدِ ﴿١٦﴾ اور دوسری دلیلوں سے دلیل دے کر اللہ ہر جگہ حاضر وناضر ہے کر کے کہہ دیا۔ اب یہاں کے لوگوں میں کھلبلی پڑ گئی ہے۔ جواب سے مطلع فرمائیں۔ (محمدعلی کاڈوٹی)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
محدثین نے صاف لکھا ہے کہ جو لفظ خدا کی صفات کے متعلق آئے ہیں ان کو بلا تاویل رکھنا چاہیے۔ امرو وها كما وردت (ترمذی وغیرہ)قرآن مجید میں استویٰ علی العرش بھی ہے۔ اور هُوَ اللَّهُ السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضِ بھی ہے۔ دونوں کو بجائے خود رکھنا چاہیے۔ امام شوکانی نے اپنے رسالہ عقیدۃ السلف میں اس کا ذکر مفصل لکھا ہے۔ ملاحظہ ہو۔ رہا اختلاف یہ مدت سے چلا آرہا ہے۔ اس میں منازعت یا مناشقت کرنی منع ہے۔ کل من عند ربنا۔
مورخہ 13 جمادی الاول 1364ھ میں مسئلہ عقیدۃ الاستواء علی العرش کی بابت لکھا گیا تھا۔کہ قرآن میں استواء علی العرش بھی ہے۔اور وهو الله في السموات وفي الأرضبھی ہے۔دونوں کوبجائے خود رکھنا چاہیے اس پر مدارس کے اخبار رفیق نے اس عقیدے کو خلاف اہل حدیث سمجھ کر تعاقب کیا ہے۔واضح ہو کہ یہ مضمون میں نے امام شوکانی کے عقیدۃ السلف سے لیا ہے۔آپ تکلیف کر کے اس کو ملاحظہ کریں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب