السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
17 رمضان کے پرچے میں نمبر 16 اگر درج کردیں تو تنقید کی توقع ہے جو میرے واسطے مفید ہے۔
(وهوا هذا ولم يكن له صلي الله عليه وسلم ظل في شمس ولا قمر لانه كان نور روي ابن الجوزي عن ابن عباس انه لم يكن للنبي صلي الله عليه وسلم ظل ولم يقم مع الشمس لا غلب ضو ء الشمس شرح زرقاين علي المواهب ص 220 قال عثمان ان الله اوقع اية ولو لا اذ سمعتموه) اسی طرح تذکرہ الموتیٰ قاضی ثناء اللہ پانی پتی ص30 پر لکھا ہے۔ کہ نبی کریمﷺ کا سایہ نہ تھا۔ (المجیب ابو عبد الغنی فیض پوری)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہﷺ کی بشریت مسلم ہے۔ اور بشریت کے لئے جسم لابدی اور جسم کو سایہ ضروری ہے۔ جب تک اس کے خلاف کوئی معتبر ثبوت نہ ہو۔ یہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ کہ آپﷺ کا سایہ نہ تھا۔ سید المرسلین کا جسد اطہر احادیث سے ثابت ہے۔ حدیث شریف میں آیاہے۔ ''ثم افاض علي سائر جسد''کہ آپ نے اپنے سارے جسم مبارک پر پانی ڈالا۔ اس حدیث سے جسم اطہر کا ثبوت ہوا۔ اور جسد کا سایہ ہونا ضروری ہے۔ سائل جو اقوال نقل کئے ہیں وہ بے دلیل ہیں۔ اور ایسے اقوال حجت شرعیہ نہیں ہیں۔ امامابن جوزی ہوں یا صاحب مدارک ان کے اقوال حجت موجبہ نہیں ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب