السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آج کل دیکھنے میں آیا ہے کہ عامی افراد جو عربی سے پوری واقفیت نہیں رکھتے حدیث کی صحت و ضعف پر بحث کر رہے ہوتے ہیں اور قرآن و حدیث سے مسائل کا استنباط کرکے آپس میں بحث مباحثہ کر رہے ہوتے ہیں ۔ کیا عامی افراد کا یہ عمل ممدوح ہے یا نہیں یا کچھ تفصیل ہے۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!عامی لوگوں کا یہ رویہ غیر ممدوح ہے ،ان کے اس رویے کی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہیے ،عامی لوگوں پر لازم ہے کہ وہ اس طرح کے فنی امور میں اہل علم سے رابطہ کریں۔ اور علم کے بغیر بحث مباحثہ سے پر ہیز کریں۔ شیخ محمد صالح المنجد فرماتے ہیں: ''عامی'' (وہ شخص جو دلائل تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا اور اہل علم کے طریقوں کے مطابق سمجھ نہیں سکتا تو اس )پر تقلید اور اہل علم سے دریافت کرنا فرض ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ﴿فَسْئَلُوْۤا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (سورۃ الانبیاء ٧)، تر جمہ: اگر تم کو معلوم نہ ہو تو علم والوں سے دریافت کرو۔ ھذاما عندی واللہ أعلم بالصوابفتاویٰ ثنائیہجلد 01 |