کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص نے بہ نیت ایصال ثواب موتے کے پچاس مساکین کے لیے کھانا تیار کیا اور اس کے ساتھ پچاس اغنیاء کو بھی کھانا کھلوانے کے لیےایک ہی دیگ میں ملا کر کھانا پکایا ۔ پس اس طعام مخلوط میں سے اغنیاء کھا سکتے ہیں یا نہیں اگر نہیں کھا سکتے تو اس پر کون سی دلیل شرعی مانع ہے اور اگر جواز ہے تو اس کی رخصت پر کیا دلیل ہے۔ بینوا توجروا
صدقہ با خلط غیر صدقہ کے ساتھ جائز تو ہے لیکن یہ غور کرنا چاہیے کہ وہ اغنیاء کو کس نیت سے شامل کرتا ہے اگر ریا و ناموری کی نیت سے ہے تو حرام ہے۔ لقولہ[1] علیہ السلام المتباریان لا یجابان ولا یوکل طعامھما وان یسیر الریا لشرک وغیر ذلک من الآیات والاحادیث الدالۃ علی ذم الریاء والخیلاء۔ اور اگر دعوت دوستانہ کی نیت سے ہے و بطور ہدیہ اغنیاء کو کھلاتا ہے تو محل اس کانہیں ہے ۔ شریعت میں تعزیت موت پر دعوت کرنا نہیں آیا اس کا محل نکاح ہے۔ چنانچہ فتح القدیر میں ابن ہمام نے ذکر کیا ہے کہ یہ دعوت جائز نہیں ہے۔ لانہا[2] شرعت فی السرور لا فی الشرور اور جب کہ دعوت میں ان نیتوں فاسدہ سے غیر خدا کے تقرب کی بھی نیت ہے تو وہ ساری دعوت نامقبول ہے اور خدا کی طرف سے مردود۔ قال[3] اللہ تعالیٰ فی الحدیث القدسی انا اغنی الشرکاء عن الشرک من عمل عملا اشرک فیہ ترکتہ و شرکہ وانا منہ بری ہاںسوائے تقرب ایصال ثواب ہونے کے اگر کوئی ایسا کھانا پکائے جس میں کس قدر صدقہ کی نیت سے ہے اور کسی قدر ہدیہ شرعیہ کی نیت سے بدوں فساد نیت و بلا دخل بدعت تو اس کے جواز میں کچھ کلام نہیں لیکن اس میں تحری بکار ہے کہ جس قدر صدقۃ اللہ کی نیت سے ہے اس قدر صدقہ اپنے ذمہ پر رہ نہ جائے۔ اللہ تعالیٰ اخلاط مال یتیم کے باب میں جس کا کھانا بلا وجہ حرام ہے۔ فرماتا ہے: قل[4] اصلاح لھم خیرا وان تخالطوھم فاخوانکم فی الدین واللہ یعلم المفسد من المصلح ولو شاء اللہ لا عنتکم ان اللہ عزیز حکیم۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جس مال کا کھانا اپنے لیے درست ہے اس لیے کہ وہ حق غیر کا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا یا ندہ کا تو اس کا خلط اپنے ماں سے درست ہے بشرطیکہ اس میں اصلاح بکار لائی جائے اللہ کے حق کو اپنے حق میں نہ لیا جائے ۔ فقط حررہ ابوسعید محمد حسین عفی عنہ۔
(سیدمحمدنذیر حسین)
[1] فخر سےدعوت کرنے والوں کی دعوت قبول نہ کی جائے نہ ان کا کھانا کھایا جائے کیونکہ یہ شرک اصغر ہے۔
[2] کیونکہ دعوت خوشی میں ہوتی ہے غمی میں نہیں ہوتی۔
[3] حدیث قدسی میں ہے کہ میں شرکاء میں سے سب سے زیادہ نے نیاز ہوں اگر کوئی ایسا عمل کرے جس میں میرے سوا کسی اور کو بھی شریک کرے تو میں اس سے دست بردار ہوجاتا ہوں۔
[4] کہہ ان کے لیے درستی بہتر ہے اگر تم ان کو اپنے ساتھ ملا لوتو وہ تمہارے دین کے بھائی ہیں اور اللہ تعالیٰ فسادی اور مصلح میں خوب امتیاز کرسکتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو تم کو مشقت میں ڈال دیتے اور اللہ تعالیٰ غالب حکمت والے ہیں۔