سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(190) کرخی کے قول کےمطابق فتویٰ دینا چاہیے یا بلخی کے مطابق۔؟

  • 5697
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1027

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

احقر العباد سلیم الدین و عبادالحق علمائے محققین کی خدمت میں   التماس کرتے ہیں کہ بعضے  عالموں نے اس علاقہ میں   عدم فرضیت جمعہ کافتوے دے رکھا ہے اور اس وجہ سے  بہت سے عوام نے جمعہ چھوڑ دیا اور وہ استدلال میں   ہدایہ کی یہ عبارت پیش کرتے ہیں کہ جمعہ مصر جامع یا شہر کی عید گاہ کے علاوہ جائز نہیں اور بستیوں میں   جمعہ نہ پڑھنا چاہیے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ جمعہ ، تشریق، عبدالفطر اور عیدالاضحیٰ مصر جامع کے سوا جائز نہیں ہے اور مصر جامع ہروہ مقام ہے جہاں کوئی امیر اور قاضی ہو جواحکام جاری کرے اور حدود قائم کرے ۔ یہ امام ابویوسف کا مذہب ہے اور امام صاحب کے نزدیک مصر جامع وہ ہے کہ اگر وہاں کے رہنے والے سب سے بڑی مسجد میں   جمع ہوں تو اس میں   سما نہ سکیں، ابویوسف کے مذہب کو کرخی نے اختیارکیا ہے اور دوسرے کوبلخی نے۔

پس کرخی کی روایت کی بناء پر آج علماء عدم جمعہ کا فتویٰ دے رہے ہیں، جس کی وجہ سے لوگ جمعہ چھوڑ رہے ہیں اور بلخی کی روایت کو اختیار نہیں کرتے،  حالانکہ صاحب شرح وقایہ و درمختار نے بلخی کے پسندیدہ قول کو پسند کیا ہے اور متاخرین میں   سے اکثر کا مذہب یہی بیان کیا گیا ہے اس سےقطع نظر جمعہ کی فرضیت آیت قرآن سے ثابت ہے اور اصول فقہ کی کتابوں مثلاً اصول شاشی،نور الانوار اور توضیح میں   یہ اصول مقررکیا گیا ہے کہ خبر واحد قرآن کی مخصص نہیں ہوسکتی اور یہاں اپنے ہی اصول کے برخلاف ان شرائط کو جو مرفوع حدیث بھی نہیں ہیں کیونکہ قرآن کا مخصص قرار دیا گیا ہے ، فرمایا جائے اس ملک میں   کرخی کے قول کےمطابق فتویٰ دینا چاہیے یا بلخی کے مطابق۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

جاننا چاہیئے  کہ جمعہ ادا کرنے کے لیے احناف کے نزدیک چھ شرطیں ہیں، شہر یا اس کا میدان، وجود سلطان، وقت ظہر ،خطبہ جمعہ بقدر ایک تسبیح، جماعت اور کم از کم امام کے علاوہ تین آدمی ہوں، ہندوستان کے تمام علاقہ میں   جمعہ کی فرضیت یا عدم فرضیت کا اختلاف کرخی کی روایت کے مطابق ہے،پس جس جگہ کرخی کے مسلک کے مطابق مصر (شہر) کی تعریف صادق آئے گی ، وہاں جمعہ درست ہوگا اور جہاں وہ تعریف صادق نہ آئے گی وہاں جمعہ درست نہ ہوگا، حالانکہ جمعہ مطلقاً فرض ہے، اس میں   مصر اور سلطان کی کوئی شرط نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’جب جمعہ کی نماز کے لیے اذان ہو، تو ایماندار و اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ کر آؤ‘‘ اور جمعہ کی فرضیت پر اجماع  واقع ہے اور مصر اور وجود سلطان کی شرائط ظنی اور مختلف فیہ ہیں اور امر ظنی امر قطعی کامعارض نہیں ہوسکتا اور پھر اگر ظنی بھی مختلف فیہ ہو تو اس کی کیا حیثیت ہے کہ اکثر ائمہ کے نزدیک ان شراوط کا اعتبار نہیں ہے اور اسی بناء پر انہوں نے دیہات میں   جمعہ کافتویٰ دیا ہے اور ان کی دلیل اسعد بن زرارہ کی حدیث ہےکہ انہوں نے آنحضرتﷺ کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے حضور کے حکم سے مدینہ میں   جمعہ پڑھایا، تفسیر نیشاپوری،بحرالرائق اور شمنی وغیرہ سے یہی مستفاد ہوتا ہے، مولانا اسلام اللہ محلی میں   لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سوموار کو مدینہ منورہ میں   رونق افروز ہوئے چارروز بنی عمرو بن عوف کے پاس گزارے اور جمعہ کے دن بنی عمرو سے بنی سالم کی طرف آئے اورمسجد بنی سالم میں   جوکہ وادی کے متصل تھی جمعہ کی  نماز ادا فرمائی ابھی مسجد نبوی کی تعمیر نہیں ہوئی تھی اہل اسلام کا مدینہ پر پوراتسلط نہیں تھا ۔ تنفیذ احکام و اجرائے حدود تودرکنار ابھی حدود کا وجو دبھی نہ تھا پس اس صورت میں   بلخی کامسلک اختیارکرنا ضروری ہے جو کہ واقعہ کے مناسب ہے اور اکثر شہروں اور قصبوں میں   اس سے جمعہ پڑھا جاسکتا ہے جمعہ اسلام کے عمدہ شعائر سے ہے اور کرخی کے مسلک سے یہ درہم   برہم ہوجاتا ہے۔لہٰذا اکثر متاخرین فقہاء نے بلخی کامسلک اختیار کیاہے مولاناعبدالعلیٰ نے کرخی کے مسلک پرایک عمدہ تبصرہ فرمایا ہے ۔ملاحظہ فرمائیں: جمعہ کی فرضیت کے لیےایک تو مصر کی شرط ہے اور شہر وہ ہے جس کی سب سے بڑی مسجد میں   اس کے رہنے والے  نہ سما سکیں اسی پر اکثر فقہاء نے فتویٰ دیا ہے کیونکہ آج کل احکام میں   سستی پائی جاتی ہے۔

اس کے متعلق ہمارے  مذہب کی روایات میں   اختلاف ہے ظاہرروایت یہ ہے کہ شہر وہ ہے جس میں   کوئی امام یا قاضی ہو جو حدود قائم کرسکے۔ فتح القدیر میں   ہے شہر وہ ہے جس میں   کوچے اور بازار ہوں ، جس میں   حاکم ہو جو ظالم سے مظلوم کو انصاف دلا سکے جس میں   کوئی بڑا عالم ہو جو مساول پیش آمدہ میں    فتویٰ دے سکے اور یہ اس سےخاص ہے۔ حضرت علی ؓ کے قول لا جمعۃ ولاتشریق الخ کے جس کو عبدالرزاق نےبیان کیاہے،یہی دو مطلب بیان کئے گئے ہیں تو مصر جامع  وہ ہے جس میں   یہ صفات پائی جائیں پہلی تفسیر کے مطابق جس شہر کا والی کافر ہو اس میں   جمعہ فرض نہ رہے گا اور یہ دونوں شرطیں مردود ہیں، صحابہ نے یزید کے زمانہ میں   جمعہ نہ چھوڑا حالانکہ اس کے ظالم ہونے  میں   کوئی شک ہی نہیں ہے اس نے اہل بیت کی حرمت ختم کی۔مدینہ پر چڑھائی ، خانہ کعبہ پرگولے برسائے ، کیا اس کے ظالم ہونے میں   شک ہے؟ اور پھر صحابہ نے  ان دنوں میں   جمعہ کیوں نہ چھوڑ دیا اب اگر صرف اس بنا پر بلخی کی روایت قبول ہے کہ لوگوں میں   سستی پیدا ہوچکی ہےاور مظلوم کا ظالم سے انصاف نہیں دلایاجاتا تو ہم کہتے ہیں کہ یہ سستی اور بے انصافی تو امیر معاویہ کے بعد بنو امیہ کے دور میں   شروع ہوچکی تھی سوائے عمر بن عبدالعزیز کے اور پھر عباسی خاندان میں   بھی رہی تو کیا کسی صحابی یا تابعی یا تبع تابع نے کبھی جمعہ چھوڑا؟ معلوم ہواکہ یہ دونوں شرطیں غلط ہیں اور ایک شرط بادشاہ کی لگائی گئی ہے یا اس کے امیر کی اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اگر یہ  نہ ہوئے تو ممکن  ہے جمعہ پڑھانے کے متعلق اختلاف اور جھگڑا پیدا ہوجائے۔ ایک عالم کہے کہ میں   جمعہ پڑھاؤں گا اور دوسرا کہے میں   جمعہ پڑھاؤں گا لیکن یہ اختلاف تو عام جماعتوں میں   بھی ہوسکتا ہے ۔ وہاں بادشاہ یا امیرکی شرط کیوں نہیں لگائی گئی اس کا حل یہ سوچ لیا گیا ہے کہ جس امام کو لوگ متفق ہوکر امام بنالیں وہ جماعت کرائے تو یہی فیصلہ جمعہ کےمتعلق بھی ہوسکتا ہے اور پھر حضرت عثمان کا جب محاصرہ ہوگیا تھا اس وقت جمعہ چھوڑ دینا چاہیے تھا لیکن صحابہ نے نہیں چھوڑا بلکہ حضرت عثمان سے اجازت بھی نہیں لی گئی اور  جمعہ ہوتارہا رہی وجہ ہے کہ شوافع نے بادشاہ یا اس کے امیر کی شرط نہیں رکھی یہ شرط صرف حنفیہ کے نزدیک ہے عالمگیری اور تہذیب میں   بھی اسی طرح ہے۔

 مولانا کی مندرجہ بالا تقریر سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ کرخی کے مسلک کے مطابق مصر یا بادشاہ کی جو شرطیں لگائی گئی ہیں یہ صحیح نہیں ہے کہ ان کے فقدان سے جمعہ نہ پڑھا جائے اور پھر یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ سلاطین سابقہ نے جمعہ کے ادا کرنے کے لیے اماموں اور قاضیوں کونسلاً بعد نسل اجازت دے رکھی ہے ہر وقت نئی اجازت کی ضرورت نہیں۔

عبدالرزاق نے ابن سیرین سے بسند صحیح روایت کیا ہے کہ مدینہ والوں نے نبیﷺ کےمدینہ آنے سے پہلے اور سورۃ جمعہ نازل ہونے سے پہلے مدینہ میں   جمعہ پڑھا اس طرح  کہ انصار اسعد بن زرارہ کے پاس جمع ہوئے اور کہنے لگے کہ یہودیوں نےبھی ایک دن عبادت کے لیے مقرر کررکھا ہے کہ اس میں   تورات پڑھتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں اور نصاریٰ نے بھی ایسا ہی کررکھا ہے ہم کو بھی کوئی دن مقرر کرنا چاہیے کہ جس میں   ہم خدا کی عبادت کریں حمد کریں اورشکر ادا کریں چنانچہ انہوں نے ’’یوم العروبہ‘‘ کو عبادت کادن مقرر کرلیا اوربعدازاں اسی دن کا نام ’’یوم الجمعہ‘‘ ہوگیا۔اسعد بن زرارہ نے ان کو دور کعت نماز پڑھائی اور بعد ازاں خدا تعالیٰ نے سورۃ جمعہ نازل فرمائی اگرچہ یہ حدیث مرسل ہے لیکن اس کا ایک شاہد ابوداؤد میں   حدیث حسن موجود ہے۔ حافظ ابن حجر  نے کہا ہوسکتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے جمعہ کا حکم وحی کے ذریعہ مکہ  میں   معلوم کرلیا ہو لیکن وہاں آپ جمعہ قائم نہ کرسکے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے مدینہ آتے ہی پہلا جمعہ پڑھایا ، اسے ضائع نہیں ہونے دیا اور اس پر  دارقطنی کی عبداللہ بن عباس سے نقل کردہ حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ ہی میں   مصعب عمیر کو حکم بھیج دیاتھا کہ جمعہ پڑھیں، عورتوں اور بچوں کو جمع کریں جب سورج ڈھل جائے تو دو رکعت نماز پڑھیں یہ سب سے پہلا جمعہ تھا جو مدینہ میں   پڑھا گیا ۔ محل شرح مؤطا کا خلاصہ ختم ہوا۔

تفسیر نیشاپوری میں   ہے کہ سب سے پہلے انصار نے اسعد بن زرارہ کے ماتحت جمعہ پڑھا اور پھر نبی اکرم ﷺ نےمدینہ آتے ہی سب سے پہلے جمعہ بنی سالم کے پاس بطن وادی میں   پڑھایا۔ تفسیر بیضاوی میں   اسی طرح ہے اس صحیح واقعہ سےمعلوم ہواکہ جب مدینہ میں   جمعہ کی ابتداء ہوئی اس وقت مدینہ میں   مسلمانوں کا غلبہ نہیں تھااور  حدود و قصاص کا اجرا نہیں تھا لیکن اس کے باوجود جمعہ پڑھا گیا تو اس صورت میں   بلخی کی روایت ہی قابل اعتماد معلوم ہوتی ہے اسی کو اختیار کرنا چاہیے اور اگر ان شرائط کو بفرض محال صحیح بھی تسلیم کرلیاجائے تو ایک شرط کے ارتفاع سے ایک حکم قطعی کیسے اُٹھ جائے گا۔

فتح القدیر میں   اس پر دلائل قائم کئے ہیں اور تفصیل سے کئے ہیں اور اس کے بعد لکھا ہےکہ ہم نے اس کو تفصیل سے بیان کیا ہے ، کیونکہ  سننے میں   آتا ہے کہ بعض جاہل لوگ جمعہ کی عدم فرضیت اور امام ابوحنیفہ کی طرف منسوب کرتے ہیں اور ان کو قدوری کی عبارت  سے ٹھوکر لگی کہ اس نے لکھا ہے کہ جو آدمی ظہر پڑھ لے ، تو ظہر صحیح ہے کیونکہ فرض کو چھوڑناحرام ہے اور ہمارےاصحاب نے تصریح کی ہے کہ جمعہ فرض ہے اور یہ مؤکد تر ہے ظہر سے اور اس کامنکر کافر ہے ۔ میں   کہتا ہوں کہ ہمارے زمانے کے جہلاء بھی ایسے ہی ہیں ان کی جہالت دیکھئے کہ جمعہ کے بعد چار رکعت ظہر کی نیت سے پڑھتے ہیں اس کو بعض متاخرین نے جمعہ میں   شک کی وجہ سے ایجاد کیا ہے کہ ایک ہی شہر میں   متعدد جمعے نہیں ہونے چاہیئیں اور یہ قول مختار نہیں ہے اور یہ احتیاطی کی چار رکعت پڑھنا نہ تو امام صاحب سےمروی ہے اور نہ صاحبین سے۔

اور اس کے علماء و فقہاء نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کفار کاغلبہ ہو  ،یا  والی مرگیا ہو، یافتنہ کی وجہ سے وہ ظاہر نہ ہوسکتا ہو،تو مسلمانوں کو چاہیے کہ مقامی طور پر کسی کو اپنا امیر، امام، یا قاضی مقرر کرلیں اور اس کی سرکردگی میں   جمعہ اور عیدین ادا کریں، مفتاح السعادت ،طحطاوی اور رد المختار میں   بھی ایسا ہی ہے ،پس ان روایات سے ثابت ہوا کہ جمعہ بہرحال ادا کرنا چاہیے کیونکہ وہ عمدہ شعائر اسلامی ہے، اس صورت میں   علماء کافرض ہے کہ فرضیت جمعہ کے دلائل پر غور فرمائیں اور بلخی کے مسلک کے مطابق جمعہ ادا کرنےکا حکم دیں ، کہ یہ روایت شرعی دلائل کے مؤید ہے۔

نماز جمعہ کو دشمنان دین کے شبہات کی وجہ سے بالکل ترک نہیں کرنا چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو آدمی بغیر عذر کے تین جمعے چھوڑ دے اللہ تعالیٰ اسکے دل پرمہر  کردیتے ہیں، پس اس وعید شدید کی بنا پرکرخی کی روایت کو چھوڑ کر بلخی کی روایت پر عمل کرنا چاہیے کہ اکر فقہاء کافتویٰ اسی پر ہے  کہ شہر وہ ہے جسکے رہنے والے سب سےبڑی مسجد میں   نہ سما سکیں۔ در مختار میں   بھی ایسا ہی لکھا ہے، بعض نے شہر کی یہ تعریف کی ہے کہ وہاں ہر طرح کے پیشہ ور آدمی موجود ہوں، اور سال بھر تک اپنے پیشے ہی سے روزی کما سکتیں ،کسی  اور پیشہ کے محتاج نہ ہوں ، بدائع، شرح وقایہ، مستخلص، فتاویٰ قاضی خاں، سراجیہ،حمادیہ، قنیہ وغیرہ شروح و حواشی کتب فقہ میں   بلخی کی روایت ہی کو مختار سمجھا گیا ہے اور اسی پر عمل کرنا چاہیے۔ واللہ اعلم۔


فتاوی نذیریہ

جلد 01 ص 598

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ