سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(15) بلا وجہ طلاق دینے کا حکم

  • 5757
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1363

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علماء کرام قرآن وسنت کی روشنی میں

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ طلاق بذات خود ایک ناپسندیدہ عمل ہے لیکن بحالت مجبوری ، بوقت ضرورت اسے جائزرکھا ہے۔

اس ناپسنددیدگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ طلاق آخری حربہ ہے اس سے قبل جہاں تک اصلاح کا امکان ہو تو اس کی کوشش کرنی چاہئے۔

اسی بنیادی اصول پر میرے تین سوال ہیں۔

لیکن پہلے قصہ مختصر

ایک عورت اپنے شوہر کی وفا شعار بیوی ہے، بڑی نیک، پرہیزگار، متقی، خدمت گذار بیوی ہے، شوہر کی ہر چھوٹی بڑی ضرورت کو احسن انداز میں پورا کرتی ہے، شوہر کو اس سے کوئی شکایت نہیں وہ بھی اعتراف کرتا ہے کہ میری بیوی بڑی وفا شعار اور خدمت گذار ہے۔ میری ضرورتوں کا خیال کرتی ہے، کبھی کوئی جھگڑا یا ناچاقی نہیں ہوئی۔

لیکن دل اور عشق بڑا کمبخت ہے، اس کے شوہر کی نظر کسی دوسری عورت پر پڑتی ہے وہ اس سے شادی کے لئے تیار ہوجاتا ہے، اس کی بیوی کو کوئی اعتراض بھی نہیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنی نیک سیرت وفاشعار بیوی کو طلاق دے دیتا ہے، یا وہ عورت شرط رکھتی ہے اس شرط پر اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے۔

اب میرا سوال ہے۔

1. کیا اس صورت میں طلاق واقع ہوجائے گی؟

2. کیا یہ شخص گنہگار کہلائے گا اس سے مواخذہ ہوگا۔؟

3. ایسی صورت دی گئی طلاق ، طلاق سنی یعنی سنت اور شرعی طریقہ کے مطابق تصور ہوگی یا طلاق بدعی یعنی بدعت تصور ہوگی۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1۔جی ہاں صورت مسؤلہ میں طلاق واقع ہو جائے گی۔

2۔اس نے ایک مکروہ اور ناپسندیدہ فعل کا ارتکاب کیا ہے ،جس پر اسے اللہ سے معافی مانگنی چاہئے۔

3۔اگر اس نے سنی طریقے کے مطابق طلاق دی ہے تو سنی ہو گی ورنہ بدعی ہوگی،فقط بلا عذرطلاق دینے کی وجہ سے وہ طلاق بدعی نہیں بنے گی۔

ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ

جلد 01

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ