قبر پر کسی کے قرآن شریف ختم کرنا کیسا ہے۔بینواتوجروا
تلاوت قرآن مجید فی نفسہ عبادت ہے اور قبور محل عبادت نہیں ہے تو تلاوت و ختم قرآن قبر پر یعنی حول قبر بیٹھ کر مکروہ و بدعت ہوگا بدلیل اس حدیث کے بنا پر اس کے ادائے نماز قبرستان میں مکروہ تحریمی یا حرام ،عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال اجعلوا فی بیوتکم من صلوتکم ولا تتخذواھا قبورا ان القبور لیست بمحل للعبادۃ فیکون الصلوۃ فیھا مکروھۃ۔ اور زمانہ قرون ثلاثہ میں ختم قرآن شریف کا مقابر میں منقول و ماثور نہیں ہوا لہٰذا صاحب قاموس سفر السعادت میں لکھتا ہے عادت نبود کہ برائے میت در غیر وقت نماز جمع شوند و قرآن خوانند و ختمات خوانند نہ برسر گور نہ غیر آن این مجموع بدعت است انتہی کلامہ و شیخ عبدالحق محدث دہلوی مدارج النبوۃ میں لکھتے ہیں : وعادت نبود کہ برائے میت جمع شوند و قرآن خوانند و ختمات خوانند نہ برسر گور نہ غیر آن ایں مجموع بدعت است و شیخ علی متقی استاد شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے رسالہ رد بدعات میں لکھا ہے : اول الاجتماع للقراء ۃ بالقرآن علی المیت بالتخصیص فی المقبرۃ والمسجد او البیت بدعۃ مذمومۃ انتہی کما فی نصاب الاحتساب فی الجملۃ قرآن شریف قبر پربیٹھ کر ختم کرنا اور پڑھنا قرون ثلثہ میں نہیں پایا گیا۔ خیر القرون قرنی ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم انتہی ما فی الصحاح مختصراً وما علینا الاالبلاغ۔ (سید محمد نذیر حسین)