السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جغرافیہ دان جو بیان کرتے ہیں۔ کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ آیا اس کی بابت قرآن شریف وحدیث میں زکر ہے۔ (محمد شریف)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آیت قرآنیہ وَتَرَى الجِبالَ تَحسَبُها جامِدَةً وَهِىَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحابِ ۚ﴿٨٨﴾سورة النمل... ’’دیکھنے والے تو پہاڑوں کو جامد دیکھ رہا ہے۔ (ایک دن آنے والا ہے کہ یہ پہاڑ بادلوں کے مثال اڑیں گے۔‘‘ کی ایک تفسیریہ بھی مضارع ھال اور مستقبل دونوں زمانوں کو شامل ہے۔ (10 شعبان 1364ہجری)
اگر زمین سورج کے گرد گھومتی تو پھر سورج ہمارے سر پر دکھائی نہ دیتا ۔ واز لیس فلیس۔
اہل حدیث 10 شعبان 64ہجری جواب میں بیان کیا گیا ہے۔ کہ زمین حول الشمس گھومتی ہے۔ اس کی دلیل آیت قرآنیہ وَتَرَى الجِبالَ تَحسَبُها جامِدَةً وَهِىَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحابِ ۚ﴿٨٨﴾سورة النمل...
بیان کی گئی ہے ۔ زمین گھومتی ہے یا آسمان یہ مبحث حکماء کا ہے۔ فیثا غورث اور بطلی موس دو یونانی حکماء کے درمیان اختلاف ہے کہ زمین گھومتی ہے۔ یا آسمان ایک زمین گھومنے کے قائل ہیں۔ دوسرا آسمان جس قول کی تایئد پر ہدایت الکمت والے نے لکھا ہے۔ ان الفلك يتحرك علي الاستدارة دائماقانون قدرت الہٰہی نے دونوں قول کے خلاف نعرہ احتجاج بلند کرتا ہوا ببانگ دہل پکارتا ہے وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ﴿٣٨﴾ وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّىٰ عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ ﴿٣٩﴾ لَا الشَّمْسُ يَنبَغِي لَهَا أَن تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ۚ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ ﴿٤٠﴾سورة يس
جس سے معلوم ہوا کہ چاند سورج اپنے اپنے محور میں متحرک ہیں۔ بندہ کے خیال میں ذمین یا آسمان کے متحرک ہونے کا ثبوت قرآن کریم سے نہیں ملتا۔ آیۃ ۔ ۔ تري الجبال مین احوال قیامت کا بیان ہے۔ خیال کی صورت اول بیان کی گئی ہے وَتَكونُ الجِبالُ كَالعِهنِ ﴿٩﴾
جب کہ جبال کی حالت عہن منفوش کی طرح ہوجائے گی۔ تو وھی تمر مرالسحاب کا ہونا اظہر من الشمس ہے ۔ علاوہ بریں مرور ودور ایک چیز نہیں۔ دونوں علیحدہ علیحدہ شے ہے۔ جبال کی جمادات۔ ثقالت وضخامت کے باوجود ہول قیامت کی وجہ سے سحاب کی صورت پر فضائے آسمان پر نظر آنے کا بیان ہے۔ فطرت الہٰہی یا قانون قدرت کا کرشمہ کا بیان مقصود بالذات نہیں۔ واللہ اعلم۔ (الراقم عبد السلام بنگالی بگوروی)
اس امر میں بحث کا مدار یہ ہے کہ تَرَى الجِبالَ تَحسَبُها کا صیغہ جو فعل مضارع ہے یا بمعنی حال حضرات مترجمین دونوں طرف گئے ہیں۔ امام ٖغزالی جیسے باریک بین بزرگوں نے اس امرکی تصریح کی ہوئی ہے۔ کہ علوجدیدہ میں جن امورکا انکشاف ہو اور قرآن شریف سے اس کا تایئدی اشارہ ملتا ہو۔ توانکار نہیں کرنا چاہیے۔ میرابھی یہی مسلک ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب