مردہ کے واسطے ختم قرآن پڑھ کر بخشنا جائز ہے یا نہیں ؟
اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے کہ قراء ت قرآن کا ثواب مردہ کو پہنچتا ہے یا نہیں علماء حنفیہ کے نزدیک اور امام احمد بن حنبل کے نسدیک اور بعض اصحاب شافعی کے نزدیک پہنچتا ہے اور اکثر علماء شافعیہ کے نزدیک نہیں پہنچتا اور امام شافعی کا مشہور مذہب یہی ہےکہ نہیں پہنچتا۔ پس جن لوگوں کے نزدیک پہنچتا ہے ان کے نزدیک مردہ کے واسطے ختم قرآن پڑھ کر بخشنا جائز ہے اور جن کے نزدیک نہیں پہنچتا ہے ان کے نزدیک نہیں جائز ہے۔ شرح کنز میں ہے:
(ترجمہ عربی عبارت) ’’ انسان کو حق پہنچتا ہے کہ اپنے کسی عمل کا ثواب کسی اور آدمی کو بخشے نماز ہو یا روزہ ، حج ہو یا صدقہ یا قرآن مجید کی تلاوت یا کوئی اور عمل نیک اور اس کا ثواب اہل سنت کے نزدیک میت کو پہنچتا ہے۔
امام شافعی کے نزدیک قرآن کی تلاوت کا ثواب نہیں پہنچتا البتہ بعض شوافع تلاوت اور دوسرے نیک اعمال کے ثواب پہنچنے کے قائل ہیں۔
امام احمد بن حنبل اور علماء کی ایک جماعت اور بعض شوافع کے نزدیک تلاوت اور دوسرے نیک اعمال کے ثواب پہنچنے کے قائل ہیں۔‘‘
حررہ علی محمد عفی عنہ (سید محمد نذیر حسین)
متأخرین علمائے اہل حدیث سے علامہ محمد بن اسماعیل امیر نے سبل السلام میں مسلک حنفیہ کو ارجح ولیلاً بتایا ہے یعنی یہ کہا ہے کہ قراءت قرآن اور تمام عبادات بدنیہ کا ثواب میت کو پہنچنا از روئے دلیل کے زیادہ قوی ہے اور علامہ شوکانی نے بھی نیل الاوطار میں اسی کو حق کہا ہے مگر اولاد کے ساتھ خاص کیا ہے یعنی یہ کہا ہے کہ اولاد اپنے والدین کے لیے قراءت قرآن یاجس عبادت بدنی کا ثواب پہنچاناچاہے تو جائز ہے کیونکہ اولاد کاتمام عمل خیرمالی ہوخواہ بدنی اور بدنی میں قراءت قرآن ہو یانماز یاروزہ یاکچھ اور سب والدین کو پہنچتاہے۔ ان دونوں علامہ کی عبارتوں کو مع ترجمہ یہاں نقل کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
سبل السلام بلوغ المرام جلد اوّل صفحہ 206 میں ہے: ان ھذہ الادعیۃ و نحوھا نافعۃ للمیت بلاخلاف واماغیرھا من قراءۃ القرآن لہ فالشافعی یقول لا یصل ذلک الیہ وذھب احمد و جماعۃ من العلماء الی وصول ذلک الیہ و ذھب جماعۃ من اھل السنۃ والحنفیۃ الی ان للانسان ان یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلوۃ کاناوصوما اوحجا او صدقۃ او قراءۃ قرآن او ذکر ا و ای نوع من انواع القرب وھذا ھو القول الارجح و لیلا وقد اخرج الدارقطنی ان رجلا سئال النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کیف یبرابویہ بعد موتھا ناجابہ بانہ یصلی لھما مع صلوۃ و یصوم لھما مع صیامہ واخرج ابوداؤد من حدیث معقل بن یسار عنہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اقرء وا علی موتاکم سورۃ یسٰین وھو شامل المیت بل ھوالحقیقۃ فیہ واخرج الشیخان انہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان یضحی عن نفسہ بکبش وعن امتہ یکش وفیہ اشارۃ الی ان الانسان ینفعہ عمل غیرہ وقد بسطنا الکلام فی حواشی ضوء النھار بما ینفح منہ قوۃ ھذا لمذھب انتہی۔ یعنی یہ زیارت قبر کی دعائیں اور مثل ان کے اور دعائیں میت کو نافع ہیں بلااختلاف اور میت کے لیے قرآن پرھنا سو امام شافعی کہتے ہیں کہ اس کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا ہے اور امام احمد اور علماء کی ایک جماعت کا یہ مذہب ہے کہ قرآن پڑھنے کا ثواب میت کو پہنچتا ہے اور علمائے اہل سنت سے ایک جماعت کا اور حنفیہ کا یہ مذہب ہے کہ انسان کو جائز ہے کہ اپنے عمل کا ثواب غیر کو بخشے خواہ نماز ہو یا روزہ یاصدقہ یا قراءت قرآن یا کوئی ذکر یا کسی قسم کی کوئی اور عبادت اور یہی قول دلیل کی رو سے زیادہ راجح ہے اور دارقطنی نےروایت کیا ہے کہ ایک مرد نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ ان کے مرنے کے بعد کیونکر نیکی و احسان کرے آپ ﷺنے فرمایا اپنی نماز کے ساتھ ان دونوں کے لیے نماز پڑھے اور اپنے روزہ کے ساتھ ان دونوں کے لیے روزہ رکھے اور ابوداؤد میں معقل ابن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنے مردوں پرسورۃ یٰسین پڑھو اور یہ حکم میت کو بھی شامل ہے بلکہ حقیقۃ میت ہی کے لیے ہے اور صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ہے کہ رسول الہ ﷺ ایک بھیڑ اپنی طرف سے قربانی کرتے تھے اور ایک اپنی اُمت کی طرف سے اور اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آدمی کو غیر کا عمل نفع دیتا ہے اور ہم نے حواشی ضوء النہار میں اس مسئلہ پر مبسوط کلام کیا ہے جس سےواضح ہوتاہے کہ یہی مذہب قوی ہے۔ نیل الاوطار میں ہے صفحہ 335 جلد 3۔
’’حاصل اور خلاصہ ترجمہ اس عبارت کا بقدر ضرورت یہ ہے کہ حق یہ کہ کہ آیۃ وان لیس للانسان الا ما سعی اپنے عموم پر نہیں ہے اوراس کے عموم سے اولاد کا صدقہ خارج ہے یعنی اولاد اپنےمرے ہوئے والدین کے لیے جو صدقہ کرے اس کا ثواب والدین کو پہنچتا ہے اور اولاد اور غیراولاد کا حج بھی خارج ہے اس واسطے کہ خثعمیہ کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اولاد جو اپنے والدین کے لیے حج کرے اس کا ثواب والدین کو پہنچتا ہے اور شبرمۃ کے بھائی کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حج کا ثواب میت کو غیر اولاد کی طرف سے بھی پہنچتا ہے اور اولاد جو اپنے والدین کے لیے غلام آزاد کرے تو اس کا بھی ثواب والدین کو پہنچتا ہے ۔جیسا کہ بخاری میں سعد کی دیث سے ثابت ہے اور اولاد جو اپنے والدین کے لیےنماز پڑھے یا روزہ رکھے سو اس کابھی ثواب والدین کو پہنچتا ہے اس واسطے کہ دارقطنی میں ہے کہ ایکمرد نے کہا یارسول اللہﷺ میرے ماں باپ تھے ان کی زندگی میں ان کے ساتھ نیکی و احسان کرتا تھا پس ان کےمرنے کے بعد ان کےساتھ کیونکر نیکی کروں آپ نے فرمایا نیکی کے بعد نیکی یہ ہے کہ اپنی نماز کے ساتھ اپنے والدین کے لیے بھی نماز پڑھ اور اپنے روزہ کے ساتھ اپنے والدین کے لیےبھی روزہ رکھ اور صحیحین میں ابن عباس کی حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے کہا یارسول اللہ میری ماںمرگئی اور اس کےذمہ نذر کے روزے تھے آپ نے فرمایا بتا اگر تیری ماں کے ذمہ قرض ہوتا اور اس کی طرف سے تو ادا کرتی تو ادا ہوجاتا یا نہیں اس نے کہا ہاں ادا ہوجاتا آپ نے فرمایا روزہ رکھ اپنی ماں کی طرف سے اور صحیح مسلم وغیرہ میں ہے کہ ایک عورت نے کہا کہ میری ماں کے ذمہ ایک مہینہ کے روزے ہیں تو کیا میں اس کی طرف سے روزہ رکھوں آپ نے فرمایا اپنی ماں کی طرف سے روزہ رکھ اورغیر اولاد کے روزہ کا بھی ثواب میت کو پہنچتا ہے ۔ اس واسطے کہ حدیث متفق علیہ میں آیا ہے کہ جوشخص مرجائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے اور سورہ یسٰین کا ثواب بھی میت کو پہنچتا ہے اولاد کی طرف سے بھی اور غیر اولاد کی طرف سے بھی اس واسطے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے اپنے مردوں پرسورہ یسٰین پڑھو اور دعا کا نفع بھی میت کو پہنچتا ہے اولاد دعا کرے یاکوئی اور۔ اور جو جو کارخیر اولاد اپنے والدین کےلیےکرے سب کا ثواب والدین کو پہنچتا ہے اس واسطے کہ حدیث میں آیا ہے کہ انسان کی اولاد اس کی سعی سے ہے ۔ ‘‘
جب علامہ شوکانی اور محمد بن اسماعیل امیر کی تحقیق ایصال ثواب قراءت قرآن و عبادات بدنیہ کے متعلق سن چکے تو اب آخر میں علامہ ابن النحوی کی تحقیق بھی سن لینا خالی از فائدہ نہیں آپ شرح المنہاج میں فرماتے ہیں: لا یصل عندناثواب القراءۃ علی المشہور والمختار الوصول اذا سئال اللہ ایصال ثواب قراء ت و ینبغی الجزم بہ لانہ دعاء فاذاجاز الدعاء للمیت بما لیس للداعی فلان یجوز بما ھولہ اولی و یبقی الامر فیہ موقوفا علی استجابۃ الدعاء وھذا المعنی لا یختص بالقراء ۃ بل یجری فی سائر الاعمال والظاھران الدعاء متفق علیہ او ینفع المیت والحی القریب والبعید بوصیۃ وغیرھا وعلی ذلک احادیث کثیرۃ بل کان افضل ان یدعو لا خیہ بظھر الغیب انتہی۔ ذکرہ فی نیل الاوطار۔ یعنی ہمارے نزدیک مشہور قول پر قراء ت قرآن کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا ہے اور مختاریہ ہے کہ پہنچتا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ سے قراء ت قرآن کے ثواب پہنچنے کا سوال کرے (یعنی قرآن پڑھ کر دعا کرے اور یہ سوال کرے کہ یا اللہ اس قراء ت کاثواب فلان میت کو تو پہنچا دے )اور دعا کے قبول ہونے پرامر موقوف رہے گا (یعنی اگر دعا اس کی قبول ہوئی تو قراء ت کا ثواب میت کو پہنچے گا اور اگر دعا قبول نہ ہوئی تو نہیں پہنچے گا) اور اس طرح پر قراء ت کے ثواب پہنچنے کا جزم کرنا لائق ہے اس واسطے کہ یہ دعا ہے پس جب کہ میت کے لیے ایسی چیز کادعا کرنا جائز ہے جو داعی کے اختیار میں نہیں ہے تو اس کے لیے ایسی چیز کی دعا کرنا بدرجہ اولے جائز ہوگا اور داعی کے اختیار میں ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ دعا کانفع میت کوبالاتفاق پہنچتا ہے اور زندہ کو بھی پہنچتا ہے نزدیک ہو خواہ دور ہو اور اس بارےمیں بہت سی حدیثیں آئی ہیں بلکہ افضل یہ ہے کہ آدمی اپنے بھائی کے لیے غائبانہ دعا کرے۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔کتبہ محمد عبدالرحمٰن المبارکفوری عفاء اللہ عنہ۔