سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(210) نماز جنازہ اندر مسجد یا صحن مسجد مذہب حنفیہ جائز ہے یا نہیں

  • 5717
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 4174

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ نماز جنازہ اندر مسجد یا صحن مسجد  از روئے مذہب حنفیہ جائز ہے یا نہیں  اور از روئے کتاب اللہ و سنت رسول اللہ ﷺ کیا ہے۔ ارقام فرمائیں۔ بینوا توجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز جنازہ مسجد میں از روئے مذہب حنفیہ کے مکروہ ہے مسجد کے اندر ہو خواہ صحن مسجد میں ہو، بعض فقہائے حنفیہ کے نزدیک مکروہ تحریمی ہے اور بعض کے نزدیک مکرہ تنزیہی۔ امام محمد اپنے موطا میں لکھتے ہیں ، لا یصلی علی جنازۃ فی المسجد اور اس کے حاشیہ میں ہے ،ای [1]کرھت الصلوٰۃ علیہا فیہ کراھت تحریم فی روایۃ و تنزیہ فی روایۃ ھوا ولی انتہی اور شرح وقایہ میں ہے و کراھت[2] فی مسجد جماعۃ ان  کان المیت فیہ اور اس کے حاشیہ میں ہے، قیل[3] تحریما کما حققہ قاسم بن قطلوبغا فی رسالۃ مستقلۃ والیہ مال اکثر المتاخرین و قیل تنزیہا و رجعہ المحق ابن الہمام فی الفتح و تلمیذ ہ ابن امیر حاج فی الحلیۃ و غیرھما انتہی۔ اور از روئے حدیث صحیح کے مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا جائز و درست ہے منتقی الاخبار میں ہے:

(ترجمہ) ’’ جب حضرت سعد بن ابی وقاص فوت ہوئے تو حضرت عائشہؓ نے کہا اس کو مسجد میں لے آؤ تاکہ میں اس پرنماز پڑھ لوں لوگوں نے اس کو بُرا محسوس کیا تو آپ نے فرمایا : نبی ﷺ نے بیضاء کے بیٹوں سہل و سہیل کاجنازہ مسجد میں ہی تو پڑھا تھا ۔‘‘

 اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کا مسجد میں نماز جنازہ  پڑھنا ثابت ہے اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے جنازہ کی نماز مسجد ہی میں پڑھی گئی تھی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ کے درست اور جائز ہونے پر صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع و اتفاق ہے۔ فتح الباری میں ہے:

(ترجمہ) ’’ابن ابی شیبہ میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکر کا جنازہ مسجد میں پڑھایا اور حضرت صہیب نے حضرت عمرؓ کا جنازہ مسجد میں پڑھایا اور ان کی چارپائی مسجد کے درمیان منبر کے سامنے رکھی گئی‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کا اس کے جواز پراجماع تھا۔‘‘

اور حنفیہ جو مسجد میں نماز جنازہ کے مکروہ ہونے پر ابوداؤد کی حدیث من[4] صلی علی جنازۃ فی المسجد فلاشئ لہ سے استدلال کرتے ہیں جنازہ کی نماز جماعت والی مسجد میں مکروہ ہے بشرطیکہ میت بھی مسجد  میں ہو۔ سو یہ ان کا استدلال صحیح نہیں  کیونکہ یہ حدیث ضعیف ہے اور جو یہ کہتے ہیں کہمردہ نجس ہوتا ہے اس وجہ سے جنازہ کی نمازمسجد میں پڑھنا مکروہ ہے سو ان کی یہ بات بھی ٹھیک نہیں  کیونہ مردہ کی نجاست کسی دلیل سے ثابت نہہیں بلکہ میت مسلم کی طہارت ثابت ہے اور جو یہ کہتے ہیں کہ ’’حضرت عائشہؓ نے جب یہ کہ سعد بن ابی وقاص کا جنازہ مسجد میں داخل کرو کہ میں بھی ان کے جنازہ کی نماز پڑھوں تو صحابہ ؓ نے ان پرانکار کیا اس سےمعلوم ہوا کہ نماز جنازہ مسجد میں مکروہ ہے۔ ’’سو حنفیہ کی یہ بات بھی ٹھیک نہیں  کیونکہ حضرت عائشہؓ نے صحابہؓ کے انکار کرنے پر انکار کیا اور ان کو یہ حدیث سنائی کہ رسول اللہ ﷺ نے سہل اور سہیل کے جنازہ کی نماز مسجد ہی میں پڑھی تھی۔ صحابہ ؓ نے حضرت عائشہؓ سے یہ حدیث سن کر ان کے انکار کوتسلیم کرلیا اور مسجد میں نماز جنازہ کے جواز کو سب نے قبول کرلیا۔ علامہ شوکانی نیل الاوطار میں لکھتے ہیں:

(ترجمہ) ’’حضرت عائشہؓ کی حدیث دلالت کرتی ہے کہ میت کو مسجد میں داخل کرنا اور اس پر نماز پڑھنا جائز ہے ، امام شافعی، احمد، اسحٰق جمہور ابن حبیب مالکی اور بقول ابن عبدالبر، امام مالک کا بھی ایک روایت میں یہی مذہب ہے اور ابن ابی ذئب امام ابوحنیفہ اور ایک روایت کے مطابق امام مالک اس کومکروہ سمجھتے ہیں مکروہ کہنے والے حضرت عائشہؓ کی حدیث کے جواب میں کہتے ہیں کہ بیضاء کے بیٹوں کی لاشیں مسجد سے باہر رکھی گئی تھیں اور نماز مسجد میں ہوئی تھی۔قائلین اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ اگر لاشیں باہر رکھی گئی ہوتیں تو حضرت عائشہؓ سعد کاجنازہ مسجد کے اندر داخل کرنے پرکیسے استدلال کرتیں۔منکرین یہ بھی کہتے ہیں اگر مسجد میں جنازہ منع نہ ہوتا تو صحابہ حضرت عائشہؓ پر انکار ہی کیوں کرتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جب عائشہ نےجواب میں ان کو بیضاء کے بیٹوں کا حوالہ دیا تو وہ خاموش کیوں ہوگئے، معلوم ہواکہ صحابہ ایک واقعہ کوبھولے ہوئے تھے اور عائشہؓ نے اس  کو یادرکھاتھا اور بالاخر سب کااتفاق  مسجد میں جنازہ پڑھنے پر ہوگیا اور مسجد ابوبکر و عمر کا جنازہ بھی مسجد میں پڑھا گیا جو مسجد میں جنازہ مکروہ کہتے ہیں وہ اس لیےکہتے ہیں کہ ان کے نزدیک میت پاک نہیں  اور یہ بالکل غلط ہے کیونکہ مومن نہ زندگی میں پلید ہے نہ مرنےکے بعد اور کراہت کی بنیاد ابوداؤد کی روایت پر رکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جومسجد میں جنازہ پڑھے اس کو کوئی اجر نہین ہے۔ اس کے کئی ایک جواب ہیں۔ پہلا یہ کہ یہ حدیث ضعیف ہے اس کی سند میں صالح مولی تو امر ضعیف ہے ، دوسرا جواب یہ ہے کہ صحیح اورمحقق نسخوں میں فلیس لہ شئ (اس کو کوئی اجر نہیں ) کی بجائے  فلیس علیہ شئ (اس کو کوئی  گناہ نہیں ) کے لفظ ہیں۔ تیسرا یہ کہ لام بمعنی علی عربی زبان میں بکثرت استعمال ہوتا ہے قرآن مجید میں ہے: وان اسأتم فلھا ۔ چوتھا یہ کہ اس آدمی کا اجر کم ہوتا ہے جو مسجد میں صرف جنازہ پڑھ کر واپس آجائے اور دفن کرنے کے لیےقبرستان میں نہ جائے۔‘‘ (سید محمدنذیر حسین)



[1]   جنازہ  کی نماز مسجد میں پڑھنا مکروہ ہے بعض کے نزدیک مکروہ تحریمی اور بعض کے نزدیک تنزیہی اور یہی صحیح ہے۔

[2]  جنازہ کی نماز جماعت والی مسجد میں مکروہ ہے بشرطیکہ میت بھی مسجد  میں ہو۔

[3]   نماز جنازہ مسجد میں مکروہ تحریمی ہے جیسا کہ ابن قطلوبغا نے اپنے ایک مستقل رسالہ میں اس کی تحقیق کی ہے اور اکثر متاخرین کا یہی مذہب ہے اور بعض نے مکروہ تنزیہی  کہا ہے ابن ہمام اور اس کےشاگرد  ابن امیر الحاج نے اسی کو راج قرار دیا ہے۔

[4]   جومسجد میں جنازہ کی نماز پڑھے اس کو  کوئی اجر نہیں ۔

 


فتاوی نذیریہ

جلد 01 ص 652

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ