سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(222) دو تین روز تک مردہ کو دفن نہ کرنا

  • 5729
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 918

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں  علمائے دین کہ بعض لوگ  جب تک اچھی طرح کھانا تیارنہ ہوجائے مردہ کو دفن نہیں  کرتے اگر اسی طرح دو تین روز تک مردہ کو دفن نہ کیاجائے اور وہ پھول جائے یا نہ بھی پھولے تو ایسے آدمی کا جنازہ پڑھنا چاہیے یانہیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میت کو دفن کرنے میں بڑی جلدی کرنی چاہیے۔ حدیث میں ہے کہ طلحہ بن براء بیمارتھے ۔نبی ﷺ بیمار پرسی کے لیے تشریف لائے آپ نے فرمایا ۔میرےخیال میں ان پر اب موت  آیا ہی چاہتی ہے جب موت ہوجائے تو مجھ کو اطلاع دینا اور جلدی کرنا یہ درست نہیں  کہ مسلمان کی لاش گھر والوں کےسامنے پڑی رہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سےکوئی آدمی فوت ہوجائے اس کو روک نہ رکھنا چاہیے اس کو قبر کی جلد از جلد تیاری کرنی چاہیے‘‘ ان دونوں حدیثوں سے ثابت ہوا کہ میت کو  جلد از جلد دفن کرنا چاہیے اور روکنانہ چاہیے اور کھانا پکانے کے لیے میت کو روک رکھنا ایک عجیب سی بات ہے اور یہ طریقہ خلاف حدیث ہے ۔ قرون ثلاثہ میں اس کانام و شان نہیں ملتا۔ مجتہدین اس کے برخلاف ہیں اور مطابق حدیث  من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھورد یہ کام مردود ہے اور یہ جاہل اماموں کی اختراع ہے جو حرام طریقہ سے لوگوں کےمال کھاتے ہیں۔ نعوذ باللہ من بذہ الخرافات۔                                    (سید محمد نذیر حسین 1281)

مسئلہ :

واضح ہو کہ ڈھیلے مٹی پر سورہ اخلاص وغیرہ پڑھ کر قبر میں رکھنا قول فعل آنحضرتﷺ و صحابہ کرام سے ثابت نہیں  و نیز قول  وفعل تابعین و تبع تابعین و طبقات ہفتگانہ فقہاء حنفیہ وغیرہ سے بھی کتب معتبرہ معتمدہ میں ثابت نہیں  غرض اس کی کچھ سند نہیں  ہے اور جو کسی نے بلا سند کسی کتاب غیر معتبر  میں لکھا ہو اس کا ہرگز اعتبار نہیں  کیونکہ کتب اصول فقہ اور حدیث میں مقرر ہوچکا ہے کہ حدیث بلا سند حجت نہیں  اور اسی طرح سے جواب نامہ کی کچھ اصل نہیں  پائی جاتی۔ شرع شریف میں : وقد[1] افتی ابن الصلاح بانہ لا یجوز ان[2] یکتب علی الکفن یسٰ والکہف و نحوھا خوفا من صدید المیت کذا فی ردالمختار  حاشیہ الدر المختار۔ اور اسی جمع ہوکر تیسرےدن قرآن مجید پڑھنا جیسا کہ معمول ہورہا ہے یا چنوں پر کلمہ پڑھنا بھی قرون ثلثہ اور ائمہ اربعہ اور محدثین اور دیگر فقہاء رحمہم اللہ تعالیٰ سے منقول نہیں ۔ اور اسی طرح سوم اور دسواں ،بیسواں، چہلم و چھ ماہی ،برسیوغیرہ رسمیں بھی کہیں سے ثابت نہیں  بلکہ یہ رسمیں ہنود اور کفار کی ہیں  اجتناب اور حذر ان امور مذکورہ سےواجب ہے اور ان رسموں میں صریح تشبہ ساتھ کفار کے پایا جاتا ہے اور فرمایا آنحضرتﷺ نے من[3] تشبہ بقومہ فھو منہم کذا فی المشکوٰۃ و بلوغ المرام۔ ان امور کو فتاویٰ جامع الروایات اور شرح مہذب نودی اور فتاویٰ قرطبی اور نصاب الاحتساب اور رسالہ علامہ حسام الدین عبدالوھاب متقی وغیرہ میں بدعت شنیعہ اور کراہت شدیدہ لکھا ہے اور اسی طرح متملی و صغیری شرح منیۃ المصلی و فتاویٰ بزازی وغیرہ میں بھی صراحۃً بدعت اور کراہت ان امور مذکورہ کو لکھا ہے اور طعام پرفاتحہ وغیرہ پڑھنا بھی تشبہ ساتھ ہنود کے ہے کیونکہ مسلمان جاہل فاتحہ کہتے ہیں اور ہنود کے برہمن اشلوک کہتے ہیں یہ واہیات رسمیں کفار سے مسلمان جاہلوں نے اخذ کی ہیں یہ امور مذکورہ آنحضرتﷺ اور صحابہ و تابعین و مجتہدین اور محدثین متقدمین اور متاخرین سے ہرگز ثابت نہیں  اور نہ ان امو رمذکورہ کاتعامل اور رواج قرون ثلثہ وغیرہ میں پایاگیا ۔

(ترجمہ)’’یہ تیسرے دن کا اجتماع جو خصوصاً منعقد ہوتا ہے یہ نہ فرض ہے ،نہ واجب ، نہ سنت، نہ مستحب ، نہ اس میں کوئی فائدہ ہے ، نہ کوئی دینی مصلحت ہے بلکہ اس میں ایک طرح کاسلف صالحین  پر الزام ہے کہ ان کویہ مفید باتیں معلوم نہ ہوسکیں بلکہ نبی ﷺ پربھی کہ انہوں نے میت کےحقوق چھوڑ دیئے بلکہ یہ الزام تو اللہ تعالیٰ پربھی آئے گا کہ اس نے شریعت کو مکمل نہ کیا اور ایسے ہی کہہ دیا ’’کہ میں نے آج تمہارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمتیں تم کو پوری طرح  دے دیں اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا۔ علامہ حسام الدین المعروف متقی کے رسالہ میں بھی ایسا ہی ہے۔ اور بزازیہ میں ہے کہ پہلے اور تیسرے اور ساتویں روز کھانا تیار کرنا اور اس کو قبر پر لے جانا اور قرآن پڑھنے کے لیےدعوت پکانا اورنیک لوگوں اور قاریوں کو ختم قرآن یاسورہ انعام یااخلاص پڑھنے کے لیےبلانا مکروہ ہے۔ حاصل یہ کہ قرآن پڑھنےکے وقت قاریوں کے لیےکھانا تیارکرنامکروہ ہے اور اگر فقیروں کیلئےکھانا پکایاجائے تو اچھا ہے ۔ امام نووی نے شرح منہاج میں کہاتیسرے ، چھٹے، دسویں اور بیسویں دن کھانا تیار کرناایک بدترین قسم کی بدعت ہے۔‘‘



[1]   ایمانداروں کے لیے نبی ان کی اپنی  جانوں سے بھی زیادہ قریب ہے۔

[2]   جائز نہیں  کہ کفن پر سورہ یسٰین یاکہف یا اور کوئی سورت لکھی جائے کیونکہ میت کی پیپ سے اس کے آلودہ ہونےکا خوف ہے۔

[3]  جو کسی قوم سے مشابہت کرے وہ انہی میں سے ہے۔


فتاوی نذیریہ

جلد 01 ص 686

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ