السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سورہ حاقہ میں آیاہے:
﴿وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةٌ ﴾--سورة الحاقه17
مستدرک حاکم میں صحیح سندسے آیاہے کہ اب اللہ تعالی کاعرض چارفرشتے اُٹھائے ہوئے ہیں۔ اورقیامت کے دن چاربڑھاکرآٹھ فرشتے اٹھائیں گے اور ابن جریرمیں ابوزیدسے مرفوعاروایت ہے:
«یحمله الیوم ویوم القیمة ثمانیة»
(حاشیہ جامع ص 485)اورابوداؤدمع عون المعبودص 369میں ہے
«ثم فوق ذالک ثمانیة اوعال بین اظلانہم ورکبہم مثل مابین سماء الی سماء ثم علی ظہورہم العرش ۔»
اس حدیث سےمعلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالی کاعرش اب آٹھ فرشتوں کی پشت پرہے اورپہلی دو آیتوں سے معلوم ہوتاہے کہ اب چارفرشتے اٹھائے ہوئے ہیں ۔دونوں کی تطبیق کیاہے۔؟ا زراہِ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیں جزاكم الله خيرا
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ابوداؤدکی حدیث میں یہ تصریح نہیں کہ آٹھ فرشتوں کی پیٹھ پرعرش ہے مگرجب دوسری صحیح روایتوں میں چارکی تصریح ہے توضمیرسے مرادبعض ہوں گے پس اب کوئی مخالفت نہیں ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب