کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسائل مندرجہ ذیل میں کہ ایک شخص کبھی نماز پنجگانہ ادا کرتا تھا کبھی نہیں ، سو ایسے شخص کی نماز جنازہ پڑھنی چاہیے یا نہیں ۔ دوئم ایک شخص نماز عید کی پڑھتا تھا پنجگانہ نماز ترک کرتا تھا لیکن اقرار کرتا تھا کہ میں نماز پڑھوں گا سو اس کی نماز جنازہ پڑھنی چاہیے یا نہیں ۔ سوم ہمارے گاؤں میں ایک امام ہیں وہ اس قسم کے جنازے نہیں پڑھاتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اس میت کی ٹانگ میں ایک رسی باندھ کر ستر قدم کھینچو جب نماز پڑھوں گا ۔ علمائے دین سے سوال ہے کہ مسائل مرقوم الصدر کے جواب مع عبارت کتب معتبرہ تحریر فرمائیں۔ بینوا توجروا
وہوالموفق للصواب جملہ صور مرقومہ سے اوّل اور دوم صورت کا یہ جواب ہے کہ حضرت ائمہ اربعہ علیہم الرحمۃ اور جملہ اہلسنت و جماعت قامع و قالع اہل بدعت کے نسدیک ان دونوں شخصوں کی نماز جنازہ ضروری چاہیے اور ہرگز ایسے شخصوں کی نماز نہ چھوڑنی چاہیے اور ان کو بے نماز نہ دفن کرنا چاہیے کیونکہ ایسے شخص کی نماز گنڈے دار پڑھتے ہیں یافقط عیدبقر عید کی پڑھتے ہیں یا تمامی عمر نہیں پڑھتے مگر فرضیت نماز سے کبھی انکار ثابت نہیں ہوا تو یہ لو گ اہل اسلام اور داخل اہل اسلام ہیں اگرچہ فاسق اور اشد گنہگار نماز نہ پڑھنے پر ہیں لیکن کافر و مرتد نہیں ہیں جو ان کے جنازہ کی نماز نہ پڑھی جاوے شرعاً کافر کی نماز جنازہ اور اس کے لیے دعا استغفار کی ممانعت اہل اسلام کو ہے فاسق کے واسطے نماز جنازہ اور دعاء استغفار کی ممانعت وارد نہیں ۔ چنانچہ اس پراجماع صحابہ اور تابعین اور ائمہ دین متین کا ہے۔
(ترجمہ) ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر کوئی ان میں سے مرجائے تو اس پر کبھی نماز نہ پڑھو اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہو یہ آیت صاف دلالت کرتی ہے کہ کافر کا جنازہ نہیں پڑھناچاہیے اور نہ دفن کے وقت یازیارت کے لیے اس کی قبر پر جانا چاہیے اور فاسق کا معنی اس آیت میں کافر ہے کیونکہ فاسق کا جنازہ پڑھنا باجماع صحابہ و تابعین جائز ہے ۔ سلف صالحین اور اہل سنت کا یہی مذہب ہے ۔ ہاں شیعہ اس کے خلاف ہیں تو ضروری ہے کہ یہاں فاسق کے معنیکافر کے کئے جائیں اور فاسق کے الفاظ کافر کی جگہ قرآن مجید میں کئی جگہ آئے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’کیا مومن فاسق کی طرح ہوسکتے ہیں‘‘(تفسیرات احمدیہ مختصراً) و شرطہا[1] السلام المیت و طہارتہ (تنویر الابصار)
جواب سوال سوم:
جواب سوال سوم کا یہ ہے کہ گاؤں کے امام صاحب جو فرماتے ہیں کہ ’’اس میت کی ٹانگ میں ایک رسی باندھ کر ستر قدم کھینچو جب نماز جنازہ پڑھوں گا‘‘ سو یہ ان کا فرمانا غلط ہے ہرگز قابل اعتبار نہیں کیونکہ اس میں توہین میت ہے اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو شرافت و عظمت حیاً و میتا بخشی ہے۔ قال[2] اللہ تعالیٰ ولقد کرمنا بنی آدم ،دوم اس میں اذیت و تکلیف میت پہنچے گی اور میت مسلم کو اذیت و تکلیف دینی حرام اور ممنوع و موجب اثم ہے۔
(ترجمہ) ’’ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’میت کی ہڈی توڑنا ایسا ہی ہے جیسے زندہ آدمی کی ہڈی توڑنا‘‘ یعنی ان دونوں کا گناہ برابر ہے طببی نےکہا میت کی توہین کرنا ایسا ہی ہے جیسے زندہ کی توہین کرنا۔ ابن مالک نے کہا میت بھی اسی طرح دُکھ محسوس کرتی ہے جیسے زندہ۔ عبداللہ بن مسعود نے کہا میت بھی تکلیف محسوس کرتی ہے اور جیسے زندہ آدمی لذت محسوس کرتا ہے میت بھی کرتی ہے۔‘‘
حضرات فقہا ارشاد فرماتے ہیں کہ میت کو ایسے نیم گرم پانی سے غسل دینا چاہیے کہ جس سے میت کو اذیت و تکلیف نہ پہنچے۔ حیف ہے جناب امام صاحب مذکور فی السوال کو کہ یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میت کی ٹانگ میں ایک رسی باندھ کر ستر قدم کھینچو جب نماز پڑھوں گا ،خدا جانے کس شریعت پرعمل کرتے ہیں جو توہین اور اذیت میت مسلم پر آمادہ و مستعد ہوتے ہیں اور خلاف شریعت عزا پر راضی ہیں۔ العجب کل العجب ، امام جی کو ایسے مسئلے گھڑنے سے توبہ و استغفار کرنی چاہیے کہ ایسی گھڑت کی باتوں سے رخنہ دیں اور فتنہ شرع متین میں پڑتا ہے۔ قال [3]الشامی قولہ (ولاقماء خاص مغلی) ای اغلاء و سطالان المیت یتاذی مما یتا ذی بہ الححی ( رد المختار حاشیہ درالمختار ) واللہ اعلم اجابہ و کتبہ الفقیر محمد یعقوب عفا اللہ عنہ الذنوب۔ تارک الصلوٰۃ فاسق و یجوز صلاۃ الجنازۃ علیہ۔ فتح محمد الجواب صحیح بندہ ضیاء الحق مدرس امینیہ۔ الجواب صحیح بندہ محمد قاسم مدرس مدرسہ امینیہ الجواب صحیح محمد عبدالغفور مدرس مدرسہ امینیہ۔ (سید محمد نذیر حسین)[1] جنازہ کے لیےمیت کا مسلمان اور پاک ہونا شرط ہے۔
[2] ہم نے بنی آدم کو بزرگی عطا فرمائی
[3] شامی نے کہا میت کو خالص گرم پانی سے غسل دینا چاہیے اور پانی درمیانہ گرم ہوکیونکہ جن چیزوں سے زندہ کو تکلیف ہوتی ہے مردے کو بھی ہوتی ہے۔