سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(02) عقائد صحیحہ

  • 5776
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1495

سوال

(02) عقائد صحیحہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عقائد صحیحہ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عقائد صحیحہ

جو کچھ ہمارے عقائد میں ہے ہم علی الاعلان بیان کرتے ہیں۔والله علي ما نقول وكيل جب تک انسان پورا کلمہ لا امه الاالله محمد رسو ل الله  نہ کہے وہ مسلمان نہیں ہوگا۔اللہ تعالیٰ اپنی ذات وصفات میں یکتا اور بے نظیر ہے۔ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وہی سب کا خالق و مالک اور روزیاں پہنچانے والا ہے۔ وہ ساتوں آسمانوں کے اوپر عرش عظیم پر ہے۔ جو جو صفات اللہ تعالیٰ کی قرآن شریف اور صحیح حدیثوں میں

وارد ہوئی ہیں۔ہمارا ان سب پر بغیر انکار اور تاویل باطل اور تحریف اور بغیر دریافت کیفیت ایمان ہے۔

عبادتوں کے قابل صرف  اُسی کی ذات ہے۔عبادت مالی ہو۔بدنی ۔ہویا زبانی۔ سب اُسی وحدہ لاشریک کی ذات کے لئے ہونی چاہیے۔جو شخص اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کرے یا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور میں اللہ تعالیٰ کی صفت مانے وہ کھلا گمراہ اور مشرک ہے۔مشرک ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ قرآن شریف اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ جسے اس نے جبرئیل علیہ اسلام کی معرفت نبی آخر الزمان محمد ر سول اللہﷺ پر نازل فرمایا ۔حضرت محمد  رسول اللہﷺ اللہ کے بندے اور سچے رسول ﷺ ہیں۔آپ کل انس وجن کی طرف پیغمبر بن کر آئے ہیں۔نبوت حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوئی اور آپ کی ذات و صفات پر ختم ہوئی آپ کے بعدقیامت تک  کوئی اور نبی نہ ہوگاجو شخص آپ کے بعد کسی کو نبی مانےاور آپ ﷺ کو خاتم النبیین نا جانے وہ کافر ہے۔آپﷺ تمام نبیوں سے افضل اور اور کل اولاد آدم کے سردار ہیں۔آپﷺ کی شفاعت حق ہے۔قیامت کے میدان میں سب سے پہلے اورسب سے بڑی شفاعت آپ کی  ہوگی۔آپ کی گستاخی اور بے ادبی کرنے والا آپﷺ کی توہین اور تحقیر کرنے ولالا آپﷺ پر سب وشتم اور لعن طعن کرنے ولالا گردن زنی اور کافر مطلق ہے۔ہمارا عقیدہ ہے کہ کوئی امتی خواہ ہی کتنی ہی عبادت اور  ریاضت زہد وتقویٰ کرے۔وہ کتنا ہی بڑا عالم و عابد ہو۔نبوت کےدرجہ کو نہیں پاسکتابلکہ انبیاء علیھم السلام کی خاک پا کے برابر نہیں ہوسکتا۔جب تک آپﷺ کی محبت اور عزت و بزرگی انسان کے دل میں اپنے ماں باپ بھائی بہن حاکم و محکوم وغیرہ غرض دنیا کے کل لوگوں سے زیادہ نہ ہو تب تک وہ مسلمان نہیں رہتا۔

آپ ﷺ کے کل معجزے مثلا چاند کے دو ٹکڑے ہونا پہارڑوں اور  درختوں اور کنکریوں کا آپ کی نبوت کی گواہی دینا سب برحق ہیں۔

معراج برحق ہے آپ کو ایک ہی رات میں اللہ نے مکہ سے بیت المقدس کی اور وہاں سے ساتوں آسمانوں کی سیر کرائی اور پھر اُسی  رات میں واپس اپنی جگہ پہنچا دیا۔معراج جاگتے  ہوئے آپ کے جسم اور روح مبارک سمیت سیر کرائی گئی۔آپ ﷺ پر کثرت درود پڑھنا چاہیے۔جو شخص آپ کا مبارک نام سنے اور درود نہ پڑھے وہ بڑا بدنصیب اور سب سے زیادہ بخیل ہے۔قیامت کے  روز سب سے پہلے آپﷺ کو اٹھایا جائے گا۔ آپﷺ کے لئے سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھولا جائےگا۔ سب سے بڑا حوض کوثر  آپﷺ کا ہوگا۔سب سے زیادہ جنتی آپﷺ کی امت ہوگی۔ یہاں تک کہ اہل جنت میں ایک تہائی میں اور باقی تمام امتوں میں دو تہائی میں صرف امت محمد ﷺ آپﷺ کے کل فرمان امت پر واجب العمل ہیں۔احکام شرح میں آپﷺ اس وقت تک کوئی ارشاد نہیں فرماتے تھے۔جب تک اللہ تعالیٰ سے وحی نہ آجائے۔آپ گناہوں اور شریعت کی باتوں میں غلطی کرنے سے معصوم تھے۔قرآن وحدیث کا یا صرف قرآن کا یا صرف ھدیث کا منکر کافر ہے۔حجت تامہ اور مستقل دلیل صرف قرآن و کرم وحدیث صحیح ہے۔ہر ایک امام مجتہد بزرگ محدث کے قول کو قرآن وحدیث پر پیش کرنا چاہیے۔اگر مطابق ہو قبول کرنا چاہیے اور مطابق نہ ہو تو قبول نہیں کرنا چا ہیے۔کل انبیاء علیھم السلام اور ان کی کتابیں اور  ان کے معجزے برحق ہیں۔ انبیاء علیھم  السلام کے بدن قبر میں سرت گلتے نہیں بلکہ جوں کے توں باقی رہتے ہیں۔دوزخ ۔جنت۔عذاب وصواب۔لوح محفوظ قلم قیامت ۔صور۔ عذاب وثواب قبر میزان نامہ اعمال  نامہ اور پل صراط ۔دیدار باری تعالیٰ مرنے کے بعد جینا ۔تقدیر کی بھلائی برائی فرشتہ حور غلمان وغیرہ سب برحق ہیں۔صحابہ کرام  رضوان اللہ عنہم اجمعین  کی محبت عین ایمان ہے۔اور ان کے ساتھ بغض رکھنا علامت کفر ہے۔خصوصاً خلفاء اربعہ میں سے کسی سے بغض رکھنا اولیاء اللہ سے دوستی رکھنا عین ایمان ہے۔اور   ان کی دشمنی خدا کی دشمنی ہے۔اولیاء اللہ کی کرامتیں برحق ہیں۔اولیاء اللہ کا ادب اورعزت کرنی چاہیے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ انھیں حاجت روا مشکل کشا سمجھیں یا کوئی اور وصف خدا جیسا ان میں مانیں یا جو عبادتیں مالی ہوں یا بدنی یا زبانی ان اولیاء اللہ کے لئے کریں۔اماموں اور مجتہدوں  اور محدثین کی توہین کرنا انھیں برا بھلا کہنا ان سے بغض رکھنا اور دشمنی رکھنا مسلمانوں کا کام نہیں۔خصوصاً چاروں میں امام ابو حنیفہ ؒ امام مالک ؒ امام شافعی ؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ کی  توہین  کرنا ان بزرگوں کو برائی سے یاد کرنا ان سے دشمنی رکھنا صریح بے دینی ہے۔

ہم اہل حدیث

ان بزرگوں اور بزرگان دین کی تہہ دل سے عزت کرتے ہیں۔ انہوں نے جو باتیں ہمیں اللہ اور رسولﷺ کی پہنچایئں ہیں۔ہم ان کا ماننا فرض سمجھتے ہیں۔ ہاں جس کی بات کلام اللہ اور حدیث رسول اللہﷺ کے خلاف ہو اس کو نہیں مانتے۔ہمارا یہ مذہب نہیں ہے کہ ہم ایک امام کی بات چاہے وہ حدیث و قرآن کے خلاف ہو سب کا ماننا اپنے لئے  فرض سمجھیں۔یعنی تمام امور شرعی میں اسی ایک کی تقلید کریں۔ہم ایسی تقکید کو قرآن وحدیث کے خلاف سمجھتے ہیں۔

دنیا بھر میں کوئی ایسا بزرگ نہیں اور نہ گزرا اور نہ آئندہ ہوگا کہ جس کی کل باتوں کا ماننا امت محمدیہ ﷺ پر فرض واجب ہو سوائے حبیب خدا احمد مجتبیٰ محمد ﷺ کے صرف آپ ہی کی ذات ایسی ہے جن کی اتباع کر کے ہم نجات حاصل کر سکتے ہیں۔کوئی ایسا نہیں جس سے احکام شرعی میں غلطی اور خطا  نہ ہوتی ہو۔سوائے پیغمبر ﷺ کے ۔ہم آپ ﷺ کی جائے پیدائش مکہ مکرمہ اور آپ کی جائے ہجرت مدینہ منورہ کو حرم جانتے ہیں۔ہم آپ1 صلی الله علیہ وسلم کے روضہ مبارک کی زیارت کو مسنون اور کارثواب جانتے ہیں۔ہم خلافت کو آپ کے خاندان قریش میں مخٹص مانتے ہیں۔قیامت تک سوائے ان کے کوئی خلیفہ نہ ہوگا۔آپ کی تمام امت میں سب سے زیادہ بزرگ اور خلیفہ بلا فصل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ہیں۔

آپ کے بعد خلیفہ ثانی  حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ہیں۔ آپ کے  بعد خلیفہ ثالت حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  زوالنورین ہیں۔آپ کے بعد خلیفہ چہارم حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ہیں۔امام مہدی علیہ السلام کی امامت برحق ہے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں۔ وہ اب تک زندہ ہیں۔اور قیامت کے قریب آسمان سے نازل ہوں گے دجال کو قتل کریں گے وغیرہ۔(محمد ہاشم محمدی ٹانڈوی  14 زی قعدہ 21 ہجری)

1۔سفر مدینہ مسجد نبوی ﷺ (روضة من ریاض الجنة) میں نماز ادا کرنے کی نیت سے ہوناچاہیے۔پھر روضہ رسولﷺ مطہرہ پر الصلواۃ السلام پڑھنا عین کارسعادت ہے۔(راز) ۔اسلام  حالت غریبی میں شروع ہوا اور آخر زمانہ میں پھر حالت غریبی میں ہوجائے گا۔ زہے نصیب اور  فریب مسلمانوں کے جو ایسے وقت میں اصلاح مفاسد کا کام کریں۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 86-89

محدث فتویٰ

تبصرے