کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ (1) نماز جنازہ ایک بار ہوچکی پھر اور آدمی آئے انہوں نے بھی نماز پڑھی تو یہ نماز جائز ہے یا نہیں ؟ (2)غائب کی بھی نماز پڑھنی چاہیے یا نہیں ۔ بینوا توجروا
جنازہ پردوبارہ نماز پڑھنی جائزہ ہے۔مشکوٰۃ شریف میں ہے: عن ابن عباس ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مر بقبر دفن لیلا فقال متی دفن ھذا قالوا البارحۃ قال افلا اذنتمونی قالوا دفناہ فی ظلمۃ اللیل ذکرھنان نوقظک فقام فصمففنا خلفہ فصلی متفق علیہ۔ یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک قبر پر گزرے جس میںمردہ رات کو مدفون ہوا تھاآپ نے فرمایا یہ کب مدفون ہوا ہے لوگوں نے کہا شب گذشتہ کو آپ نے فرمایا تو مجھے تم لوگوں نے کیوں خبر نہیں دی لوگوں نے کا اندھیری رات میں ہم نے دفن کیا اس وجہ سے آپ کو جگانا مناسب نہیں سمجھا۔ پس رسول اللہ ﷺ (نماز جنازہ کے لیے)کھڑے ہوئے اور ہم لوگ آپ کے پیچھے صف باندھ کر کھڑے ہوئے پس آپ نے نماز جنازہ پڑھی ۔ اس حدیث سے معلوم ہواکہ نماز جنازہ ہونے کے بعد مردہ دفن ہوچکا ہو تو اس کی قبر پر دوبارہ نماز جنازہ پڑھنا درست ہے پس جب دفن کے بعد قبر پر دوبارہ نماز جنازہ درست ہے توقبل دفن کے تو بدرجہ اولےٰ درست ہوگی اور اس کی تائید حضرت علیؓ کے اثر سے ہوتی ہے جس کو صاحب کنزالعمال نے بایں لفظ نقل کیا ہے ۔ صلی علی علی جنازۃ بعد ماصلی علیہا۔ یعنی حضرت علیؓ نے ایک جنازہ پر نماز پڑھی بعد اس کے کہ اس پرنماز پڑھی جاچکی تھی ۔
جواب سوال دوم:
نماز جنازہ غائب پر پڑھنا درست ہے اور یہی مذہب ہے امام شافعی اور امام احمد اور جمہور سلف رحمہم اللہ کا حتی کہ ابن حزم نے کہا ہے کہ کسی صحابی سے غائب پرنماز جنازہ پڑھنے کی ممانعت نہیں آئی۔
(ترجمہ) ’’ نبیﷺ نے اصحمہ نجاشی (بادشاہ) پر غائبانہ نماز پڑھی چار تکبیریں کہیں اور فرمایا آج حبشہ کاایک نیک آدمی فوت ہوگیا آؤ اور صف بناؤ اور نماز پڑھو سو ہم نے آپ کے پیچھے صف بنائی رسو ل اللہ ﷺ نے اس پر نماز پڑھی اور ہم صفوں میں کھڑے تھے۔
’’امام شوکانی نے کہا اس واقع سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے جوغائبانہ جنازہ کے قائل ہیں امام شافعی ، احمد اور جمہور کا یہی مذہب ہے ابن حزم نے کہا اس کاانکار کسی بھی صحابی سے ثابت نہیں ۔‘‘