کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ کتنی رکعتیں نماز تراویح کی رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں اور خلفائے راشدین کا کیاعمل رہا ہے اور فی زماننا بعض بعض آٹھ رکعت پر اکتفا کرتے ہیں اور بعض نے بیس رکعت پر مداومت کرنےکو زیادہ ثواب جانا ہے ، افعال و اقوال جوآپ کے اور آپ کے خلفا کے ہوں ، بیان فرمائیں۔
صورت مذکورہ فی السوال میں حال تراویح کا یہ ہے کہ زمانہ رسول اللہ ﷺ میں ثبوت تراویح کا مختلف طور سے ہے بعض روایات سے آٹھ ثابت ہوتی ہیں اوربعض سے بیس سے زیادہ بھی ثابت ہوتی ہیں لیکن زمانہ حضرت عمرؓ میں عمرؓ کے ارشاد کے موافق بیس رکعت پر اجماع ہوگیا اور رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہےلا تجتمع امتی علی الضلالۃ (ترجمہ) میری اُمت کا اجماع گمراہی پرنہیں ہوگا خاص کر صحابہ کرام کا اجماع اور صحاح میں یہ حدیث ہے ، علیکم[1] بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین جوشخص بیس رکعت سے انکار کرے وہ شخص حدیث علیکم بسنتی الخ کا منکر ہوگا اور جس حدیث سےبیس رکعت ثابت ہیں وہ یہ ہے۔ فی[2] الموطا عن یزید بن رومان قال کان الناس یقومون فی زمن عمر بن الخطاب بثلاث و عشرین رکعۃ جو شخص کہ اجماع سے انکار کرے اس کی تنبیہ کے واسطے یہ حدیث کافی ہے۔ من[3] شذ شذ فی النار یعنی جومسلمانوں کے گروہوں سے جدا ہوا وہ دوزخ میں تنہا ہوگا العبد المجیب محمد وصیت مدرس مدرسہ حسین بخش۔
سوال مذکور کا یہ جواب جو مجیب نے لکھا ہے بالکل غلط ہے اب پہلے سوال مذکور کا صحیح جواب لکھا جاتا ہے پھر مجیب کےجواب کے غلط ہونے کی وجہ لکھی جائیں گی پس واضح ہو کہ احادیث صحیحہ سے رسول اللہ ﷺ سے نماز تراویح کی مع وتر کے گیارہ رکعتیں ثابت ہیں ، صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے۔ عن[4] ابی سلمۃ بن عبدالرحمٰن انہ سأل عائشہ رضی اللہ عنہا کیف کانت صلوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی رمضان فقالت ما کان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدے عشرۃ رکعۃ الحدیث ، یعنی ابو سلمۃ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز رمضان میں کیونکر تھی یعنی آپ تراویح کی نماز کے رکعت پڑھتے تھے پس عائشہؓ نے فرمایا کہ آپ گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے نہ رمضان میں اورنہ غیر رمضان میں یعنی آنحضرتﷺ کی نماز تراویح کی تعداد گیارہ رکعت تھی جیسا کہ اس مدعی کو ابن حبان وغیرہ کی یہ روایت خوب صراحت کے ساتھ ثابت کئے دیتی ہے۔ عن جابر رضی اللہ عنہ قال صلی بنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی رمضان ثمان رکعات ثم اوتر الحدیث رواہ ابن خزیمۃ و ابن حبان فے صحیحیھما ھکذا فی المفاتیح و سبل السلام و نیل الاوطار ، یعنی جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو رمضان میں آٹھ رکعت نماز پڑھائی پھر وتر پڑھے روایت کیا اس کو ابن خزیمہ اور ابن حبان نے اپنے صحیح میں یہ حدیث صحیح و قابل احتجاج ہے کسی محدث نے اس کو ضعیف نہیں کہا ہے اور حضرت عمرؓ نے بھی اُبی اور تمیم داری کو نماز تراویح پڑھانے کا حکم کیا تو گیارہ ہی رکعت پڑھانے کا حکم کیا نہ زیادہ نہ کم مؤطا امام مالک میں ہے ۔ عن السائب بن یزید انہ قال امر عمر بن الخطاب ابی بن کعب و تمیما الداری ان یقوما للناس باحدی عشر رکعۃ ، یعنی سائب بن یزید سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو حکم کیاکہ لوگوں کو گیارہ رکعت تراویح پڑھایا کریں ۔ سند اس کی بہت صحیح ہے اور مصنف ابن ابی شیبہ اور سنن سعید بن منصور میں بھی یہ روایت موجود ہے اور جب حضرت عمرؓ نے آٹھ رکعت تراویح پڑھانے کا حکم کیاتو ظاہر ہے کہ خود بھی گیارہ ہی رکعت پڑھتے رہے ہوں گے۔ اور خلفائے راشدین میں سے حضرت ابوبکر و حضرت عثمان و حضرت علی رضی اللہ عنہم کا حال صحیح روایت سے ثابت نہیں کہ یہ لوگ کے رکعت پڑھتے تھے مگر جب حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ گیارہ ہی رکعت تراویح پڑھتے تھے اور جن راتوں میں آپنے صحابہؓ کے ساتھ باجماعت تراویح پڑھی ان راتوں میں بھی گیارہ ہی رکعت پڑھنا ثابت ہے تو ظاہر یہی ہے کہ یہ لوگ بھی گیارہ ہی رکعت تراویح پڑھتے رہے ہوں گے ۔ خلاصہ جواب یہ ہےکہ رسول اللہ ﷺ سے تراویح گیارہ رکعت ثابت ہے اور خلفائے راشدین سے حضرت عمرؓ سے بھی گیارہ ہی رکعت ثابت ہے اور بقیہ خلفائے راشدین سے تراویح کی تعداد ثابت نہیں مگر ظاہر یہی ہے کہ یہ لوگ بھی گیارہ رکعت پڑھتے رہے ہوں گے۔واللہ اعلم مجیب مذکور کے جواب مذکور کے غلط ہونےکی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے دو دعوے کیے ہیں اور دونوں دعوے باطل ہیں۔پہلادعوی یہ کیا ہے کہ ’’زمانہ رسول اللہ ﷺ میں ثبوت تراویح کامختلف طور سے ہے بعض روایات سے آٹھ ثابت ہوتی ہیں بعض سے بیس اور بعض سے بیس سے زیادہ بھی ثابت ہوتی ہیں‘‘ اس دعوی کابطلان بالکل ظاہر ہےاس واسطے کہ زمانہ نبوی میں ثبوت تراویح کا ہرگز مختلف طور سے نہیں ہے نہ رسول اللہ ﷺ سے اور نہ کسی صحابی سے اوپرمعلوم ہوچکا ہے کہ آنحضرتﷺ صرف گیارہ رکعت تراویح پڑھتے تھے اور آپ سے بیس رکعت تراویح پڑھنے کی روایت جو بیہقی وغیرہ میں مروی ہے وہ بالکل ضعیف ہے اس کے ضعیف ہونے کی تصریح خود حنفیہ نے بھی کی ہے اورآپ سے بیس سے زیادہ پڑھنے کی تو کوئی روایت ہی نہیں آئی ہے اور زمانہ نبوی میں کسی صحابی سے بھی بیس رکعت یا بیس سے زیادہ پڑھنا ہرگز کوئی ثابت نہیں کرسکتا پس مجیب کا یہ پہلا دعویٰ سراسر غلط و باطل ہے اوردوسرا دعویٰ یہ ہے کہ’’زمانہ حضرت عمر ؓ میں عمرؓ کے ارشاد کے موافق بیس رکعت پر اجماع ہوگیا ہے‘‘ یہ دوسرا دعویٰ بھی بالکل غلط و سراسر باطل ہے زمانہ حضرت عمرؓ میں گیارہ رکعت پر اجماع ہونا البتہ ثابت ہے جیسا کہ سائب بن یزید کی روایت مذکورہ بالا سے ظاہر ہے و نیز مؤطا کی اس روایت سے ظاہر ہے ، عن داؤد بن الحسین انہ سمع الاعرج یقول ما ادرکت الناس الاوھم یلعنون الکفرۃ فی رمضان وکان القاری یقراء البقرۃ فی ثمان رکعت فاذا قام بھا فی اثنتی عشرۃ رکعۃ رأی الناس انہ خفف ، یعنی داؤد بن حصین سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے اعرج سے سنا وہ کہتے ہیں کہ نہیں پایا میں نے لوگوں کو مگر اس حالت میں کہ وہ کافروں پر لعنت کرتے تھے رمضان میں اور قاری پڑھتا تھا سورہ بقرہ آٹھ رکعتوں میں اور جب کبھی سورہ بقرہ کوبارہ رکعتوں میں پڑھتا تو لوگ سمجھتے کہ آج اس نے تخفیف کی۔ اس روایت سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ زمانہ عمر بن الخطاب میں عام طور پر آٹھ رکعت تراویح پڑھی جاتی تھی اور کبھی کبھی بارہ رکعت پڑھ لی جاتی تھی اور مجیب نے جو بیس رکعت کے ثبوت میں اور بیس رکعت پر اجماع ہونے کے ثبوت میں یزید بن رومان کی حدیث موطا سے نقل کی ہے سو یہ حدیث صحیح نہیں ہے بلکہ منقطع ہے یزید بن رومان نے حضرت عمرؓ کا زمانہ نہیں پایا ہے امام زیلعی حنفی تخریج بدایہ میں لکھتے ہیں ۔ ویزید بن رومان لم یدرک عمر انتہی ، الحاصل مجیب مذکور کا جواب دو دعوؤں پرمشتمل ہے اور دونوں دعوے غلط و باطل ہیں لہٰذا مجیب کا جواب مذکور غلط ہے اور ہاں مجیب کا جواب مذکور خود اجلہ فقہائے حنفیہ کے قول سے بھی باطل ہے ۔ علامہ ابن الہمام جو مذہب حنفی کے بہت بڑے حامی ہیں۔ فتح القدیر میں صاف لکھتے ہیں کہ تراویح گیارہ رکعت سنت ہے۔ فحصل من ھذا ان قیام رمضان احدی عشرہ رکعۃ بالوتر فی جماعۃ فعلہ علیہ السلام انتہی ،ما فی فتح القدیر بقدر الحاجۃ ، یعنی تحریربالا سے یہ بات حاصل ہوئی کہ تراویح گیارہ مع وتر رسول اللہ ﷺ کا فعل ہے اور ایسا ہی بحر الرائق شرح کنز الدقائق و طحطاوی میں ہے کہ تراویح اسی قدر سنت ہے جس قدر آنحضرتﷺ سے ثابت ہے یعنی گیارہ رکعت مع وتر اور فتح المعین شرح الشرح کنز کی ہے اس میں فتاوے شر بنلالیہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جو جماعت کے ساتھ تراویح پڑھائی تھی وہ گیارہ ہی رکعت تھی اور وہ حدیث جو روایت کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ وتر کے علاوہ بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے سو یہ حدیث ضعیف ہے۔ وفی الشربنلالیۃ الذی فعلہ علیہ السلام بالجماعۃ احدی عشرہ رکعۃ بالوتر وما روی انہ کان یصلی فی رمضان عشرین سوی الوتر ضعیف انتہی ما فی فتح المعین ، دیکھو اجلہ فقہاء کے قول سے مجیب کا جواب مذکور کیساصاف باطل ہوتا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب ،حررہ السید عبدالحفیظ عفی عنہ (سید محمد نذیرحسین)
فی الواقع احادیث صحیحہ سے گیارہ ہی رکعت تراویح وتر رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے جیسا کہ مجیب ثانی نے لکھا ہے اور کسی حدیث صحیح سے رسول اللہ ﷺ کا بیس رکعت تراو یح پڑھنا یا ا س سے زیادہ پڑھنا ہرگز ثابت نہیں اور بیس رکعت کی حدیث جو حنفیہ پیش کرتے ہیں وہ ضعیف و ناقابل احتجاج ہے اور باوجود ضعیف ہونے کے حضرت عائشہؓ کی گیارہ رکعت والی حدیث صحیح کے خلاف ہے ۔ علمائے حنفیہ نے بھی اس کی تصریح کی ہے۔ علامہ ابن الہمام فتح القدیر صفحہ 205 جلد 1 میں لکھتے ہیں۔ واما ماروی ابن ابی شیبۃ فی مصنفہ و الطبرانی و عنہ البیہقی من حدیث ابن عباس انہ علیہ السلام کان یصلی فی رمضان عشرین رکعۃ سوی الوتر فضعیف بابی شیبۃ ابراہیم بن عثمان جد الامام ابی بکر بن ابی شیبۃ متفق علی ضعفہ مع مخالفتہ للصحیح انتہی۔ یعنی جو ابن شیبہ نے مصنف میں اور طبرانی اور بیہقی نے ابن عباس کی حدیث سے روایت کی ہے کہ ’’رسول اللہ ﷺ رمضان میں بیس رکعت وتر کے سوا پڑھتے تھے سو یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اس کا راوی ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان جو امام ابوبکر ابن ابی شیبہ کا دادا ہے باتفاق ائمہ حدیث ضعیف ہےعلاوہ بریں یہ حدیث صحیح کے مخالف بھی ہے اورعلامہ عینی عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری صفحہ 358 جلد 2 میں لکھتے ہیں۔ فان قلت روی ابن ابی شیبۃ من حدیث ابن عباس کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یصلی فی رمضان عشرین رکعۃ والوتر قلت ھذا الحدیث رواہ ایضا ابوالقاسم البغوی فی معجم الصحابۃ قال حدثنا منصور بن مزاحم حدثنا ابو شیبۃ عن الحکم عن مقسم عن ابن عباس الحدیث و ابو شیبۃ ھو ابراہیم بن عثمان العبسی الکوفی قاضی واسطجد ابی بکر بن ابی شیبۃ کذبہ شعبۃ و ضعفہ احمد و ابن معین والبخاری والنسائی و غیرھم واوردلہ ابن عدی ھذا الحدیث فی الکامل فی مناکیرہ انتہی۔ یعنی اگر تم سوال کرو کہ ابن ابی شیبہ نے ابن عباس ؓ کی حدیث سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان میں بیس رکعت اور وتر پڑھتے تھے تو میں اس کے جواب میں کہوں گاکہ اس حدیث کو ابوالقاسم بغوی نےبھی معجم صحابہ میں روایت کیا ہے اور ابو شیبہ جو اس حدیث کا ایک راوی ہے اس کا نام ابراہیم بن عثمان ہے اور ابوبکر بن ابی شیبہ کا دادا ہے۔ شعبہ نے اس کو جھوٹا کہا ہے اور امام احمداور بخاری اور نسائی وغیرہم نے اس کو ضعیف کہا اور ابن عدی نے کامل میں اس حدیث کو ابو شیبہ کی منکر حدیثوں میں درج کیا ہے اورعلامہ زیلعی حنفی تخریج بدایہ صفحہ 293 جلد1 میں لکھتے ہیں: روی ابن ابی شیبۃ فی مصنفہ و الطبرانی و عنہ البیہقی من حدیث ابراہیم بن عثمان بن ابی شیبہ عن الحکم عن مقسم عن ابن عباس ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان یصلی فی رمضان عشرین رکعۃ سوی الوتر الی قولہ وھو معلول بابی شیبۃ ابراھیم بن عثمان جد الامام ابی بکر بن ابی شیبۃ وھو متفق علی ضعفہ ولینہ ابن عدی فی الکامل ثم انہ مخالف للحدیث الحصیح انتہی۔ یعنی ابن شیبہ نےمصنف میں اور طبرانی اور بیہقی نے ابراہیم بن عثمان ابو شیبہ کی حدیث سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ رمضان میں بیس رکعت پڑھتے تھے سوی وتر کے اور یہ حدیث معلول ہے یعنی ضعیف ہے اس وجہ سے کہ اس کاایک راوی ابو شیبہ ابراہیم بالاتفاق ضعیف ہے اور ابن عدی نے کامل میں اس کو ضعیف کہا ہے پھر باوجود ضعیف ہونےکے عائشہؓ کی حدیث صحیح کے مخالف ہے دیکھو علامہ ابن الہمام اور علامہ عینی اور حافظ زیلعی جیسے جلیل القدر حنفیہ نے پس رکعت والی حدیث کی کس طرح پر صاف صاف تضعیف کی ہے اور علاوہ ان علمائے حنفیہ کے علمائے محدثین نے بھی تضعیف کی ہے دیکھو تلخیص الجیر صفحہ 119 اور فتح الباری صفحہ317 جلد 2 اور نیل الاوطار صفحہ 299 جلد 2 حاصل یہ کہ احادیث صحیحہ سے رسول اللہ ﷺ کا گیارہ ہی رکعت تراویح پڑھنا ثابت ہے اور آپ کا بیس رکعت تراویح پڑھنا کسی حدیث صحیح سے ہرگز ہرگز ثابت نہیں اور بیس رکعت والی حدیث بالکل ضعیف اور غیرمعتبر ہے اس کے راوی ابو شیبہ کو شعبہ نے جھوٹا کہا ہے اور شعبہ کے سوا اور محدثین نے اس کو ضعیف وغیر معتبر بتایا ہے اور رسول اللہ ﷺ سے بیس رکعت سے زیادہ تراویح پڑھنے کی کوئی حدیث ہی نہیں آتی ہے نہ ضعییف اور نہ غیر ضعیف اور زمانہ رسول اللہ ﷺ میں کسی صحابی سے بھی بیس رکعت یا بیس رکعت سے زیادہ تراویح پڑھنا ہرگز ثابت نہیں ہے بلکہ صحابہؓ نے جو اپنی تراویح کی رکعتوں کی کبھی تصریح کی ہے تو اسیقدر جس قدر احادیث صحیحہ سے ثابت ہے یعنی آٹھ رکعت اور وتر۔ امام محمد بن نصر مروزی کی کتاب قیام الیل صفحہ 160 میں ہے ، وبہ عن جابر جاء ابی بن کعب فی رمضان فقال یا رسول اللہ کان اللیلۃ شئ قال وما ذاک یا ابی قال نسوۃ داری فلن انا لا نقوا القرآن فنصلی خلفک بصلوتک فصلیت بھن ثمان رکعات والوتر فسکت عنہ وکان شبہ الرضا۔ یعنی جابر ؓ سے روایت ہے کہ ابی بن کعب رمضان میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ ﷺ رات کو ایک بات ہوگئی ہے آپ نے فرمایا کونسی بات ہوگئی ہے اے اُبی انہوں نے عرض کیا کہ میرے گھر کی عورتوں نے کہا کہ ہم لوگ قرآن نہیں پڑھتے ہیں پس ہم لوگ تمہارے پیچھے نماز پڑھیں گے اور تمہاری اقتدا کریں گے تو میں نے ان کو آٹھ رکعت تراویح اور وتر پڑھائے پس رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر سکوت کیا اور گویا اس بات کو پسند فرمایا۔ ہمارے اتنے بیان سے صاف واضح ہے کہ مجیب اوّل کی یہ بات کہ ’’زمانہ رسول اللہ ﷺ میں ثبوت تراویح کا مختلف طور سے ہے بعض روایات سے آٹھ ثابت ہوتی ہیں اور بعض سے بیس سےزیادہ ثابت ہوتی ہیں‘‘ غلط بات ہے اور فی الواقع خلفائے راشدین میں سے بجز حضرت عمرؓ کے اور کسی سے صحیح سند سے کچھ ثابت نہیں کہ وہ حضرات کے رکعت تراویح پڑھتےتھے یا کے رکعت تراویح پڑھانے کا حکم فرماتے تھے ہاں حضرت عمرؓ سے بسند صحیح ثابت ہے کہ آپ گیارہ رکعت تراویح پڑھانے کا حکم فرماتے تھے جیسا کہ مجیب ثانی نے موطا کی بہت صحیح روایت سے اس کو ثابت کیاہے اور امام بیہقی کی کتاب معرفۃ السنن والآثار میں ہے: قال الشافعی اخبرنا مالک عن محمد بن یوسف عن السائب ابن یزید قال امر عمر بن الخطاب ابی بن کعب ابن بن کعب و تمیما الداری ان یقوم للناس باحدی عشرۃ رکعۃ الحدیث ، یعنی سائب بن یزید سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو حکم دیا کہ گیارہ رکعت تراویح لوگوں کو پڑھایا کریں۔ اور اسی طرح پر امام محمد بن نصر مروزی کی کتاب قیام اللیل صفحہ 162 میں بھی ہے اور زمانہ عمر بن الخطاب میں حسب حکم حضرت عمرؓ کے عموماً تمام لوگ گیارہ ہی رکعت تراویح پڑھتے تھےچنانچہ حافظ جلال الدین سیوطی اپنے رسالہ المصابیح صفحہ 19 فی صلوۃ التراویح میں لکھتے ہیں کہ سنن سعید بن منصور میں ہے۔ حدثنا عبدالعزیز بن محمد حدثنی محمد بن یوسف سمعت السائب بن یزید یقول کنا نقوم فی زمان عمر بن الخطاب باحدی عشرہ رکعۃ الحدیث۔ یعنی سائب بن یزید کہتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں گیارہ رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے ، حافظ سیوطی اس روایت کی سند کی نسبت لکھتے ہیں ، سندہ فی غایۃ الصحۃ یعنی اس روایت کی سند نہایت صحیح ہے دیکھو نہایت صحیح سند سے ثابت ہوا کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں عموماً تمام لوگ حضرت عمرؓ کے حکم سے گیارہ ہی رکعت تراویح پڑھتے تھے رہی یہ بات کہ حضرت عمرؓ خود کے رکعت تراویح پڑھتے تھے ، سو بالکل ظاہر ہے کہ جب آپ اوروں کو گیارہ رکعت پڑھنے کا حکم فرماتے تھے تو خود بھی گیارہ ہی رکعت پڑھتے رہے ہوں گے اور مجیب اوّل نے جو موطا سے یہ روایت نقل کی ہے۔ عن یزید بن رومان قال کان الناس یقومون فی زمن عمر بن الخطاب بثلاث و عشرین رکعۃ ، یعنی یزید بن رومان سے روایت ہے کہ لوگ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں تیئس رکعت تراویح پڑھتے تھے ۔ سو یہ روایت منقطع ہے اس وجہ سے ضعیف وغیر معتبر ہے علمائے حنفیہ نے بھی اس روایت کے منقطع ہونے کی تصریح کی ہے علامہ عینی حنفی عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری صفحہ 408 جلد 2 میں لکھتے ہیں ویزید لم یدرک عمر ففیہ انقطاع یعنی یزید بن رومان نے حضرت عمرؓ کا زمانہ نہیں پایا ، پس اس کی سند منقطع ہے و نیز اسی کتاب کے صفحہ 356 جلد5 میں لکھتے ہیں :رواہ مالک فی الموطا باسناد منقطع یعنی امام مالک نے اس کو موطا میں سند منقطع سے روایت کیاہے اور حافظ زیلعی نے بھی اس میں حضرت عمرؓ کے حکم سے عموماً تمام لوگوں کا گیارہ رکعت تراویح پڑھنا نہایت صحیح سند سے ثابت ہے اور آپ کے زمانہ میں آپ کے حکم سے عموماً تمام لوگوں کو تیئس رکعت مع وتر پڑھنا ہرگز ہرگز کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے ہمارے اتنے بیان سے صاف واضح ہوگیا کہ مجیب اوّل کی یہ بات کہ ’’زمانہ حضرت عمرؓ کے ارشاد کے موافق بیس رکعت پر اجماع ہوگیا ‘‘ بالکل غلط ہے اور گیارہ رکعت تراویح کے قائلین کی نسبت مجیب اوّل نے جو تعریضاً ایک بے جا اور ناملایم تقریر لکھی ہے وہ خود انہیں پر اور ان کے ہم خیالوں پر عاود ہوگئی۔ کتبہ محمد عبدالرحمٰن المبارکفوری عفاء اللہ عنہ۔
[1] تم میری سنت اور خلفائے مہدیین کی سنت پرعمل کرنا۔
[2] یزید بن رومان نے کہا ، حضرت عمر بن خطاب کے زمانے میں لوگ تئیس رکعت پڑھا کرتے تھے۔
[3] جو الگ ہوا وہ جہنم میں گیا۔
[4] ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے عائشہؓ سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز رمضان میں کیسے ہوا کرتی تھی آپ نے کہا رمضان ہو یا غیر رمضان آپؐ کی نماز گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔