سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(208) غائب کا جنازہ پڑھنا درست ہے یا نہیں ؟

  • 5715
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 726

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ غائب کا جنازہ پڑھنا درست ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو بعد تین روز کےبھی جائز ہے یا نہیں ؟ بینواتوجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

غائب کا جنازہ پڑھنا جائز ہے اور یہی ہے مذہب امام شافعی اور امام احمد اور جمہور سلف کااور تین روز کے بعد بھی جائز ہے کیونکہ تین روز کے بعد ناجائز ہونے کی کوئی دلیل نہیں   ہے ۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے: عن[1] جابر بن عبداللہ یقول قال النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قد تونی الیوم رجل صالح من الحبش فھلموا فصلوا علیہ قال فصففنا فصلی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و نحن صفوف ، حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں: استدل[2] بہ علی مشروعیۃ الصلوۃ علی المیت الغائب عن البلد ویذلک قال الشافعی واحدم و جمہور السلف حتی قال ابن حزم لم یات عن احد من الصحابۃ منعہ قال الشافعی الصلوۃ علی المیت دعالہ وھو اذا کان ملففا یصلی علیہ فیکف لا یصلی وھو غائب اوفی القبر بذلک الوجہ الذی یدعی لہ وھو ملفف انتہی۔واللہ اعلم کتبہ محمد عبدالعزیز مرشد آبادی عفی عنہ 12 شوال 1318ھ                           (سید محمد نذیر حسین)



[1]   نبیﷺ نے فرمایا آج حبشہ کا ایک نیک آدمی فوت ہوگیا ہے ، آؤ اس پرنماز پڑھو ہم نے صفیں بنائیں اور رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی۔

[2]   اس حدیث  سے غائبانہ جنازہ پڑھنے کاثبوت ملتا ہے امام شافعی،احمد اور جمہور کایہی مذہب ہے ۔ابن حزم نے کہا کہ کسی صحابی سے غائبانہ جنازہ کی ممانعت ثابت نہیں  ہے۔امام شافعی نے کہامیت پرنماز اس کے لیے دعا ہے جب وہ کفن لپیٹا ہوتا ہے تو قبر کے اندر چلے جانے یا غائب ہونے کی صورت میں دعا منع کیسے ہوجاتی ہے۔


فتاوی نذیریہ

جلد 01 ص 649

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ