کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ :
اوّل: جمعہ دیہات میں پڑھا جائے یانہ،اگرپڑھا جائے تواحتیاطاً ہو یا غیر۔
دوم: جواثی قریہ ہےیاشہر اس میں جمعہ رسول اللہﷺ نے پڑھایا یا اصحابوں نے رضوان اللہ علیہم۔
سوم: وادی بنی سالم بن عوف مدینہ سے کتنے فاصلے پر ہے۔؟
چہارم: رسول اللہ ﷺ جب ہجرت کرکے تشریف لےگئے ہیں ، اس وقت بادشاہ تھے یا نہیں؟
پنجم: حضرت علی ؓ کا قول لا جمعۃ ولاتشریق الخ کیا صحیح ہے یاضعیف ہے؟
ششم: حدیث ابن ماجہ جس سے جمعہ ہونے کے لیے بادشاہ کا ہونا نکلتا ہے وہ کیا ہے اور کیسی ہے،صحیح یاضعیف اور قرآن سے بادشاہ کا ہونا نکلتا ہے یا نہ۔ بینوا توجروا
اوّل :جمعہ دیہات میں وجوبا و فرضا پڑھنا چاہیے، اس واسطے کہ ادلہ مثبت وجوب جمعہ عام ہیں ،جیسے آیت اذا[1]نودی للصلوٰۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الی ذکر اللہ الایۃ اور حدیث الجمعۃ واجب علی کل محتلم رواہ ابوداؤد والنسائی ادلہ مثبت وجوب جمعہ سے جیسے شہر میں جمعہ واجب و فرض ہونا ثابت ہوتا ہے اسی طرح دیہات میں بھی اور عام جب تک اس کے مقابل کوئی خاص موازن اس کی صحت میں نہ پایاجائے اپنے عموم پر محمول ہوتا ہے اور ادلہ مثبت وجوب کی اپنے عموم پر باقی رہنے کی تائید روایات ذیل سے ہوتی ہے، جن کو حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں نقل کی ہے۔ (ترجمہ) ’’ حضرت عمرؓ نے اہل بحرین کو لکھا کہ جہاں بھی تم ہوجمعہ پڑھا کرو ، حافظ نے کہا یہ شہروں اور بستیوں دونوں کو شامل ہے، ولید بن مسلم نے کہا، میں نے لیث بن سعد سے پوچھا: کہ انہوں نےکہا ، ہرشہر یا بستی جس میں کوئی جماعت ہو ، ان کو حکم دیا گیا ہے ،اہل مصر اور اس کے کناروں پر رہنے والے حضرت عمرو عثمان کے زمانہ میں ان کے حکم سےجمعہ پڑھا کرتے تھے، حالانکہ ان میں بعض صحابہ بھی موجود تھے ، حضرت عبداللہ بن عمر مکہ اور مدینہ کے درمیان چشمے والوں کو دیکھتے کہ وہ انے چشموں پرجمعہ پڑھتے تھے اور عبداللہ بن عمر ان کو منع نہ کرتے۔‘‘
دوم: جواثی قریہ ہے، شہر نہیں ہے۔ صحیح بخاری میں ہے: عن ابن عباس قال اوّل جمعۃ جمعت بعد جمعۃ فی مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی مسجد عبد القیس بجواثی من البحرین وفی روایۃ لابی داؤد قریۃ من قری البحرین، یعنی مسجدنبویؐ میں جمعہ ہونے کے بعد اوّ ل جمعہ مقام جواثی میں ہوا اور ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ جواثی بحران کے قریوں میں سے ایک قریہ ہے ، دیکھو ابوداؤد کی نفس روایت ہے جواثی کا قریہ ہونا نصاو صراحتاً ثابت ہے، حافظ ابن حجر فتحالباری میں لکھتے ہیں: قولہ بجواثی من البحرین وفی روایۃ وکیع قریۃ من قری البحرین وفی اخری عنہ من قری عبدالقیس، یعنی وکیع کی روایت میں ہے کہ جواثی بحرین کے قریہ میں سے ایک قریہ ہے اور ان کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ جواثی عبدالقیس کے قریوں میں سے ایک قریہ ہے، خلاصہ یہ کہ بحرین ایک شہر ہے اور اس شہر کے متعلق متعدد قریے ہیں، انہی قریوں میں سے جواثی بھی ایک قریہ ہے اور علامہ جوہری اور زمخشری اور ابن الاثیر نے جو یہ لکھا ہے کہ جواثی بحرین میں ایک قلعہ کا نام ہے ، سو یہ جواثی کے قریہ ہونے کے منافی نہیں ہے ، مطلب یہ ہے کہ شہر بحرین کاجواثی ایک قریہ ہے اور اسی قریہ میں قلعہ ہے پس جواثی کو قریہ کہنا بھی صحیح ہے اور جواثی کو قلعہ کہنا بھی صحیح ہے، حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں۔ وحکی[2] الجوھری والزمخشری و ابن الاثیر ان جواثی اسم حصن بالبحرین وھذا الاینافی کونہا قریۃ۔ اورعلامہ ابن المتین نے ابوالحسن لخمی سے جونقل کیا ہے کہ جواثی ایک شہر ہے ، سو ابوالحسن کا یہ قول قابل اعتبار اور لائق اعتماد کے نہیں ہے کیونکہ جب خود حدیث سے ثابت ہوگیا کہ جواثی بحران کے قریوں میں سے ایک قریہ ہے تو بھلا مقابلہ اس کے ابوالحسن کا یہ قول کہ جواثی ایک شہر ہے ، کب قابل التفات ہوسکتا ہے ،علاوہ اس کے ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ کے بعد جواثی قریہ سے شہر ہوگیا ہو، اسی بناء پر ابوالحسن نے جواثی کو شہر کہا ہو،جیسے مرور زمانہ کے بعد بہت سے قریہ آباد ہوتے ہوتے شہر بن جاتے اور بہت سے شہر ویران ہوتے ہوئے قریہ ہوجاتے ہیں۔ حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں: وحکی[3] ابن التین عن اب الحسن اللخمی انہا مدینۃ و ما ثبت فی نفس الحدیث من کونہا قریۃ اصح مع احتمال ان تکون فی الاول قریۃ ثم صارت مدینۃ انتہی۔ اور قریہ جواثی میں رسول اللہ ﷺ نے جمعہ نہیں پڑھا ہے بلکہ آپ کےاصحاب رضی اللہ عنہم نے پڑھا ہے اور ظاہر یہی ہے کہ صحابہؓ نے جواثی میں آپ کے حکم سے جمعہ پڑھا، اس واسطے کہ صحابہؓ کی یہ عادت تھی کہ بلا حکم اور بلا اجازت رسول اللہ ﷺ کے کوئی شرعی اور دینی کام محض اپنی طرف سے قائم و جاری نہیں کرتے تھے۔امام بیہقی معرفۃ السنن میں لکھتے ہیں: وکانو[4]ا لا یستبتدون بامور الشرع بجمیل تیاتھم فی الاسلام فالا شبہ انہم لم یقیموا فی ھذہ القریۃ الابامر النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انتہی۔ حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں: والظاھر[5] ان عبدالقیس لم یجمعوا الابامر النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لما عرف من عادۃ الصحابۃ من عدم الا ستبداد بالامور الشرعیۃ فی زمن الوحی ولانہ لو کان ذلک لا یجوز لمنز ل فیہ القرآن کما استدل جابر و ابوسعید علی جواز العزل فانہم فعلوہ والقرآن ینزل فلم ینہوا عنہ انتہی۔ واللہ اعلم
سوم: وادی بنی سالم بن عوف مدینہ سے ایک میل کے فاصلہ پر یا ایک میل سے کچھ کم یا زیادہ پر واقع ہے ، اس واسطے کہ وادی بنی سالم مدینہ اور قبا کے درمیان واقع ہے اور قبا مدینہ سے دو یا تین میل کے فاصلہ پر ہے۔ تلخیص الجیر میں ہے۔ روی[6] البیہقی فی المعرفۃ عن المغازی ابن اسحق و موسیٰ بن عقبۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حین رکب من بنی عمرو بن عوف فی ھجرتہ الی المدینۃ مر علی بنی سالم وھی قریۃ بین قبا والمدینۃ فادر کتہ الجمعۃ فصلی فیہم الجمعۃ وکانت اول جمعۃ صلاھا حین قدم۔ اور مجمع البحار میں ہے۔ قبا[7] بضم قاف و فتح موحدۃ مع مدو قصر موضع یمیلین او ثلاثۃ من المدینۃ۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
چہارم: رسول اللہ ﷺ جب سے مبعوث ہوئے اسی وقت سے آپ کو نبو ت اور حکومت اور سلطنت عطا ہوئی ،مگر زمانہ ہجرت تک آپ کوغلبہ نہیں تھا اور اسلام میں اس وقت اور اس کے بعد کچھ اور دنوں تک ہرطرح کی غربت تھی۔
پنجم: حضرت علی ؓ کا یہ قول صحیح ہے، ابن حزم نے اس قول کی تصحیح کی ہے، جیسا کہ نیل الاوطار صفحہ 110 جلد 3 میں علامہ شوکانی نے لکھا ہے اور حافظ ابن حجر درایہ میں لکھتے ہیں ۔ حدیث[8] لاجمعۃ ولاتشریف ولا فطرولااضحی الا فی مصر جامع لم اجدہ وروی عبدالرزاق عن علی موقوفا لا تشریق ولا جمعۃ الا فی مصر جامع و اسنادہ صحیح انتہی۔ اور فتح الباری صفحہ 380 جلد 2 میں لکھتے ہیں: ومن[9] ذلک حدیث علی لا جمعۃ ولا تشریق الا فی مصر جامع اخرجہ ابوعبید باسناد صحیح الیہ موقوفا۔مگر یہ خوب یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت علیؓ کے اس قول سے (جس میں قیاس و اجتہاد کو دخل ہے اور ساتھ اس کے آیت قرآن و احادیث صحیحہ کے اطلاق و عموم کے خلاف ہے و نیز اقوال و افعال دیگر صحابہ کے معارض ہے و نیز معلوم نہیں کہ اس قول میں مصر سے ان کی کیا مراد ہے اور اس قول سے ان کا اصل مقصود کیا ہے) صحت جمعہ کے لیے مصر کا شرط ہونا ہرگز ہرگز ثابت نہیں ہوسکتا اور اس قول سے آیت قرآنیہ و احادیث مرفوعہ کی ہرگز ہرگز تخصیص نہیں ہوسکتی۔
ششم: ابن ماجہ کی وہ حدیث یہ ہے: (ترجمہ) ’’ جابر نے کہا :رسول اللہ ﷺ نے ہم کو خطبہ دیا اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے تم پر جمعہ فرض کیا ہے ، میرے اس مقام، اسدن، اس شہر ، اس سال میں اور قیامت تک فرض ہے جس نے اس کو میری زندگی یا وفات کے بعد چھوڑ دیا اور اس کا کوئی امام عادل یاظالم ہو،الحدیث۔‘‘
یہ حدیث بالکل ہی ضعیف ہے اس حدیث کا ایک راوی عبداللہ بن محمد العدوی متروک الحدیث ہے ،امام وکیع نے فرمایا کہ یہ عبداللہ بن محمد العدوی جھوٹی حدیثیں بنایا کرتا تھا ۔ امام بخاری نے فرمایا کہ یہ شخص منکر الحدیث ہے یعنی اس شخص سے حدیث روایت کرنا حلال نہیں ہے، ابن حبان نے فرمایا کہ اس شخص کی سے احتجاج جائز نہیں ہے، تقریب التہذیب میں ہے ۔ عبداللہ[10] بن محمد العدوی متروک الحدیث رماہ وکیع بالوضع انتہی میزان الاعتدال میں ہے۔ قال[11] البخاری منکر الحدیث وقال وکیع یضع الحدیث وقال ابن حبان لا یجوز الاحتجاج بخیرہ انتہی اور میزان میں ابان بن جبلہ کے ترجمہ میں مرقوم ہے ۔ نقل[12] ابن القطان ان البخاری قال کل من قلت فیہ منکر الحدیث فلا تحل الروایۃ عنہ انتہی۔ اور عبداللہ بن محمد العدوی کے علاوہ اس حدیث کے بعض اور راوی بھی ضعیف ہیں۔
خلاصہ یہ کہ ابن ماجہ کی یہ حدیث بالکل ضعیف اور ناقابل احتجاج ہے اور قرآن سے صحت جمعہ کے لیے بادشاہ کا ہونانہیں نکلتا ہے، بلکہ قرآن سے یہ نکلتا ہے کہ اقامت جمعہ ہر مقام میں جائز و درست ہے ، دیہات ہو یا شہر بادشاہ ہو نہ ہو اور اقامت جمعہ کے لیےبادشاہ کا ہونا کسی دلیل سے ثابت نہیں ۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب، کتبہ محمد عبدالحق ملتانی عفی عنہ (سید محمد نذیر حسین)
[1] جب جمعہ کے دن نماز کے لئے اذان کہی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور حدیث جمعہ ہر جوان آدمی پر واجب ہے۔
[2] جوہری و زمخشری اور ابن اثیر نے بیان کیا ہے کہ جواثی بحرین میں ایک قلعہ کا نام ہے اور یہ بستی ہون کے منافی نہیں۔
[3] ابوالحسن لخمی کہتے ہیں، کہ جواثی شہر ہے اور جو حدیث میں بستی کا لفظ آیا ہے ، ممکن ہے کہ پہلے وہ بستی ہو اور بعد میں شہر بن گیا ہو۔
[4] اپنی نیتوں کے اچھا ہونے کے باوجود وہ شرعی کاموں کو از خود شروع نہیں کیا کرتے تھے تو گمان یہی ہوتا ہے کہ انہوں نے جمعہ نبیﷺ کے حکم سے شروع کیا ہوگا۔
[5] ظاہر یہی ہےکہ انہوں نے نبی ﷺ کے حکم سے جمعہ شروع کیا تھا ،کیونکہ صحابہ عادت معلوم ہے کہ وہ امور شرعیہ کو از خود شروع نہیں کیا کرتے تھے اور اگر بستی میں جمعہ ناجائز ہوتا تو قرآن نازل ہورہا تھا۔
[6] اس میں اس کی مخالفت نازل ہوجاتی جیسا کہ عزل کے جواز میں جابر اور ابوسعید نے قرآن نازل ہونے پر استدلال کیا تھا۔
[7] نبیﷺ جب بنی عمرو بن عوف کے محلہ سے ہجرت کرکے مدینہ جانے لگے تو بنی سالم کی بستی میں جمعہ کا وقت ہوگیا اور یہ بستی قبا اور مدینہ کے درمیان تھی وہاں آپ نے جمعہ پڑھایا اور یہ ہجرت کے بعد سب سے پہلا جمعہ تھا۔ (قبا مدینہ منورہ سے دو یا تین میل کے فاصلہ پر ایک بستی ہے)
[8] یہ حدیث کہ جمعہ، تشریق اور عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ بڑے شہر ہی میں ہوتی ہے یہ حدیث کہیں نہیں دیکھی گئی ہاں حضرت علیؓ کا قول ہے یعنی حدیث موقوف ہے اور سند صحیح ہے۔
[9] حدیث لاجمعۃ ولا تشریق حضرت ؓ کا موقوف قول ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔
[10] عبداللہ بن محمد عدوی متروک ہے ، وکیع نے کہا یہ حدیثیں بناتا تھا۔
[11] بخاری نے کہا یہ منکر الحدیث ہے ، وکیع نے کہا یہ حدیثیں وضع کیا کرتا تھا ، ابن حبان نے کہا اس کی حدیث سے استدلال جائز نہیں۔
[12] امام بخاری نے کہا ہر وہ آدمی جس کے متعلق میں منکر الحدیث کہوں، اس سے روایت کرنا جائز نہیں ہے۔