سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(44) خانقاہ کے نام کا بکرا ذبح کرنا

  • 5823
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2037

سوال

(44) خانقاہ کے نام کا بکرا ذبح کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے علاقے میں ایک خانقاہ ہے۔ بعض لوگ اس خانقاہ کے پیر کے نام کا بکری کا بچہ چھوٹے ہیں اور جب بچہ سال بھر کا ہوجاتا ہے یا جب وہاں عرس ہوتا ہے تو چڑھاتے ہیں ۔ کیا خانقاہ کے نام کا چھوڑا ہوا کرا اگر بیمار ہو جائے تو اس کو ذبح کرکے مسلمان اس کا گوشت کھا سکتے ہیں۔ (عبدالغنی ٹچرز ٹریننگ سکول جموں توی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مرقومہ میں بکرے کا گوشت کھانا حرام ہے۔  کیونکہ وَما أُهِلَّ بِهِ لِغَيرِ‌ اللَّهِ ۖ ﴿١٧٣ سورة البقرة کے حکم میں ہے۔

تشریح از علامہ عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مبارک پوری مدظلہ العالیٰ

لغت میں اہلال کے معنی مطلق رفع صوت کے ہیں۔ یا مطلق نامزد کر دینے کےكما لا يخفي علي من له ادني مما رسة بكتب اللغة وموارد مادة هذا اللفظ في الحديث والارب العربي پس آیت کے معنی یہ ہوہئے۔ کہ اللہ نے اس جانور کو حرام کیا ہے۔ جو بہ نیت تقرب و تعظیم غیر اللہ کے لئے نامزد کردیا گیا ہو۔ یا اس چیز کو جواللہ کےسوا اور کسی کے نام سے پکاری گئی ہو۔ اس تحقیق کی رو سے ثابت ہوا کہ جانور یا کسی چیز کی حرمت کی علت اور مناط غیر اللہ کے تقرب اورتعظیم کی نیت سے غیر اللہ کے نام پر اس جانور یا چیز کو نامزد کردیتا ہے۔ پس اگر ایسے جانور کو ج جسے غیر اللہ کے تقرب اور تعظیم کے لئے نامزد کردیا گیاہے۔ اس غیر اللہ کی تعظیم اور تقرب کی نیت دل میں رکھ کر زبح کیا جائے تو وہ حرام ہوگا۔ عند جمہور المحدثین والفقہا الحنفیہ۔ عام ازیں کہ وقت ذبح اللہ کا نام لیا جائے یا نہ بوقت ذبح بسم اللہ کہنے سے وہ حلال نہ ہوگا۔ جب کہ دل میں نیت غیر اللہ کے واسطے ذبح کرنے کی ہے۔ اس لئے کہ عوام ایسے جانور کو ذبح کرنے میں غیر اللہ کی تعظیم و تقرب کا قصد کرتے ہیں۔ اور محض عادتا و رسمابسم اللہ بھی پڑھتے ہیں۔ اورا عتبار نیت کاہےنہ ظاہر ی الفاظ کا انما الاعمال بالنيات (مصباح صفحہ 9 جلد 1 نمبر3)

حضرت مجدد الف ثانی ؒ اور زمانہ حال کے اہل بدعت

بہت سے جائل نام کے مسلمان شہیدوں اور بزرگوں کے لئے مرغوں بکروں وغیرہ جانوروں کی نزریں مانتے ہیں۔ اور جب ان کے پورا کرنے کا وقت آتا ہے۔ تو ان جانوروں کو ان شہیدوں یا بزرگوں کی قبروں یا ان سے خصوصیت رکھنے والے کسی اور مقام پر لے جا کر ذبح کرتے ہیں۔ (میاں کبیر کی گائے۔ شیخ سدو کا بکرا۔ سید سارار شاہ مدار کا مرغا یہ سب اسی قبیل سے ہیں)علمائے اہل سنت اس فعل کوشرک کہتے ہیں۔ اور ہمارے زمانے کے اہل بدعت ''ایصال ثواب''کی تاویل سے اس سب خرافات کو ٹھیک درست اوران ذبائع کو حلال و طیب ٹھراتے ہیں۔ اہل سنت اوراہل بدعت کا یہ بھی ایک مشہور نزاعی مسئلہ ہے۔

اب حضرت مجدد قدس سرہ کا فیصلہ اس بارے میں ملاحظہ فرمایئے۔

''اور بزرگوں کے لئے جو حیوانات (مرغوں بکروں وغیرہ)کی نزریں مانتے ہیں۔ اور پھر ان کو قبروں پر لے جا کر ذبح کرتے ہیں۔  تو فقہی روایات میں اس فعل کوبھی شر ک کہتے ہیں۔ اور فقہاء نے اس باب میں پوری شدت سےکام لیا ہے۔ اور ان قربانیوں کو جنوں اور(دیوتائوں اوردیویوں) قربانی کے قبیل سے ٹھرایا ہے۔ جوشرعا ممنوع اور شرک ہیں۔ حضرت مجدد کا یہ واحد فیصلہ ہے کہ جائل قبر پرست اورشہیدوں اور بزرگوں کی نظر کے طور پرجو جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ وہ داخل شرک ہیں۔ نیز حضرت قدس سرہ کی اس تصریح سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ روایات فقیہ میں بھی اس کوشرک ہی قرار دیا گیا ہے او فقہاء کے نزدیک اس کی حیثیت ذبائع جن ہی کی سی ہے یعنی ان جانوروں کی سی جن کی قربانی دیوں دیویوں یا پریوں کے لئے کی جاتی ہے۔

''لا اله الا الله وحده لا شريك له''    

پیروں اور بیبیوں کا روزہ اور ایام معینہ میں خاص طریقوں اور مخصوصکھانوں کے ساتھ بزرگوں کی فاتحہ کا بہت سے مقامات پر جاہل عورتوں میں اب بھی رواج ہے۔ کہ وہ اپنی حاجتوں کے لئے خاص خاص دنوں میں پیروں شہیدوں اور بعض بیبیوں مثلا بیبی فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کے نام کے روزے رکھتی ہیں۔ اور ان کواپنی حاجت براری کا ذریعہ سمجھتی ہیں۔ علماء اہل سنت کے نزدیک یہ بھی داخل شرک ہے۔ اوراہل بدعت اس میں بھی ایصال ثواب کا وہی فرسودہ حیلہ نکال کر اس کو بھی جائز بلکہ مستحسن گرانتے ہیں۔ حضرت مجدد اس بارہ میں بھی صاف ارقام فرماتے ہیں۔

’’اور شرک کے ہی قبیلوں میں سے عورتوں کے وہ روزے جو وہ پیروں اور بیبیوں کے نیت سے رکھتی ہیں ان میں سے اکثرکے تو نام بھی خود انہی کے تراشے ہوئے ہیں۔ اور انہی خود ساختہ ناموں پر وہ روزے رکھتی ہیں۔ اور ہر روزے کے افطار کے لئے انھوں نے مختلف طریقے مقرر کیے ہیں۔ اور ان روزوں کے دن بھی الگ الگ مقرر ہیں۔ یہ بدبخت اور جائل عورتیں اپنی حاجتوں کو ان درزوں سے وابستہ کرتی ہیں۔ اوران ہی روزوں کے و سیلہ سے اپنی مرادیں ان پیروں یا بیبیوںسے مانگتی ہیں۔ اور ان کی حاجت روائی کا اعتقاد رکھتی ہیں۔ اور یہ بلاشک شرک فی العبادت اور غیر اللہ کی عبادت کے زریعےاسی خیرسے اپنی مرادیں چاہتا ہے۔ اسی مشرکانہ فعل کی شناخت وخرابی اچھی طرھ سمجھ لینی چاہیے۔ اور وہ جو بعض عورتیں اس کے جواب میں یہ تاویل کرتی ہیں۔ کہ ہم یہ روزے اللہ کے واسطے رکھتے ہیں اور ان کا ثواب پیروں کا بخشتے ہیں۔ سو محض یہ ان کا حیلہ ہے۔ ورنہ اگر وہ اس بات میں سچی ہوتیں۔ تو ان روزوں کے لئے خاص دن کا ہی تعین کیوںہوتا۔ اور پھر افطار میں خاص قسم کے کھانوں اور خاص طریقوں کے اہمتام کے کیا معنی؟‘‘(مکستوب 41 دفترسوم ص70)

حضرت مجدد کے ارشا د گرامی سے ایک طرف تو پیروں اور بیبیوں کے نام کے روزوں کا شرک ہونا معلوم ہوا۔ اور دوسری طرف یہ اصول بھی صاف ہوگیا۔ کہ اگر کسی بزرگ کو صرف ایصال ثواب مقصود ہو توپھردن تاریخ کے تعین اور کسی مخصوص ہی کھانے کے اہتمام اور کسی خاص ہی طریقے کے التزام کے کوئی معنی نہیں۔ اور جو جاہل لوگ بزرگوں کی فاتحہ میں یہ سارے التزامات واہتمامات کرتے ہیں۔ وہ درحقیقت کسی مخفی اعتقادی خرابی اور مشرکانہ قسم کی کسی توہم پرستی میں مبتلا ہیں۔ اور ایصال ثواب کی آڑ وہ صرف حیلے کےلئے دیتے ہیں۔

یہی ہے وہ زریں اصول جس کی بناء پر علماء اہل سنت مروجہ گیارہویں۔ بارہویں۔ بی بی کی صحنک شیخ عبد الحق کے توشہ سہنمی شاہ بو علی قلندر کوسختی سے ناجائز کہتے ہیں اور اس بارہ میں غیر معمولی شدت برتتے ہیں۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

 

 

جلد 01 ص 182

محدث فتویٰ

تبصرے