سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(217) مردے زندوں کی کلام سن سکتے ہیں یا نہیں ؟

  • 5724
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 2222

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے  ہیں علمائے دین کہ مردے زندوں کی کلام سن سکتے ہیں یا نہیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

روح کو جسم سے الگ ہونے کے بعد قبر میں ایک ایسی زندگی نصیب ہوتی ہے جس سے وہ لذت حاصل کرسکتا ہے یا عذاب محسوس  کرتا ہے۔ امام اعظم نے اس کو فقہ اکبر میں ......؟؟؟؟؟....... نے اس کی شرح میں فرمایا ہے کہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مردے کو قبر میں دُکھ اور لذت کا احساس ہوتا ہے باقی رہا سننے کا معاملہ تو اس پربھی علماء کا اتفاق ہے کہ مردے نہیں  سنتے چنانچہ کتاب الایمان میں اس  کی تصریح ہے اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے جو یہ لکھا ہے کہ ’’اکثر فقہاء سننے کا انکار کرتے ہیں اور کچھ فقہاء اور اکثر مشائخ اس کے قابل ہیں‘‘ یہ دعویٰ محض بلا دلیل ہے اور شیخ صاحب نے اپنے اس دعوے پر ایک بھی دلیل بیان نہیں  فرمائی جو   ان کے دعویٰ کی تصدیق کرتی  اور یہ تو تحقیق سے ثابت ہے کہ علمائے حنفیہ میں سے ایک بھی سماع موتے کا قائل نہیں  ہے ہاں دوسرے لوگوں میں بقدر قلیل کچھ لوگ سماع موتی کی طرف گئے ہیں اور حضرت عائشہؓ نے ان لوگوں کےجواب دے دیئے تھے اور حضرت عمرؓ کی حدیث میں جو یہ لفظ آئے ہیں کہ ما انت باسمع منہم (تو ان سےزیادہ نہیں  سنتا) تو بعض نے ان الفاظ کو حضرت عمر ؓ کے نسیان پر محمول کیا ہے اور بعض نے نبیﷺ کے معجزہ پر ۔ چنانچہ اس کے جواب میں حضر ت عائشہؓ کے استدلال کو پیش کیا ہے چنانچہ مواہب لدنیہ میں اس کی تصریح ہے اور جن احادیث سے  مردے کا سننا ثابت ہوتا ہے وہ جلال الدین سیوطی کے رسائل سےنقل کی گئی ہے اور سیوطی کاماخذ طبقہ رابعہ کی کتابیں ہیں جوعقیدہ کے اثبات کے لیےغیر معتبر ہیں۔ شاہ عبدالعزیز دہلوی نے عجالہ نافعہ میں لکھا ہے کہ سیوطی کی روایات جب تک ثابت نہ ہوجائیں وہ قابل استدلال نہیں  ہیں۔

اب فقہ حنفی اور تفسیر کی کتابوں کادوبارہ سماع موتی اقتباس ملاحظہ فرما ئیں۔  درمختار ردالمختار۔ فتح القدیر۔ جامع صغیر۔ ہدایہ۔ شرح مواقف۔ شرح مقاصد۔ فصول فی علم الاصول۔ نظم الدلائل۔ اصول شاشی۔ تفسیر درمنثور۔ تفسیر نیشاپوری۔ تفسیر جامع البیان۔ تفسیرجلالین۔ تفسیر معالم التنزیل۔ تفسیر موضح القرآن۔ عینی شرح کنز میں لکھا ہے کہ اگر کوئی آدمی قسم اٹھائے کہ میں تجھ سے بات کروں یاتجھ کو کپڑے پہناؤں یاتجھ کو ماروں یا میں تیرے پاس آؤں یا میں تیرا بوسہ لوں تو میری عورت کو  طلاق ہو یامیرا غلام آزاد ہوجائے تو یہ تمام چیزیں زندگی کے ساتھ مفید ہوں گے اگر مرنےکے بعد اس سے کلام کرے یااس کو کفن پہنائے یامرنے کے بعد اس کو مارے یااس کی میت کے پاس جائے تو اس صورت میں نہ اس کی قسم ٹوٹے گی نہ عورت کو طلاق ہوگی نہ اس کاغلام آزاد ہوگا کیونکہ مار یا ادب سکھانے کے لیے ہوتی ہے یا سزا دینے کے لیے اور یہ دونوں چیزیں مردے میں نہیں  ہیں اگر کہاجائے کہ میت کو قبر میں عذاب ہوتا ہے تو اس کاجواب یہ ہے کہ قبر میں رکھے جانے کے بعد ایک طرح کی زندگی اس میں پیدا کی جاتی ہے جس سے وہ  برزخ کے عذاب کو محسوس کرتا ہے اور یہ جو فقہاء کہتے ہیں کہ اگر ایک آدمی مچھلی کے شکار کے لیے کنڈی لگائے اور اس کے مرنے کے بعد مچھلی کنڈی میں اٹک جائے تو اس مچھلی کا وہ مالک ہوگا اگر مردہ کسی چیز کا مالک نہیں  تو پھر اس کامالک کیسے بنے گا اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے وارث اس کےمالک  ہوں گے اور میت کی ملک سمجھ کر ورثاء میں تقسیم ہوجائے گی اور  آنحضرتﷺ نے جو بدر کے کافروں سے خطاب کیا تھا تو وہ من حیث المعنی ثابت نہیں  ہے کیونکہ حضرت عائشہؓ نے قرآن پاک کی آیت وما انت بمسمع من القبور اور انک لا تسمع الموتی سے اس کی تردید کردی تھی۔ پھر بعض نے اس کو معجزہ پرمحمول کیا بعض نے زندوں کی عبرت کے لیے اس کو کہا اور وہ جو حدیث میں ہے کہ مردہ جوتیوں کی آواز سنتا ہے وہ قبر میں منکر و نکیر کے سوال و جواب کے وقت ہوتا ہے آگے پیچھے نہیں  ہوتا۔

اہل سنت والجماعت کا یہی عقیدہ ہے کہ مردے نہیں  سنتے البتہ معتزلہ فرقہ کی شاخ صالحیہ مردے کے لیے علم ۔ قدرت۔ سماعت۔ بصارت ثابت کرتے ہیں۔ ان کے مذہب کے مطابق خداوند تعالیٰ ان صفات کے ہوتے ہوئے بھی زندہ نہیں  ہیں بلکہ مردہ ہیں۔ غرائب فی تحقیق المذاہب میں ہے کہ ایک  آدمی  قبرستان میں نیک لوگوں کی قبروں کے پاس جاکر کہہ رہا تھا کہ کیا تم کچھ سنتے ہو یا نہیں ؟ تم میں کوئی بھلائی ہے یا نہیں ؟ میں کئی مہینوں سے تمہارے پاس آرہا ہوں میری التجا صرف یہ ہے کہ تم میرےحق میں دعائے خیرکرو۔ امام  ابوحنیفہ سن رہےتھے آپ نے فرمایا کیا انہوں نے تجھ کو کوئی  جواب دیا ہے؟ کہنے لگا نہیں  آپ نے فرمایا تیرے ہاتھ خاک آلودہ ہوں تجھ پر افسوس تو مردوں سے کلام کرتا ہے جو تجھے کوئی جواب نہیں  دے سکتے جو آواز  نہیں  سن سکتے پھر آپ نے قرآن مجید کی آیت پڑھی وما انت بمسمع من فی القبور (تو قبر والوں کو نہیں  سنا سکتا) تفسیر نیشاپوری میں ہے کہ جب نبی اکرمﷺ نے جنگ بدر میں کفار کے مقتولوں سے سوال کیا تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ’’تو مردوں کو نہیں  سناسکتا‘‘ اور یہ تو ظاہر بات ہے کہ خداوند تعالیٰ نے کفار کو عدم سماع کی وجہ سے مردوں سے تشبیہ دی ہے اگر مردے سن سکتے ہوتے تو اللہ تعالیٰ یہ تشبیہ بیان نہ کرتے۔ قصہ مختصر یہ کہ قرآن و حدیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ مردے نہیں  سنتے۔ واللہ اعلم۔     (سید شریف حسین) (سید محمد نذیرحسین)

فتاوی نذیریہ

جلد 01 ص 673

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ