سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(220) شرع شریف میں بند باندھنے کی صورت اوروقت اور موقع کیا لکھا ہے؟

  • 5727
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 1283

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیافرماتے ہیں علمائے دین  ومفتیان شرح متین مسائل ذیل میں کہ دہلی میں کفن پر تین بند باندھنے اور قبر میں دو بند کھولنے اور کمر کے بند نہ کھولنے کی رسم ہے اور مٹی دیتے وقت آیت منہا خلقنا کم الخ پڑھتے ہیں اور کفن کو کھول کر قبلہ رخ میت کامنہ موڑ دینے کا رواج ہے پس سوال یہ ہے کہ شرع شریف میں بند باندھنے کی صورت اوروقت اور موقع کیا لکھا ہے اور کس چیز سےباندھنے کا حکم ہے اور جبکہ بند باندھنا ضروری نہیں  تو تمام ملک میں اس کارواج لازمی طور رے کیوں ہے۔ بینوا توجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی آیت یا حدیث میں کفن پر بند باندھنے کا کچھ ذکر نہیں  آیا ہے نہ اس کی صورت کا کچھ ذکر آیا ہے اور نہ اس کے وقت اور موقع کا کچھ تذکرہ آیا ہے اور نہ اس کابیان آیا ہے کہ کس چیز سےباندھنا اور کے بند باندھنا چاہیے ہاں فقہاء لکھتے ہیں کہ اگر کفن کے منتشر ہونے اور میت کے کھل جانے کا خوف ہو تو کفن کو دھجی سےباندھ دیں اور قبر میں رکھنے کے بعد کفن کے منتشر ہونے کا خوف نہیں  رہتا اس وجہ سےقبر میں بند کھول دینے کو لکھا ہے۔ ہدایہ میں ہے وان خافوا ان ینتشرالکفن عنہ عقد و بخرقۃ صیانۃ عن الکشف واذا وضع فی لحدہ یحل العقدۃ لوقوع الامن من الانتشار انتھی ملخصاً اور آیہ منہا خلقنا کم الخ کامٹی دیتے وقت پڑھنا نہیں  ہوتا اور میت کو لحد میں قبلہ رخ متوجہ کردینا حدیث سے ثابت ہے ۔ حافظ ابن حجر تخریج ہدایہ میں لکھتے ہیں ۔ واما التوجۃ الی القبلۃ فیہ حدیث ابی ھریرۃ و قتادۃ ان البراء بن معرور لماتونی اوصی ان یوجہ الی القبلۃ فقال النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اصاب صحاح الحاکم۔ حررہ عبدالرحیم عفی عنہ۔ (سید محمد نذیر حسین)

ہوالموفق:

کفن پر بند باندھنے اور اس کو قبر میں کھول دینے کے بارے میں کوئی حدیث مرفوع نظر سے نہیں  گزری ہاں سمرہ بن جندبؓ کا ایک اثر اس بارے میں دیکھنے میں آیا ہے شرح معانی الآثار صفحہ 292 جلد 1 میں عثمان بن حجاش سے روایت ہے کہ سمرہ بن جندبؓ کا ایک لڑکا انتقال کرگیا تو انہوں نے اس کو غسل دیا اور کفنایا پھر اپنے غلام سے کہا کہ اسے دفن کے لیے لے جاؤ اور جب اس کو قبر میں رکھنا تو بسم اللہ  وعلی سنۃ رسول اللہ کہنا پھر اس کے سرکی گرہ اور اس کے پیر کی گرہ کھول دینا والفظہ[1] ھکذا فغسل بین یدیہ و کفن بین یدیہ ثم قال لولاہ انطلق بہ الی حضرتہ فاذا وضعتہ فی لحدہ فقل بسم اللہ وعلی سنۃ رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم ثم اطلق عقد راسہ وعقد رجلیہ۔ اور علمائے حنفیہ و شافعیہ نے لکھا ہے کہ مٹی دیتے وقت آیت منہا خلقنا کم الخ پڑھنا مستحب ہے۔ علامہ شوکانی نیل الاوطار صفحہ 323 جلد 3 میں لکھتے ہیں۔ قولہ[2] من قبل راستہ فیہ دلیل علی ان المشروع ان یحثی علی المیت من جھۃ راسہ و یستحب ان یقول عند ذلک منھا خلقنا کم وفیھا نعیدکم و منھا نخرجکم تارۃ اخری ذکرہ اصحاب الشافعی انتہی اور اسی طرح سبل السلام میں بھی لکھا ہے  اور اس بارے میں ایک ضعیف حدیث آئی ہے ۔مرقاۃ شرح مشکوۃ میں ہے ۔وردی احمد باسناد ضعیف انہ یقول مع الاولی منہا خلقناکم ومع الثانیہ وفیہا نعیدکم ومع الثالثۃ ومنہا نخرجکم تارۃ اخری۔ یعنی رسول اللہ ﷺ پہلی بار مٹی ڈالنے کے وقت منہا خلقنا کم پڑھتے اور دوسری بار میں وفیہا نعیدکم پڑھتے اور تیسری بار  میں ومنہا نخرجکم تارۃ اخری  پڑھتے اور ایک حدیث ضعیف میں میت کو قبر میں رکھنے کےوقت بھی اس آیت کا پڑھنا آیا ہے۔نیل الاوطار صفحہ 321 جلد میں  ہے۔ وعن ابی امامۃ عند الحاکم والبیہقی بلفظ لما وضعت ام کلثوم بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی القبر قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منہا خلقناکم وفیہا نعیدکم ومنہا نخرجکم تارۃاخری و فی سبیل اللہ وعلی ملۃ رسول اللہ الحدیث و سندہ ضعیف انتہی۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔ کتبہ محمد عبدالرحمٰن المبارکفوری عفاء اللہ عنہ



[1]   اس کو غسل اور کفن دیا پھر اپنے غلام کو کہا اس کو قبر میں لے جاکر دفن کردو جب اسے لحد میں رکھو تو کہو اللہ کے نام اور سول اللہ ﷺ کی سنت پر پھر اس کا پاؤں اور سر کا بند کھول دینا۔

[2]   اس میں دلیل یہ ہے کہ میت پر مٹی سر کی جانب سے ڈالنا مستحب ہے اور یہ بھی مستحب ہے کہ اس وقت یہ آیت ’’اسی سے ہم نے  تم کو پیدا کیا اور اسی میں لوٹائیں گے اور اسی سے دوسری مرتبہ نکالیں گے اس کو امام شافعی کے  اصحاب نے ذکر کیا ہے۔


فتاوی نذیریہ

جلد 01 ص 683

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ