سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(21) اللہ کے نام کی منت ماننے کا حکم

  • 5763
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1771

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا کوئی موحد شخص صرف اللہ تعالیٰ کے نام کی منت مانگ سکتا ہے؟ یعنی وہ کہے کہ اگر میرا فلاں کام ہو جائے تو میں اتنے روزے رکھوں گا یا اتنے نوافل پڑھوں گا۔ اور کیا ایسے ضرورت کا کام ہو جاتا ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جی ہاں اللہ کے نام کی منت ماننا جائز ہے ،اگر کوئی اللہ کے نام کی منت مان لیتا ہے تو پھر اسے پورا کرنا لازم ہے۔اگر پورا نہیں کرتا تو کفارہ ادا کرنا پڑے گا۔علماء كرام اسے نذر كا نام ديتے ہيں، اور وہ يہ كہ نذر كو كسى معين چيز كے حصول پر معلق كيا جائے، اور اس كا حكم يہ ہے كہ جب بھى نذر مانى گئى چيزاطاعت والا فعل ہو تو اس كے حصول كى صورت ميں نذر پورى كرنا واجب اور ضرورى ہے.

كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے اللہ تعالى كى اطاعت كى نذر مانى تو وہ اس كى اطاعت كرے، اور جس نے اللہ تعالى كى معصيت كى نذر مانى تو وہ اس كى معصيت و نافرمانى نہ كرے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6318 ).

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى نيكى اوراطاعت كى نذر كے بارہ ميں كہتے ہيں:

( يہ تين قسم كى ہے:

پہلى قسم:

كسى نعمت كے حصول يا پھر كسى مشكل اور تكليف كے دور ہونے كے بدلے ميں اطاعت و فرمانبردارى كى نذر ماننا: مثلا كوئى يہ كہے: اگر اللہ تعالى نے مجھے شفا دى تو ميرے ذمہ ايک ماہ كے روزے، تو جس چيز كى شرع ميں اصلا وجوب كى دليل ملتى ہو اس ميں اطاعت كرنا لازم ہو گى مثلا روزے، نماز، صدقہ، اور حج، اہل علم كا اجماع ہے كہ اس نذر كو پورا كرنا لازمى ہے .... )

ديكھيں: المغنى لابن قدامہ المقدسى ( 13 / 622 ).

اور يہ جاننا ضرورى ہے كہ نذر اصلا مكروہ ہے كيونكہ بخارى اور مسلم نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نذر ماننے سے منع كيا اور فرمايا:

" يہ كسى چيز كو دور نہيں كرتى بلكہ يہ تو بخيل سے نكالنے كا ايک بہانہ ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6608 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1639 )

مازرى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

احتمال ہے كہ نہى كا سبب يہ ہو كہ نذر اس كے ليے لازم ہو جاتى ہے، تو وہ اسے بغير چستى كے تكلف كے ساتھ پورا كرتا ہے، اور يہ بھى احتمال ہے كہ اس نہى كا سبب يہ ہو كہ نذر كى بنا پر وہ اس عمل كو اس مطلوبہ عمل كے معاوضہ كے طور پر سرانجام ديتا ہے، تو اس بنا پر اس كا اجر كم ہو جاتا ہے.

اور عبادت كى شان تو يہ ہے كہ وہ تو محض اللہ تعالى كے ليے ہوتى ہے قاضى عياض رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: اور احتمال ہے كہ نذر كى نہى اس وجہ سے ہو كہ بعض جاہل قسم كے لوگ يہ خيال كرتے ہيں كہ نذر تقدير كو پلٹ ديتى ہے، اور مقدر ميں لكھى ہوئى چيز كو روک ديتى ہے، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس خوف سے منع كر ديا كہ كہيں جاہل اس كا اعتقاد نہ ركھ لے، اور حديث كا سياق بھى اس كى تائيد كرتا ہے. واللہ تعالى اعلم. اھـ

ماخوذ از: شرح مسلم للنووى .

لہذا مومن كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى منع كردہ اشياء سے اجتناب كرنا چاہيے، اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى كرنا چاہتا ہے وہ بغير كسى نذر كے ہى اطاعت و فرمانبردارى كرے.

ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ

جلد 01

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ