کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کہتا ہے کہ میت کے واسطے بطریق صدقہ بلا تعیین ایام جو کھانا کھلایا جائے اس میں کچھ ثواب نہیں ہے کیونکہ اس کا حکم حدیث میں نہیں ہے ۔ عمرو کہتا ہے کہ بخاری اور مسلم کی حدیث میں صاف آچکاہےکہ صدقۃ سےالبتہ میت کو ثواب ہے ۔ افلھا[1] اجران تصدقت عنہ قال نعم اور کھانے کا صدقہ کی قسم سے ہونا احادیث سے ظاہر ہے۔ انس ؓ سے روایت ہے ۔ قال[2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم افضل الصدقۃ انتشبع کبدا جائعا رواہ البیہقی (مشکوٰۃ شریف) اور جلال الدین سیوطی نے شرح الصدور میں بروایت طبرانی اس طرح ذکر کیا ہے ۔ افلھا[3] اجران تصدقت عنہا قال نعم ولو بکراع شاۃ محرق پس سوال یہ ہے کہ عمرو کا یہ قول کہ جوکھانا کہ بلاتعیین ایام بطریق صدقۃ کھلایا جاتا ہے اس میں میت کو ثواب ہے حق ہے یا زید کا یہ قول کہ اس میں ثواب نہیں ہے حق ہے۔ بینوا توجروا۔
[1] اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اس کو کوئی ثواب پہنچے گا۔ آپ ﷺنے فرمایا ہاں۔
[2] رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بہترین صدقہ یہ ہے کہ تو کسی بھوکے آدمی کو کھانا کھلا دے۔
[3] اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اس کو اجرملے گا؟ آپ نےفرمایا: ہاں۔ اگرچہ بکری کی جلی ہوئی کھری ہی کیوں نہ ہو۔
عمرو کا قول حق ہے۔ بےشک میت کے واسطے جو کھانا بلاتعیین ایام و بلا آمیزش کسی بدعت کےبطور صدقہ کے فقرا و مساکین کو کھلایا جائے تو اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے کیونکہ میت کی طرف سے صدقہ کرنے کاثواب میت کوبلا شبہ پہنچتا ہے اور میت کے واسطے فقرا و مساکین کو کھاناکھلانا بھی میت کی طرف سے صدقہ کرنا ہے لہٰذا اس کا بھی ثواب میت کو پہنچے گا ۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب ۔ حررہ العبد العاجز عین الدین عفی عنہ۔ (سید محمد نذیر حسین)