سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(224) سوم و چہلم وغیرہ پر رشتےداروں کے کھانے کا حکم

  • 5731
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 1047

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتےہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جو طعام بوقت ہوجانے موت کسی آدمی کے بنام نہاد حاضری سوم و چہلم وغیرہ حسب برواج ہرقوم پکوا کر خواہ بطریق دعوت خواہ بطریق بھاجی گھر بہ گھر تقسیم ہوتا ہے اور قدرے غربا باقی تمام اہل برادری کو کھلایا جاتاہے اور اس میں اکثر مالدار ہوتے ہیں اور یہ کھانا و ارثان میت حسب رواج اپنی قوم کے اکراہا ًو بلا اکراہ کرتے ہیں اور بعض اوقات بخوف طعنہ زنی قرض دام کرکے خواہ مال فروخت کرکے پکواتےہیں بلکہ  بعض اوقات یتیم کے مال کا بھی خیال نہیں  کرتے ایسا کرنا جائز ہے یا ناجائز اور اس کا کھانا کیسا ہے اور ازروئے شریعت اسلامی اور زمانہ سلف سے ثواب رسانی موت کو کس طریق سے ثابت ہے اور کیونکر کرنا چاہیے اور ایسا کرنے والاجو اوپر طریق مروج ہے مسرف کہلائے گا یا نہیں ۔بینواتوجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو طعام حاضری کا یا سوم یا چہلم میت کا ہے اس میں رواج کسی قوم کامعتبر نہیں  کیونکہ کوئی حدیث نبویﷺ یا روایت فقہی اس باب میں نہیں  پائی جاتی بس یہ بالکل بے اصل ہے اور اس کاضروری اور  لازم جاننا بدعت ہے اور دعوت بھی نادرست ہے کیونکہ دعوت شادی اور خوشی میں مشروع ہے نہ غمی میں اور رسم بھاجی اور شادی دونوں میں بدعت ہے کیونکہ اس میں  بتاری ہے یعنی آپس میں فخر اور ریا و نمود کرنا ہے ایسے طعام سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے ۔مشکوٰۃ شریف صفحہ 220 میں ہے: عن عکرمۃ عن ابن عباس ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نھی عن طعام المتباریین ان یوکل رواہ ابوداؤد و عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم المتباریان لا یجابان ولا یوکل طعامھما قال الامام احمد یعنی المتعارضین بالضیافۃ فخر  اور یاء۔ خلاصہ ان دونوں حدیثوں کا یہ ہے کہ جو لوگ فخر و مباہاۃ اور نام و نمود کے واسطے کھانا کھلائیں اور دعوت کریں تو ایسے لوگوں کا کھانا نہیں  چاہیے اور قرض کرنا  ایسے کام کے لیے کہ جو نہ سنت ہے نہ مستحب ہے نہ مباح ہے ہرگز درست نہیں  قرض کا ادا کرنا واجب ہوجاتا ہے اور یہ کام مباح بھی نہیں  اور مرتکب ایسے افعال کا بلا شبہ مسرف ہے بلکہ مبتدع ہے اور مال یتیم کا ظلم سے کھانا حرام ہے۔  قال اللہ تعالیٰ ان الذین یاکلون اموال الیتیمی ظلما انما یاکلون فی بطونہم نارا وسیصلون سعیرا۔ یعنی بے شک  جو لوگ کھاتے ہیں مال یتیموں کا ظلم سے وہ کھاتے ہیں اپنے شکموں میں آگ کو اور عنقریب داخل ہوں گے دوزخ میں اور ثواب رسانی میں موتے کےطریق سلف کا اور آج تک متبعین سنت کا یہ ہے کہ عبادت مالی  کا ثواب مثلاً کنواں بنا کر یا نقد یا لباس وغیرہ مساکین کو دے کر یا طعام فقراء کو دے کرے  مقرر کرنے کسی دن سوم چہلم کے یا عبادت بدنی کا مثل نفل نماز روزہ تلاوت قرآن مجید و ذکر اللہ و درود وسلام کے ایصال کرکے میت کو پہنچائے۔ واللہ اعلم بالصواب کتبہ الفقیر محمد حسین عفاء اللہ عنہ۔

(فقیر محمد حسین  )         (یقال لہ ابراہیم‎)

جس طور پر امور مروجہ درج  سوال ہیں بے شک ناجائز ہیں ۔ مال یتیم کاکھانا حرام ہے رسومات کی پابندی بدعت ہے ہاں ایصال ثواب میت کو سال حلال سے یاکلمہ سے جائز اور مستحسن ہے ۔ خواہ بطور تعیین یالا علی التعیین مگر وہ  تعیین داخل دین قرار دینا اور امرمستحب پر اصرار بطور لزوم کرنا بیشک بدعت و گمراہی ہے مطلق کو مقید اور مقید کومطلق کرنا شرک فی النبوت ہے۔                (کرامت اللہ)

ہوالموفق:

بوقت  ہوجانے موت کے طعام پکوا کر کھلانا یا گھر بہ گھر تقسیم کرنا جس طور پر کہ سوال میں مذکور ہے بلاشبہ حرام و ناجائز ہے اور ایسے طعام کا کھانا ممنوع ہے اور ایسا کرنے والا بلا شک مسرف ہے۔منتقے الاخبار میں ہے: عن  جریر بن عبداللہ البجلی قال کنا نعد الاجتماع الی اھل المیت و صنعۃ الطعام بعد دفنہ من النیاحۃ رواہ احمد، نیل الاوطار صفحہ 340 جلد3 میں ہے : حدیث جریر اخرجہ ایضا ابن ماجہ و اسنادہ صحیح و نیز اس میں ہے یعنی انھم کانوا یعدون الاجتماع عند اھل المیت بعد دفنہ واکل لطعام عند ھم نوعا من النیاحۃ لما فی ذلک من التثقیل علیہم و شغلتھم مع ماھم فیہ من  شغلۃ الخاطر بموت المیت وما فیہ من مخالفۃ السنۃ لانھم مامور  وان بان یصنعوا لاھل المیت طعاما فخالفوا ژلک وکلفوھم صنعۃ الطعام لغیرھم انتہی۔ ایسےطعام کے کھانے کھلانے کی حرمت و ممانعت کتب فقہ حنفی میں بھی مصرح ہے ۔ فتح القدیر وغیرہ میں ہے۔ اتخاذ الطعام من اھل المیت بدعۃ مستقبحۃ لانہ شرع فی السرور لا فی الشرور انتہی۔ اور دعا کانفع ہوتے کو باتفاق علمائے سلف و خلف پہنچتا ہے اور عبادات  مالیہ کابھی ثواب موتی کو بالاتفاق پہنچتا ہے اور عبادات بدنیہ کے ثواب پہنچنے میں اختلاف ہے۔ بعض علماء کے نزدیک پہنچتا ہے اور بعض کے نزدیک نہیں  پہنچتا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔ کتبہ محمد عبدالرحمٰن المبارکفوری عفاء اللہ عنہ۔        (سید محمد نذیر حسین)


فتاوی نذیریہ

جلد 01 ص 692

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ