سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(189) ترجمہ مطبوعہ احمدی لاہور کو اوّل سے آخر تک دیکھا..الخ

  • 5696
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 879

سوال

(189) ترجمہ مطبوعہ احمدی لاہور کو اوّل سے آخر تک دیکھا..الخ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

از حقیر فقیر ابوتراب محمد عبدالرحمٰن گیلانی السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ بخدمت شریف شیخ العرب والعجم، محی السنۃ و قامع البدعۃ، شمس العلماء جناب حضرت مولانا مولوی سید محمدنذیر حسین صاحب دام فیضہم، واضح راے عالی باد، میں   نےایک رسالہ مسمی بازالۃ الشبہۃ عن فریضیۃ الجمعِ مع ترجمہ مطبوعہ احمدی لاہور کو اوّل سے آخر تک دیکھا، اس رسالہ کے صفحہ 24 میں   یہ عبارت لکھی ہوئی ہے۔ وقال[1] ابن ابی شیبۃ حدثنا جریر عن منصور عن طلحۃ عن سعد بن عبیدۃ عن ابی عبدالرحمٰن انہ قال قال علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ لا جمعۃ ولاتشریق الا فی مصر جامع ذکرہ العینی فی عمدۃ القاری و سندہ صحیح۔ اب التماس یہ ہے کہ اس ناچیز کے پاس اسماء الرجال میں   تین ہی کتابیں ہیں، میزان الاعتدال، تقریب التہذیب ، خلاصۃ تذہیب  تہذیب الکمال ،راقم خاکسار کے مسکن کی جگہ بہت چھوٹی سی  بستی ہے، بھائی احنات اس رسالہ کو دیکھ کر مجھ پر بڑا اعتراض کرکے کہتے ہیں کہ تم ایسی بستی میں   کیوں جمعہ پڑھتے ہو ، کتب مذکورہ سے یہ بات ظاہرہوتی ہے کہ جریر جو اس میں   راوی ہے، منصور سے اگرچہ رواۃ صحاح سے ہے، لیکن متکلم فیہ ہے اور منصور  ان کااستاذ ہے لیکن ان کے ہم نام بہت سے راوی ہیں کوئی ثقہ ہے اور کوئی ضعیف اور یہ معلوم نہیں کہ طلحہ سے کون منصور روایت کرتا ہے اور طلحہ کے بھی ہم نام بہت سے ہیں، کوئی ثقہ کوئی ضعیف اور معلوم نہیں کہ کون طلحہ سعد بن عبیدہ سے روایت کرتا ہے اور سعد بن عبیدہ ثقہ ہیں لیکن ابی عبدالرحمٰن سے روایت کرتے ہیں اور ابی عبدالرحمٰن کے ہم نام بھی بہت ہیں، کوئی مجہول اور کوئی غیرمجہول، لیکن جو ابی  عبدالرحمٰن حضرت علی ؓ سے روایت کرتے ہیں ان کا پتہ ان کتابوں سےنہیں لگتا ہے،الحاصل جریر کو منصور سے تلمذ ضرور ہے لیکن منصور کوطلحہ سے اور طلحہ کو سعد بن عبیدہ سے اور سعد بن عبیدہ کو ابی عبدالرحمٰن سے ،اور ابی عبدالرحمٰن  کو حضرت علیؓ سے ہرگز تلمذ نہیں معلوم ہوتا ہے، اب التماس یہ ہے کہ عینی حنفی نے سند مذکور کو جو صحیح کہا ہے ، آیا یہ کہنا ان کا صحیح ہے یا نہ، کتب مذکورہو دیگر کتب رجال سے سند مذکور  کی تنقید فرمائی جائے۔بینوا توجروا



[1]   حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ جمعہ اور تشریف بڑے شہرہی میں   ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

علامہ عینی حنفی  نے جو اثر علیؓ کی سند مذکور صحیح کہا ہے، سو ان کا یہ کہنا صحیح ہے، قاضی شوکانی نے نیل الاوطار صفحہ110 جلد 3 میں   لکھا ہے کہ ابن حزم نے اثر علیؓ کی تصحیح کی ہے اور حافظ ابن حجر درایہ صفحہ131 تخریج ہدایہ میں   لکھتے ہیں۔  حدیث[1] لاجمعۃ ولا تشریق ولا فطرولا اضحی الا فی مصر جامع لم اجدہ وروی عبدالرزاق عن علی موقوفا لا تشریق ولا  جمعۃ الا فی مصر جامع و اسنادہ صحیح و رواہ ابن ابی شیبۃ مثلہ و زاد ولا فطر ولا اضحی وزاد فی اخرہ او مدینۃ عظیمۃ و اسنادہ ضعیف اور فتح الباری صفحہ 380 جلد 2 مطبوعہ مصر میں   لکھتے ہیں ۔ومن[2] ذلک حدیث علی لاجمعۃ ولا تشریق الا فی مصر جامع اخرجہ ابوعبید باسناد صحیح موقوفا۔ مگر واضح رہے کہ حضرت علی کے اس اثر کے صحیح ہونے سے قری اور بستیوں میں   نماز جمعہ پڑھنے کی ممانعت ثابت نہیں ہوتی۔اولاً اس وجہ سے کہ حضرت علیؓ کا یہ قول ایک ایسا قول ہے جس میں   قیاس و اجتہاد کو دخل ہے اور صحابی کا ایسا قول بالاتفاق حجت نہیں ہے، علامہ شوکانی نیل الاوطار میں   لکھتے ہیں۔ وللاجتہاد [3]فی مرح فلا ینتھض للاحتجاج بہ انتہی۔ثانیاً اس وجہ سے کہ آیت قرآنیہ و احادیث مرفوعہ مطلق و عام ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے  کہ مصر اور غیر مصر ہرمقام میں    اقامت جمعہ جائز و درست ہے، پس یہ نصود مطلعہ و عامہ حضرت علیؓ کے اس قول کے نانی ہیں اور صحابی کا ایسا قول ہے جس کیاحادیث مرفوعہ و آیات قرآنیہ سے نفی ہوتی ہو، وہ قول بالاتفاق حجت نہیں فقہائے حنفیہ کو بھی  اس کااعتراف ہے، ثالثاً اس  وجہ سے کہ آیت یاایھا[4] الذین امنوا اذا نودی للصلوٰۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الی ذکر اللہ،ہرمکلف کو عام ہے اور ہر مکان مصر وغیر مصر کو شامل، پس اس آیت قرآنیہ کے عموم سے مصر و غیر مصر، ہر جگہ و ہر مقام میں   اقامت جمعہ کاجائز و درست ہونا صاف و روشن ہے، علامہ ملا علی قاری مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں   لکھتے ہیں۔ دلیل[5] الافتراض من کلام اللہ تعالیٰ علی العموم  فی الامکنۃ انتہی۔

پس اگر حضرت علیؓ کے اس قول کی وجہ سے یہ کہا جائے کہ بستیوں اور دیہاتوں میں   اقامت جائز نہیں، بلکہ  فقط مصر میں   ہی جائز ہے، تو حضرت علی ؓ کے اس قول سے آیت قرآنیہ کی تخصیص لازم آتی ہے، حالانکہ صحابی کی قول سے قرآن کی تخصیص بالاتفاق جائز نہیں ہے، نہایت تعجب سے علمائے حنفیہ سے کہ ان کی تمامی اصول کی کتابوں میں   یہ لکھا ہوا ہے کہ اخبار احاد سے قرآن کی تخصیص جائز ہے، چنانچہ تلویح میں   ہے، لا یجوز تخصیص الکتاب بخیر الواحد لان خبر الواحد دون الکتاب ولا نہ ظنی والکتاب قطعی  فلا یجوز تخصیصہ لان التخصیص تفسیر والتغییر لا یکون الایمام یسادیہ او یکون فوقہ انتہی۔ یعنی خبر واحد سے قرآن کی تخصیص جائز نہیں کیونکہ خبر واحد کا درجہ قرآن کے درجہ سے اونیٰ ہے، اس لیےکہ خبر واحد ظنی ہے اور قرآن قطعی ہے، پس خبر واحد سے قرآن کی تخصیص جائز نہیں اس وجہ سے کہ تخصیص کےمعنی میں   متغیر کردینا اور بدل دینا اور کسی شے کا متغیر کرنا اور اس کو بدل دینا اسی چیز سے ہوگا جو اس شے کے مساوی ہو یا اس سے بڑھ کر ہو یہی مضمون اصول فقہ کی تمام کتابوں میں   لکھا ہوا ہے،مگر باوجود اس کے وہ حضرت علیؓ کے قول مذکور سے جو خبر واحد کے درجہ میں   بھی نہیں ہے، آیت مذکورہ کی  تخصیص کرتے ہیں اور اس کے حکم عام کو اس قول سے منسوخ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اقامت جمعہ فقط مصر میں   درست و جائز ہے اور غیرمصر میں   ناجائز و نا درست ،دیکھو علمائے حنفیہ کا یہ ضیع کس قدر قابل تعجب ہے،رابعاً اس وجہ سے کہ اگر حضرت علیؓ کے قول سے غیر مصر میں   جمعہ کا ناجائز ہونا نکلتا ہے ، تو حضرت عمرو عثمان و ابوہریرہ و ابن عمر وغیرہم رضی اللہ عنہم کے افعال و اقوال سے غیر مصر میں   جمعہ کا جائز و درست ہونا ثابت ہوتا ہے ، پس چونکہ ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال و افعال آیت مذکورہ و احادیث مرفوعہ کے موافق ہیں، لہٰذا انہیں صحابہؓ کے اقوال و افعال کا لینا اور حضرت علیؓ کے قول کو ترک کرنا لازم ہے یا حضرت علیؓ کے قول کو اور ان صحابہ کے اقوال کو ترک کرنا اورقول اللہ اور قول رسول اللہ ﷺ کی طرف رجوع کرنا لازم ہے۔ قال[6] اللہ تعالیٰ فان تنازعتم فی شئ فردوہ  الی اللہ والرسول ان کنتم تؤمنون باللہ و الیوم الاخر ذلک خیر واحسن تاویلا۔ اور جب کہ ہم نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی طرف یعنی قرآن و حدیث کی طرف رجوع کیا تو ثابت ہوا کہ اقامت جمعہ مصر و غیر مصر ہر جگہ جائز و درست ہے،پس اسی کو لینا اور اسی پر عمل کرنا فرض ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم و علمہ اتم۔        (سید محمد نذیر حسین)



[1]   حدیث لا جمعۃ ولا تشریق الحدیث، میں   نے کہیں نہیں دیکھی، عبدالرزاق نے اس کو حضرت علیؓ سے موقوفا روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے ، ابن ابی شیبہ میں   اومدینۃ عظیمۃ (یا کسی بڑے شہر میں  )کے الفاظ زاید ہیں۔

[2]   اور اس سے  حضرت علیؓ کی موقوف حدیث ہے۔لا جمعۃ ولا تشریق جس کو ابو عبید نے صحیح  سند سے موقوفا روایت کیا ہے۔

[3]   اس میں   اجتہاد کو دخل ہے، لہٰذا اس سے احتجاج جائز نہیں ہے۔

[4]   اے  ایمان والو ! جب جمعہ کی نماز کے لیے اذان کہی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو۔

[5]   اللہ تعالیٰ کے قول سے جمعہ ہر جگہ فرض ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو عموم الکنہ کے لئے فرض کیا ہے۔

[6]   اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اگر کسی چیز میں   تمہارا جھگڑا ہوجائے تو اس کو اللہ اور رسول کے پاس لے آؤ اگرتم اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو یہ بہت بہتر ہے اور اسی کا انجام اچھا ہے۔


فتاوی نذیریہ

جلد 01 ص 595

محدث فتویٰ

تبصرے