سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(28) معلومات متعلقہ وید

  • 5807
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3770

سوال

(28) معلومات متعلقہ وید

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آپ نے کتاب حضرت محمد رشی علیہ السلام جو لکھی ہے او ر ہندوں کی مذہبی کتاب سام وید کی عبارات سے نبیﷺ کا رشی (رسول) ہونا ثابت کیا ہے۔ (1) سوال یہ ہے کہ کیا وید بھی زبور ۔ توریت۔ انجیل کی طرح کتب آسمانی میں سے ہے۔ اگر نہیں تو مذکورہ وید کی عبارتوں سے ثابت کرنا اس کتاب کو آسمانی کتاب کا درجہ دینا ہوا یا نہیں؟کیونکہ نبی اور رسولﷺ کے متعلق بشارت آمد سوائے آسمانی کتب کے دیگر کتب میں ہرگز نہیں ہوسکتیں۔ لہذا اگر یہ بھی دیگر اگلی آسمانی کتابوں میں سے ہے۔  تو اس کا ثبوت قرآن مجید واحادیث سے ہونا چاہیے۔ (محمد سلیمان از چکر دھر پور)

-------------------------

1۔ مرھوم ک مشہور ترین کتاب ’’محمد رشی‘‘میں یہ تفصیلات موجود ہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہمارا اعتقاد ہے کہ وید مجموعی طور پر الہامی نہیں۔ لیکن بعض کلام اس میں کسی صاحب باطن کا درج ہو تو ممکن ہے۔ جس کلام سے محمد رشی لکھا گیا ہے۔ وہ کشفی معلوم ہوتا ہے۔ اگر آپ کی اس سے تشفی نہیں ہوئی۔ تو سمجھئے کہ محمد رشی معتقدین دید کےلئے الزامی دلیل ہے۔ جیسےانجیل توراۃ موجودہ کے حوالے الزامی ہیں۔ (اہل حدیث 18 اگست 1933ء؁)

وید اور اس کے تراجم اور تفاسیر

نوشتہ (پنڈت) مقصود حسن صاحب حنیف چتر ویدی ۔ متوطن روڈ کی ضلع سہارنپور۔

اسلام پیارا ۔ اسلام نورانی۔ ایک تبلیغی مذہب ہے اور اس حیثیت سے دیگر مذاہب کی تسلیم کردہ الہامی کتابوں سے واقفیت رکھنا اس لے مبلغین کے لئے فرض کفایہ ہے۔

ہمارے ملک ہندوستان کے عام باشندے وید کو الہامی کتاب مانتے ہیں۔ اور اس ملک میں فریضہ تبلیغ ادا کرنے کے لئے مسلمانوں کا وید سے واقف ہونا ضروریات دین سے ہے۔ لیکن آج کتنے مسلمان ہیں۔ جو اس دینی ضرورت کے پورا کرنے والے ہیں۔ ہمارے انداز میں آٹھ کروڑ میں با مشکل دس بیس حد پچیس مسلمان ایسے نکلیں گے۔ جنھوں نے چار ویدوں یا ان کے ایک معتد بہ حصے کا مطالعہ کیاہو۔ آج جبکہ ہمارے ملک میں کانگریس کا صرف اثر بلکہ حکومت قائم ہوتی جا رہی ہے۔ اور شدھی یا اشدھی کا سلسلہ بھی مستقل طور سے قائم ہوچکاہے۔ مسلمانوں کے لئے پہلے سے زیادہ ضروری ہوگیا ہے کہ وہ ویدوں کا مطالعہ کریں جس سے نہ صرف اشاعت اسلام میں مدد ملے بلکہ اغیار کے حملوں کی مدافعت بھی کما ھقہ ہوسکے۔ اسی واسطے اس عاجز کی دلی آرزو ہے۔ کہ مسلمانوں میں کم از کم ایک چھوٹی سی جماعت جس کی تعداد چند سو تک پہنچ جائے ایسی تیار ہوجائے جو ویدوں سے خاص طور پر واقفیت رکھتی ہو۔ ہمارے بہت سے جوانوں کے لئے ایسی جماعت کے افراد بن جانا کوئی مشکل کام نہیں۔ کیونکہ اس کام کےلئے سنسکرت کا جاننا۔ اب چنداں ضروری نہیں رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جب تک ویدک دھرم ایک تبلیغی دھرم نہیں کہا جاتا تھا۔ اس وقت تک وید کے پیرو اس شضص جو وید کا مطالعہ کرنا چاہے۔ یہ کہنے کا ایک حد تک حق رکھتے تھے۔ کہ جناب پہلے سنسکرت پڑھ آیئے تب اس مقدس کتاب کو ہاتھ لگایئے گا۔ لیکن اب ج ب کہ ویدک دھرم تبلیغی مذاہب کی ش شان ہی یہ ہے ک وہ کسی ایک زبان جاننے والوں کے لئے مخصوص نہیں ہوتے۔ بلکہ ان کی کتب مقدسہ کے ترجمے ہر زبان میں پڑھے جاسکتے ہیں۔ اور پڑھے جاتے ہیں۔ غرض کہ سنسکرت کا نا جاننا ہمارے نوجوانوں کے لئے وید کے مطالعہ کا مانع نہ ہونا چاہیے۔ بلکہ ان میں سے جو افراد ہندی یا انگریزی سے ایک اچھی حد تک واقف ہوں۔ انھیں ویدوں کو ضروری پڑھنا اور اپنے دیگر بھائیوں کو پڑھانا چاہیے۔ کیونکہ انگریزی میں بہت پہلے سے اور آجکل ہندی میں بھی ویدوں کھ متعلق با کثرت لٹریچر فراہم ہوچکاہے۔ ا س سے فائد اٹھا یا جاسکتا ہے۔ پیروان وید ک جدید ترین فرقہ (آریہ سماج) اگرچہ انگریزی تراجم۔ اور اکثر ہندی تراجم۔ کو مستند نہیں مانتا۔ لیکن ان کے اس انکار سے ان کے مستند ہونے میں فرق نہیں آسکتا۔ اور اگر کوئ چھوٹا سا طبقہ ان کی صحت سے انکار کرے تو اسے چیلنج دیا جاسکتاہے۔ کہ ترجمہ میں غطبی ثابت کر سکے۔ البتہ ایک امر ہے جو انگریزی یا ہندی داں مسلمان نوجوانوں کو شوق رکھنے پر بھی ویدوں کے مطالعے میں مانع آسکتا ہے۔ اور آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ عزیز مفید کتابوں کے ناموں اور پتوں سے ناواقف ہیں۔ اور اسی وجہ سے وہ ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ یہ مضمون ہم اسی غرض سے لکھ رہے ہیں۔ کہ ان کتابوں کا تذکرہ یک جا کیا جائئے۔ تاکہ شائقین ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔ ان کتابوں کے پڑھنے سے پہلے جو جو معلومات طالب علم کو ہونی چاہیے۔ ان کو بھی اس مضمون میں فراہم کر دیا گیا ہے۔ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ جو لوگ انگریزی اور ہندی نہین جانتے وہ بھی ویدوں کو پڑھین۔ ان کے لئے ہم نے ویدوں کے ضروری حصص کا ترجمہ اردو مین کرلیا ہے۔ خدا وہ دن بھی کرے کہ یہ انتکابات کتابی شکل میں طبع ہوکر شائقین کے ہاتھوں تک پہنچ سکیں۔

شرتی اور سمرتی کا بیان

واضح ہو کہ برادران ہنود کے کتب مقدسہ کی دو قسمیں ہیں۔ ایک شرتی یعنی الہامی کتابیں۔ دوسرے یعنی کتب روایات عام ہندوں یعنی سناتن دھرمیوں ک نزدیک تو بہت سی الہامی کتابیں ہیں۔ لیکن فرقہ آریہ سماج الہام کو صرف چار ویدوں میں محدود مانتا ہے۔ ان چاروں کے نام یہ ہیں۔ 1۔ رگ وید۔ 2۔ سام وید۔ 3۔ یجر وید۔ 4۔ اتھر وید ۔ یہ چاروں وید نظم میں ہیں۔ اگرچہ یجر وید اور اتھر وید میں کہیں کہیں نثر کے فقرے بھی پائے جاتے ہیں۔ وید کی نظم کا ہر شعر منتر یا رچا کہلاتا ہے۔ منتروں کے ایک بڑے مجموعے کو وید کہتے ہیں۔ مجموعہ کےلئے سنسکرت میں سنگھتا کا لفظ بھی ہے۔ اور کبھی کبھی وید کے بعد سنگھتا کا لفظ بھی ملادیتے ہیں۔ مثلا رگ وید سنگھتا۔ یجر وید سنگھتا۔ یعنی مجوعہ رمگ وید مجوعہ یجر وید وغیرہ وید سنگھتائوں کے بعد ہندووں کی مقدس ترین کتاب وہ ہیں جو برہنمن گرنتھ کہلاتی ہیں۔ یہ کتابیں وید کی عمدہ ترین تفسیریں ہیں۔ سناتن دھرمی ان گرنتھوں کو الہامی بلکہ ویدوں کو ہی جزو لانفیک طور پر مانت ہیں۔ لیکن آریہ سماجی ان کو شرتی کا درجہ نہین دیتے۔ بلکہ سمرتی کے درجے میں لکھتے ہیں۔ یعنی ان کو غیر الہامی مقدس کتابیں سمجتے ہیں۔ برہمن گرنتھ۔ اگرچہ متعدد ہیں۔ لیکن ان میں چھ زیادہ مشہور ہیں۔ 1۔ تیریہ برہمن۔ 2۔ کوشیتکی برہمن یہ دونوں برہمن رگ وید کے متعلق ہیں۔ ۔ 3۔ ٹانڈیا مہاجر برہمن یہ سام وید کے متعلق ہے۔ چونکہ اس میں 45 ابواب ہیں۔ اس لئے اس کو پنچ وش برہمن بھی بولتے ہیں۔ 3۔ شت پت برہمن۔ تیتریہ برہمن یہ دنوں یجر وید کے متعلق ہیں۔ 6 گوپتھ برہمن۔ 7۔ یہ اتھر وید کے متعلق ہے۔

برہمن گرنتھوں کے خاص خاص فلسفیانہ اور صوفیانہ حصص آر نیکیوں اپنشدوں کے نام سے مشہور ہیں اس لئے سناتن دھرمیوں کے نزدیک وید گو یا طرح کی کتابوں کو کہتے ہیں۔ یعنی سنگھتا برہمن آر نیک۔ اور اپنشدان کے نزدیک سمرتیاں ہیں ہندووں کے ہر طبقہ میں اپنشد بڑی مقبول اور خوب پرھی جانے والی کتابیں ہیں عام طور پر ان کو ویدوں کا عطر سمجھا جاتا ہے۔

سمرتیوں میں اگرچہ منوسمر تی بہت مشہور ہے۔ لیکن ہم اس کا زکر نہیں کریں گے۔ کیونکہ ویدوں سے اس کا تعلق دور کا ہے۔ قریب کا نہیں ہے۔ ویدوں سے قریب کا تعلق رکھنے والے و سمرتیاں ہیں جو شروت سوتر کے نام سے مشہور ہیں۔ شروت کے معنی ہیں۔ وہ کتاب جو شرتی سے تعلق رکھے اور سوتر سوت یا ناگے کو کہتے ہیں۔ شروت سمور بھی متعدد ہیں۔ لیکن ان میں سے چند مشہور سوتروں کے نام یہ ہیں۔

1۔ اشو لائن۔ 2۔ شانکھا بن یہ دونوں رگوید کے متعلق ہیں۔ 3۔ آپستمپ۔ 4۔ بودھادین 5۔ کاتیا ین یہ تینوں یجر وید کے متعلق ہیں 6۔ لاتیای ن سام وید کے معلق ہے۔ 7۔ کوشک۔ 8۔ ویتان۔ یہ دونوں اتھر وید کے متعلق ہیں۔

وید سنگھتائوں کی ضخامت اوران کے مختلف نسخے

 آجکل عموما ویدک نیتر الیہ اجمیر کے چھپے ہوئے وید دیکھے جاتے ہیں۔ یہ وید سنگھتایئں معمولی کتابی سائز پر جو ساڑھے چھ انچ چوڑا اور رس انچ لمبا ہوتا ہے چھپی ہیں۔ ہر صفحہ میں 29 سطریں ہیں۔ اور ہر وید کے صفحات کی تعداد حسب زیل ہیں۔ رگ وید 259 صفحات سام وید 120 صفحات یجر وید 159 صفحے اتھر وید 298 صفحے میزان کل چار ویدوں میں بارہ سوچھتیس صفھات ۔ یہ ضخامت ان ویدوں کی ہے جو آج کل عام طور پر ملتے ہیں۔ اور جو ہر ایک وید کی مشہور ترین قسم ہے۔ ورنہ ایک ایک وید کئی طرح کا ملتا ہے۔ کہتے ہیں کہ زمانہ میں حضرت سام وید صرف ایک ہزار طرح کا ییا ایک ہزار شاخؤں کا ملتا تھا۔ چاروں ویدوں کی ایک ہزار ایک سو اکتیس شاخیں مشہور ہیں گویا باقیج تین ویدوں کی ملا کر 121 شاخیں یہ شاخیں اسی طرح سے پیدا ہوگئیں ہوں گی کہ ایک گھرانا ایک وید کو سکی طرح سے چڑھتا ہوگا۔ دوسرا گھرانا اسی وید کو زرا فرق سے پڑھتا ہوگا تیسرے گھرانے میں کچھ اور فرق ہوگا۔ ایک استاذ کس طرح پڑھتا ہوگا،۔ دوسرا کسی طرح پھر ان شاگردوں اور شاگرد در شاگردوں میں اختلاف ہوا ہوگا۔ آج کل بھی بہت سے ویدوں کی کئی کئی شاخین چھپی ہوئی ملتی ہیں۔ رگ وید پہلے 21 قسم کا ملتا تھا۔ اب اس کی صرف ایک قسم یعنی شاکل شاکھا (شاخ) ملتی ہے۔ رگ وید کی ایک دوسری شاخ یعنی واشگل شاکھا کی نسبت معلوم ہے کہ اس میں اور شاکل میں بہت کم فرق تھا ۔ یعنی واشکل میں شاکل سے چند گیت زائد تھے۔ اور بعض کی ترتیب مختلف تھی۔ یہ زائد گیت آج بھی ملتے ہیں۔ اورشاکل نسخہ میں عموما بطور ضمیہ شائع کردئے جاتے ہیں۔ اس طرح گو یارک وید کی دو شاکھایئں اس وقت موجود ہیں۔ سام وید کی آج کل جو شاخ عام طور پر پائی جاتی ہے۔ وہ رانائنی شاکھا ہے۔ سام وید کی ایک دوسری شاخ کوتھمی ہے رانائنی اور کوتھمی شاخوں میں تھوڑا ہی سافرق تھا آج کل کو تھمی شاخ کا صرف ایک حصہ ہی پایا جاتا ہے۔ ایک تیسری شاخ سام وید کی بے حرمتی ہے غالبا اس شاکھ کا بھی کچھ حصہ موجود ہے۔ یجر وید کی بھی متعدد شاخیں تھیں جن میں سے اب پانچ چھ شاخیں ملتی ہیں۔ اول ما دھیند نی جو عام طور پرملتی ہے دوم کانوی یہ بھی بمبئی وغیرہ میں چھپ گئی ہے۔ ما دھیندنی اور کانوی شاخوں میں بہت تھوڑا فرق ہے۔ جرمنی کے پروفیسر ویبر نے غدر ہندوستان سے چند سال پیشتر دونوں شاخوں کو یکجائی طور پر شائع کیا تھا۔ یجر وید کی یہ دونوں شاخیں شکل یعنی سفید کہلاتی ہیں۔ شکل یجر وید کو داجنی سنگھتا بھی کہتے ہیں۔ یجر وید کی تیسری شاخ تیتری سنگھتا کہلاتی ہے۔ یہ گورنمنٹ پریس میسور اور دیگر مقامات میں چھپی ہے اس شاکھا کی ضخامت ماہ دھیندنی شاکھا سے تقریبا تین گنی ہے چوتھی شاخ کٹھ اور پانچویں میتراینی کہلاتی ہے۔ ان دونوں شاخوں کو پروفیسر شروڈر نے 1890ء کے پس وپیش وائنا داراالسلطنت آسٹریا سے شائع کیا تھا یجر وید کی آپس تمہی شاخ کے کچھ حصص بھی غالبا پائے جاتے ہیں۔ تیتری کٹھ میترانی وغیرہ شاخیں کرشن یعنی سیاہ یجر وید کہلاتی ہیں۔

کرشن یجروید کا رواج رکھن میں اور شکل یجر وید کا رواج شمالی ہندوستان میں زیادہ ہے اتھر وید کی سکی زمانہ مین نو شاخیں تھیں۔ جن میں سے صرف شونک شاکھا ہی آج کل عام طور پر ملتی ہے۔ اس وید کی دوسری شاک یعنی پیپلا و شاکھا کا دنیا میں صرف ایک نسخہ کشمیر میں تھا۔ اس واسطے یہ شاکھا کشمیر شاکھا بھی کہلائی جانے لگی ہے اس نسخہ کے کئی ورق گم ہیں۔ پروفیسر ماریسن بلوم فیلڈ اور پروفیسر رجاڈر گار بے کی حسن سعی سے یہ نسخہ 1901ء میں کرومو فوٹو گرانی سے چھپ کر شائع ہوچکا ہے۔ (اہل حدیث امرتسر ص8 27 رجب 1357ھ؁) فضل محترم کے یہ اس مضمون کی یہ ابتدائی قسطیں ہیں۔ مضمون کافی طویل اور معلومات سے پر ہے جو اہل حدیث کی کئی اشاعتوں میں نکلا ہے۔ مناسب تھا کہ ہم یہ مضمون سارا نقل کرتے۔ مگر فتاویٰ کی محدود ضخامت ہمیں اس کے چھوڑنے پر مجبور کر رہی ہے۔ جو صاھب سارا مضمون پڑھنا چاہیں وہ اہل حدیث مرحؤم 57ہجری اور 58 ہجری کے فائل ملاحظہ فرمایئں (جامع)

 کیا وید الہامی ہیں؟

 اس علمی بحث کی تفصیلات کے لئے 9 رجب 58ہجری سے اہل حدیث کی فائلوں کو ملاحظہ فرمایئے۔ افسوس کے ساتھ ہم اس بحث کو بھی بوجہ عدم گنجائش کے یہاں درج نہیں کرسکے۔ فقط( راز)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

 

جلد 01 ص 167

محدث فتویٰ

تبصرے