سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(212) مومنہ عورت کو قبر کی زیارت کی رخصت ہے یا نہیں؟

  • 5719
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 991

سوال

(212) مومنہ عورت کو قبر کی زیارت کی رخصت ہے یا نہیں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ عورت مومنہ بے قرار کو زیارت قبور مطابق سنت رخصت ہے یا نہیں  اور بعد وفات کے روح انسان کی چالیس روز تک ہفتہ وار آتی ہے یا نہیں  یا تمام عمر آتی رہتی ہے اور بعد وفات کے نابالغ کی روح بڑھتی ہے یا نہیں ۔ بینوا توجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر عورت صابر ہے اور اس سے کسی قسم کے فتنہ کا خوف نہیں  ہے اور نہ اس امر کا خوف ہے کہ قبرستان میں جاکر روئے گی، چلائے گی اور بے صبری کی حرکتیں کرے گی تو اس کے لیےگاہے گاہے زیارت قبور مطابق سنت کے جائز و رخصت ہے اور اگر بےصبر ہے اور اس سے  امر مذکور کا خوف ہے تو اس کے لیےجائز نہیں ۔نیل الاوطار میں ہے:

(ترجمہ) ’’ قرطبی نے کہا قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر جو لعنت آئی ہے یہ بطور مبالغہ ہے اور قبرستان میں اکثر اوقات جانے والی عورتوں کے متعلق ہے کیونکہ اس سے خاوند کے حقوق ضائع ہوتے ہیں ، بے پردگی ہوتی ہے، بعض دفعہ نوحہ کرنے لگتی ہیں اگر یہ چیزیں نہ ہوں تو پھر جائز ہے کیونکہ موت کی یاد کے لیے جیسے مرد محتاج ہیں ایسےعورتیں بھی محتاج ہیں اس سے دونوں طرح کی حدیثوں کی تطبیق ہوجاتی ہے۔‘‘

باقی رہا بعد مرنےکے انسان کی روح کا آنا یا نابالغ کی روح کا بڑھنا سو ان باتوں کا  شریعت میں کوئی ثبوت نہیں  ہے۔ واللہ اعلم حررہ ابو محمد عبدالحق اعظم گڑھی عفی عنہ۔                                                   (سید محمد نذیر حسین)

ہوالموفق:

مردوں کے واسطے زیارت قبور بالاتفاق سنت ہے اور عورتوں کی نسبت اختلاف ہے اکثر علماء کے نزدیک عورتوں کے لیےبھی زیارت قبور جائز و رخصت ہے اور بعض علماء کے نزدیک مکروہ ہے اور اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ عورتوں کی زیارت قبور کی نسبت حدیثیں مختلف آئی ہیں جو اہل  علم عورتوں کے لیےبھی زیارت قبور کو جائز بتاتے ہیں ان کی پہلی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک عورت کو ایک قبر کے پاس روتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور صبر کرو (رواہ البخاری) اور آپ نے اس کوقبر کے پاس بیٹھنے سے منع نہیں  فرمایا اور دوسری دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تم لوگوں کوزیارت قبور سےمنع کیا تھا سو تم لوگ قبروں کی زیارت کرو  (رواہ مسلم) وہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ اجازت مردوں اور عورتوں دونوں کوشامل ہے اور تیسری دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہؓ اپنے بھائی عبدالرحمٰن کی قبر کی زیارت کی تو ان سے کسی نے کہاکہ کیا رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کوزیارت قبور سےمنع نہیں  کیا ہے،انہوں نے  کہا ہاں منع کیا تھا (مگر) پھر ان کو زیارت قبو کا حکم کیا (رواہ الحاکم) اور چوتھی دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہؓ نے رسول اللہ ﷺ سے کہاکہ یا رسول اللہ ﷺ جب میں قبر کی زیارت کروں تو کیا کہوں آپ نے فرمایا کہ جب تو قبروں کی زیارت کرے تو کہہ السلام علی الدیا (الحدیث) (رواہ مسلم) اور پانچویں دلیل یہ ہے کہ  حضرت فاطمہؓ ہر جمعہ کو اپنے چچا حمزہؓ کی قبر کی زیارت کرتی تھیں (رواہ الحاکم و ہو مرسل) اور چھٹی دلیل یہ ہےکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو اپنے باپ ماں دونوں کی یا ایک کی قبر کی زیارت ہر جمعہ کو کیا کرے تو اس کی مغفرت کی جائے گی اور وہ بار  لکھا جائے گا (رواہ البیہقی فی شعب الایمان مرسلاً) اور جو لوگ عورتوں کے لیےزیارت قبور کو مکروہ بتاتے ہیں ان میں بعض مکروہ  بکراہت تحریمی کہتے ہیں اور بعض مکروہ بکراہت تنزیہی۔ان لوگوں کی پہلی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نےقبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پرلعنت کی ہے ۔ (اخرجہ الترمذی و صححہ) اور دوسری دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فاطمہؓ کو سامنے آتے ہوئے دیکھا تو پوچھا کہ کہاں سے آتی ہو؟ انہوں نےکہاکہ اس میت کی  تعزیت کو گئی تھی آپ نے فرمایا شاید تو جنازہ کے ہمراہ گئی یعنی قبرستان میں گئی تھی، انہوں نے کہا نہیں (اخرجہ احمد والحاکم وغیرہما) ان لوگوں کی یہی دو دلیلیں ہیں، علامہ قرطبی نے ان متعارض و مختلف احادیث کی جمع و توفیق میں جو مضمون لکھا ہے اس کا خلاصہ مجیب نے جواب میں لکھ دیا ہے اور علامہ شوکانی نے اس کو اعتماد کے قابل  و لائق بتایا ہے اور بلا شبہ جمع و توفیق کی یہ صورت بہت اچھی ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم و علمہ اتم حافظ ابن حجر فتح الباری صفحہ 662 جزو 5 میں لکھتے ہیں:

(ترجمہ) ’’ قبروں کی زیارت کے لیے عورتوں کے جانے میں اختلاف ہے اکثر کا یہ مذہب ہے کہ جب قبور کی زیارت کی اجازت ہوئی تو اس میں عورتوں کوبھی اجازت ہوگی بشرطیکہ زیادہ نہ جائیں اور وہاں جاکر بے صبری نہ کریں۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک عورت کوقبر کے پاس بیٹھے دیکھا تو اسکو منع نہ کیا ، حضرت عائشہؓ اپنے بھائی عبدالرحمٰن کی قبر پر زیارت کے لیےگئیں کسی نے کہا رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو قبرستان میں جانے سےروکا ہے، کہنے لگیں جب روکا تھا تو سب کو روکا تھا اور جب اجازت ہوئی تو عورتوں کوبھی ہوگئی۔ابواسحٰق نے مہذب میں کہا ہے کہ اجازت صرف مردوں کو ہوئی ہے ، عورتوں کو نہیں ۔ مانعین عبداللہ بن عمر کی حدیث سے اور لعن اللہ زوارات القبو سے استدلال کرتے ہیں پھرمکروہ کہنے والوں میں سے بعض مکروہ تنزیہی کہتے ہیں اور بعض مکروہ تحریمی۔ قرطبی کہتے ہیں اگر عورت قبرستان میں زیادہ نہ جائے، نوحہ نہ کرے، مرد کے حقوق ضائع نہ کرے تو اس کو  جانا جائز ہے ورنہ نہیں ، رسول اللہ ﷺ نےجو زیارت کرنےوالی عورتوں کو لعنت کی ہے یہ رخصت سے پہلے تھی جب رخصت ہوئی تو عورتوں مردوں کو ہوگئی اور عورتوں کے لیے جو زیارت مکروہ ہے وہ صرف بے قرار اور بے صبری کی وجہ سے ہےچنانچہ حضر ت عائشہؓ نے بھی جب اپنے بھائی عبدالرحمنٰ کی قبر کی زیارت کی تو دردناک شعر پڑھے اور حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہؓ نے نبیﷺ سے پوچھا جب میں قبرستان میں جاؤں تو کیا کہا کروں آپ نے دعا سکھلائی ان کومنع نہ کیا۔ حضرت فاطمہؓ حضرت حمزہؓ کی قبر پر ہر جمعہ کو جایا کرتی تھیں اور حدیث میں ہے کہ جو ہرجمعہ اپنے والدین کی قبر پرجائے اس کو بخش دیا جائے گا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنے والا لکھا جائے گا۔‘‘ واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ محمد عبدالرحمٰن المبارکفوری عفاء اللہ عنہ۔

 


فتاوی نذیریہ

جلد 01 ص 656

محدث فتویٰ

تبصرے