علمائے دین اس مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں کہ ایک شہر میں باوجود ایسی عیدگاہ تیار ہونےکے کہ سارے شہر کے نمازیوں کی اس میں بخوبی گنجائش ہے پھر بھی نماز عید بعض لوگ عید گاہ میں پڑھتے ہیں اور بعض مسجد میں ، پس ان میں افضل و بہتر کون سا طریقہ ہے ۔بینوا بالتفصیل توجروا بالا جرالجریل۔
وہو الموفق للصواب، شہر کے سب مسلمانوں کی نماز عیدین پڑھنا عیدگاہ میں بہتر اور افضل ہے، بشرطیکہ کوئی عذر شرعی مثل بارش و برد شدید و ضعف پیری و بیماری وغیرہ کے نہ رکھتے ہوں اور اس میں کئی خوبیاں مخصوص ایسی ہیں کہ کوئی ان میں سے اور جگہ نماز پڑھنے میں حاصل نہ ہوگی، پہلے تو اتباع آنحضرتﷺ اور پیروی خلفاء راشدین کی ، اس واسطے کہ آپ ہمیشہ مع صحابہ کرام باوجود گنجائش مسجد نبوی کے نماز عیدین عید گاہ میں ادا فرماتے تھے، جیسا کہ احادیث صحاح سے ثابت ہے، وکان[1] النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوم الفطر والاضحی الی المصلی ای الی الجبانۃ وھی الصحر اء خارج المدینۃ و مسیرتھا من الحجرۃ الشریفۃ الف خطوۃ۔مگر ایک مرتبہ آپ نےبوجہ بارش شدید کے نماز عید مسجد نبوی میں ادا فرمائی تھی، چنانچہ حدیث شریف میں وارد ہے۔ انہ[2] اصابھم مطرفی یوم عید فصلی بھم النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلوۃ العید فی المسجد رواہ ابوداؤد و ابن ماجۃ اور آپ کو جب رؤیت ہلال شوال کی خبر پہنچی تو آپ نے روزے افطار کرائے اور صبح کو عیدگاہ جانے کا حکم فرمایا ،جیسا کہ ابوداد اور نسائی میں مروی ہے۔ فامر ھم ان یفطروا و اذا اصبحوا ان یغدوا الی مصلاھم اور شرح السنۃ میں مرقوم ہے۔ ان یخرج الامام لصلوۃ العید الی الجبانۃ اور فرمایا ابن ہمام نےسنت یہ ہے کہ نکلے امام عید گاہ کی طرف اور کسی کو اپنا خلیفہ کر جائے تاکہ وہ ضعیفوں اور معذوروں کو شہر میں نماز پڑھائے۔ وھکذا[3] فی الخلاصۃ و الخانیۃ السنۃ ان یخرج الامام الی الجبانۃ یستخلف غیرہ لیصلی فی المصر بالضعفاء اور اسی طرح خروج الی الجبانہ کا مسنون ہونا کتب فقہ معتبرہ مثل در مختار و ہدایہ و کنز و عالمگیری وغیرہ میں لکھا ہے۔فمن شاء الاطلاع علیہا فلیرجع الیھا۔ اور ابن حجرعسقلانی نے فرمایا کہ حکم خروج الی الجبانہ کا واسطے امام کے سوائے مسجد اقصے اورمسجد حرام کے ہے اس لیے کہ یہ دونوں مسجدیں یعنی بیت المقدس اور مکہ معظمہ کی عید گاہ سے افضل ہیں اور سوا ان کے عید گاہ مساجد دیگر سے افضل ہے، حتیٰ کہ مسجدنبوی سے بھی ، ورنہ آنحضرتﷺ اپنی مسجد چھوڑ کے عید گاہ تشریف نہ لےجاتے، بہرحال عیدگاہ میں نماز پڑھنا سنت ٹھہرا اور تارک اس کا تارک سنت ہوا جیسا کہ طحطاوی حاشیہ درمختار میں مرقوم ہے ۔فلو لم یتوجہ الیھا فقد ترک السنۃ اور تارک سنت بلا عذر شرعی ملعون اور محروم الشفاعت اور قابل ملامت وعتاب و مستحق عذاب و ضلالت ہے، اس واسطے کہ آنحضرتﷺ نے اس پر لعنت فرمائی ہے، کما ورد فی الحدیث ستۃ لعنتھم ولعنہم اللہ و کل نبی یجاب یعنی چھ شخصوں پر لعنت کی میں نے اور اللہ نے اور ہر نبی مستجاب الدعوات ہے، منجملہ ان کے چھٹا شخص آپ نے فرمایا ، والتارک لسنتی، فرمایا ملا علی قاری نے اس کی شرح میں لکھا ہے ،تکاسلاعاص و استخفافا کافر یعنی جو کوئی از راہ سستی کے سنت کو چھوڑے وہ گنہگار ہے اور جو مختصر سمجھ کر اس کو ترک کرے وہ کافر ہے ، عیاذا باللہ من ہذا الوعید۔ وفی[4] الصبح الصادق شرح المنارا انہ یستوجب لو ما فی الدنیا و حرمان الشفاعۃ فی العقبی لمارودہ مرفوعا من ترک سنتی لم ینل شفاعتی وفی شرحہ فتح الغفار و تارکھا یستوجب اساء ۃ ای التضلیل واللوم و فی غایۃ البیان السنۃ ما فی فعلہ ثواب و ترکہ عقاب و فی التلویح ترک السنۃ المؤکدۃ قریب من الحرام یستحق حرمان الشفاعۃ وفی رد المختار حاشیۃ درالمختار الاصح انہ یا ثم بترک السنۃ المؤکدہ کالواجب ، حق تعالیٰ ہم سب کو طریق مسنونہ پر چلا دے اور مواخذہ ترک سنت سے بچا دے۔
دوسرے کثرت جماعت کا ثواب بے حساب ہے اس واسطے کہ نماز جماعت کا ثواب اکیلے کی نماز سے پچیس حصے زیادہ ہوتا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا صلوۃ الجمعۃ تفضل صلوۃ الفذ بخمس و عشرین درجۃ رواہ البخاری و مسلم اور بعض روایات میں ستائیس درجے آیا ہے بہرحال یہ ثواب جماعت کا اقل عدد جماعت س حاصل ہوتا ہے کہ وہ امام اعظم اور امام محمد کے نزدیک سوائے امام کے تین شخص ہیں اور امام ابویوسف کے نزدیک دو شخص وار جس قدر اس پر زیادہ ہوں گے اسی حساب سے ثواب بھی بڑھتا جائے گا ظاہر ہے کہ جوگنجائش کثرت جماعت کی میدان عید گاہ میں ہوگی وہ کسی مسجد میں ممکن نہیں پس ثواب نماز عیدگاہ کا بسبب زیادہ ہونے نمازیوں کے زیادہ ہوگا جیسا کہ تنویرالحوالک شرح موطا امام مالک میں برروایت ابن عباس مروی ہے:
(ترجمہ) ’’ جماعت کی نماز کاثواب اکیلے کی نماز سے پچیس گناہ زیادہ ہوتا ہے اور اگرآدمی زیادہ ہوں تو ان کی تعداد کے مطابق ثواب بڑھتا ہے کسی نے کہا اگر بالفرض دس ہزار نمازیں ہوں تو دس ہزار گنا ثواب ملے گا؟انہوں نے کہا اگرچہ چالیس ہزار ہوں یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ پچیس گنا اجر سب سے کم درجہ جماعت پرملتا ہے اور نمازیوں کے بڑھ جانے سے بڑھ جاتا ہے۔‘‘
نظر بر آن اگر سب مساجد شہر کی جماعتیں ٹوٹ کر عیدگاہ جائیںتو کس قدر کثرت جماعت سے ثواب بے حساب اور اجر کثیر پائیں۔
تیسرے فی نفسہ عید گاہ میں نماز پڑھنے کا بہت ثواب ہے اس واسطے کہ موافق اس حدیث کے صلوۃ فی مسجدی ھذا خیر من الف صلوۃ فیما سواہ الاالمسجد الحرام۔ مسجد نبوی کی ایک نماز کاثواب سوائے نماز مسجد کعبہ کے اور مساجد کی ہزار نمازوں سے افضل اور بڑھ کر ہے مثلاً دو رکعتیں عید کی مسجد نبوی میں پڑھی جائیں تو دو ہزار رکعت کاثواب ملے گا پھر باایں ہمہ افضلیت و کثرت ثواب کے آنحضرت ﷺ مسجدنبوی کو چھوڑ کر عیدگاہ میں نماز پڑھتے تھے تو بیشک یہاں ان دو رکعتوں کا ثواب دو ہزار رکعت سےبھی زیادہ ہوگا اور اجر کثیر ملے گا۔
چوتھے جو شخص محض اتباع سنت نبوی عیدگاہ جائے گا یقینی وہ سو شہیدوں کاثواب کہ حدیث شریف میں وارد ہے من تمسک بسنتی عند فساد امتی فلہ اجر مأیۃ شھید۔
پانچویں جو کوئی بھائی مسلمانوں کو عید گاہ کی طرف بلائے گا وہ برابر ان لوگوں کے ثواب پائے گا جو اس نیک کام میں اس کے تابع ہوئے ہیں چنانچہ مسلم میں حدیث وارد ہے۔ من دعا الی الھدی کان لہ من الاجرمثل اجور من تبعہ لا ینقص ذلک من اجورھم شیئا اورمضمون حدیث من دل علی خیرفلہ اجرمثل فاعلہ کا بھی اسی پر دلالت کرتا ہے۔
چھٹے جو کوئی واسطے نماز کے جس قدر دور سے چل کر آئے گا اتنا ہی ثواب زیادہ پائے گا کہ حدیث شریف میں وارد ہے۔ اعظم الناس اجر ا فی الصلوۃ البعدھم فابعدھم ممشی۔ یعنی بڑا لوگوں میں از روئے ثواب کے نماز میں جو دور ان کا ہے پھر دور ان کا ہے چلنے میں یعنی جس کا گھر دور ہومسجد سے بلکہ نماز کے واسطے جس قدر زیادہ چلنا ہوگا ہر ہر قدم پر ایک ایک درجہ ثواب کا بڑھتا جائے گا اور ایک ایک گناہ اس کامٹتا جائے گا۔ چنانچہ حدیث میں وارد ہے من یذھب الی المصلی لم یخط خطوۃ الارفعہ اللہ بھا درجۃ وحط عنہ بھا خطیئۃ۔پس ظاہر ہے کہ عید گاہ جو باہر آبادی سے ہوتی ہے لا محالہ بہ نسبت مساجد شہر کے دور ہوگی۔پس ثواب اس کا بہ سبب زیادہ ہونے بعد مسافت اور قدموں کے بھی زیادہ ہوگا۔
ساتویں ایک جگہ شہر کے کنارے عید گاہ میں سب دیندار بھائی جمع ہوکر نماز پڑھیں گے تو کس قدر شوکت و شان و دینی اور ترقی و رونق اسلامی ظاہر ہوگی اور کیسا کچھ مسلمانوں میں اتفاق اور اتحاد باہمی ایک دوسرے کی ملاقات سے بڑھے گا اور اظہار فرحت و سرور ہوگا کہ یہ باعث ہےنزول انوار رحمت کا اور سبب ہے حصول خیر و برکت کا اور وسیلہ ہے قبول حاجات کا اور ذریعہ ہے اجابت دعوات کا کہ حق تعالیٰ اس روز اپنے بندوں کی طرف جو عیدگاہ میں جاتے ہیں متوجہ ہوجاتا ہے کہ انہوں نے تمام ماہ رمضان کے روزے رکھے اور ہماری اطاعت کی آج کا دن ان کی مزدوری لینے کا ہے جو یہ مانگیں میں دوں گا اور ان کی دعاؤں کو قبول کروں گا ۔ واللہ اعلم بالصواب و عندہ علم الکتاب۔ حررہ العید الاآسی محمد المدعو لعبد العلی المدراسی تجاوز اللہ عن جمیع المعاصی۔
مااحسن ہذا التقریر المتضمن للخیر الکثیر فی الواقع عیدگاہ میں نماز عیدین ادا کرنا سنت ہے اور ترک اس کا بلا عذر شرعی باعث ملامت ہے حق جل شانہ اہل اسلام کو توفیق اس سنت کے اجرا کی دیوے اور مخالفت سنت سے محفوظ رکھے ۔حررہ الراجی عفوریہ القوی ابوالحسنات محمد عبدالحی تجاوز اللہ عن ذنبہ الجلی والحنفی۔ (ابوالحسنات محمد عبدالحی 1289)
حامداً و مصلیاً مسلمان دیندار پر واضح ہو کہ سنت رسول اللہﷺ یہی ہے کہ نماز عیدین باہر نکل کر عیدگاہ میں پڑھنی چاہیے۔لقد[5] کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ الایۃ ومن یطع الرسول فقد اطاع اللہ الایۃ۔ اس لیے تعامل خلفائے راشدین و دیگر صحابہ کرام و تابعین و مجتہدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اسی پرچلا آیا بنا بر اس کے تمامی فقہائے مقدمین و متاخرین لکھتے چلے آتے ہیں کہ باہر جاکر جبانہ یعنی عیدگاہمیں نماز اداکرنا سنت و شعائر اسلام سے ہے اگرچہ جامع مسجد گنجائش نماز کی رکھتی ہو۔ والخروج[6] الیھا ای الجبانۃ لصلوٰۃ العید سنۃ وان وسعھم المسجد الجامع الی اخرما فی تنویر الابصار والدر المختار والکنز والھدایہ۔ وغیرھا من التون والشروح و الفتاوی۔ واللہ اعلم الراقم العاجز سید محمد نذیر حسین عفی عنہ (سید محمد نذیر حسین 1281)
[1] آنحضرتﷺ عید الفطر اور عیدالاضحیٰ کے دن عیدگاہ کی طرف نکلتے ، مدینہ سے باہر جاتے اور وہ حجرہ شریفہ سے ایک ہزار قدم کا فاصلہ رکھتی تھی۔
[2] ایک دفعہ عید کے دن بارش ہوگئی تو نبی ﷺ نے عید کی نماز مسجد میں پڑھائی۔
[3] خلاصہ اور خانیہ میں ہے کہ سنت یہ ہے کہ امام عیدگاہ کی طرف باہر نکلے اور پیچھے کسی آدمی کو مقرر کردے جو کمزور اور معذور لوگوں کونماز پڑھائے۔
[4] صبح صادق شرح المنار میں ہے کہ اس سے دنیا میں ملامت اور آخرت میں شفاعت سے محرومی نصیب ہوگی کیونکہ مرفوع حدیث میں ہے کہ جس نے میری سنت چھوڑ دی اسے میری شفاعت سے حصہ نہ ملے گا شرح غفار میں ہے سنت کا تارک سزا اور ملامت کا مستحق ہے غایۃ البیان میں ہے سنت وہ جس کے کرنے میں ثواب ہے اور چھوڑنے پر عتاب ہے۔ تلویح میں ہے سنت مؤکدہ کا چھوڑنا حرام کے قریب ہے اس سے شفاعت سے محرومی نصیب ہوتی ہے ۔ ردالمختار میں ہے صحیح یہ ہے ک ہسنت مؤکدہ کے چھوڑنے سے آدمی ایسا ہی گنہگار ہوتا ہے جیساکہ واجب کے چھوڑنے سے۔
[5] تمہارے لیے اللہ کے رسولﷺ میں ایک بہترین نمونہ ہے۔الایہ اور جس نے رسول کی پیروی کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔
[6] عید کی نماز کے لیےعید گاہ کی طرف باہرنکلنا سنت ہے اگرچہ جامع مسجد میں تمام لوگ سما سکتے ہوں۔ تنویر الابصار رد المختار۔ کنز۔ہدایہ وغیرہ ۔متون و شروح اور فتاوی میں ایسا ہی ہے۔