سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(180) بعد نماز فرائض کےہاتھ اٹھا کے دعا مانگنا درست ہے یا بدعت

  • 5687
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1350

سوال

(180) بعد نماز فرائض کےہاتھ اٹھا کے دعا مانگنا درست ہے یا بدعت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ بعد نماز فرائض کےہاتھ اٹھا کے دعا مانگنا درست ہے یا بدعت ، زید کہتا ہے کہ بعد نماز فرائض کے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا بدعت ہے۔بینوا توجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صاحب فہم پرمخفی نہ رہے کہ بعد نماز فرائض کے ہاتھ اٹھاکر دعا مانگنا جائز و مستحب ہے او رزید مخطی ہے۔

(ترجمہ)’’آنحضرت ﷺ نے فرمایا: جو آدمی نماز کے بعد اپنے ہاتھ پھیلا کر کہے، اےمیرے او رجبریل اور میکائیل اور اسرافیل کے خدا میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو میری دعاء کو قبول فرما، میں بے قرار ہوں ، میرے دین کومحفوظ رکھ، میں فتنوں میں مبتلا ہوں، مجھے اپنے رحمت میں لے لے، میں گنہگار ہوں،میرےفقر کو دور کرے ، میں مسکین ہوں تو اللہ تعالیٰ پرحق ہے کہ اس کے ہاتھوں کو خالی نہ اٹھائے‘‘ ۔’’اسود عامری کے باپ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرتﷺ کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی جب آپ نے سلام پھیرا تو رخ ہماری طرف کیا اپنے ہاتھ اٹھائے اور دعا مانگی۔‘‘

اور حافظ جلال الدین نے اپنی کتاب فضل الوعاء فی احادیث رفع الیدین فی الدعاء میں روایت کیا ہے ،محمد بن یحییٰ اسلمی سے کہ رسول اللہ ﷺ نہیں اٹھاتے تھے اپنے ہاتھ کو دعا میں مگر جب کہ فارغ ہوتے نماز سے اور کہا ہے  ،اس حدیث کے راوی جتنے ہیں، سب ثقہ ہیں۔ عن  [1]محمد بن یحییٰ الاسلمی قال رأیت عبداللہ بن زبیر وراأی رجلا رافعایہ قبل ان یفرغ من صلوتہ فلما فرغ منھا قال ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہوسلم لم یکن یرفع یدیہ حتی یفرغ من صلوتہ و رجالہ ثقات[2]۔ اور نیز ابوداؤد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کہ جب سوا ل کرو، اللہ تعالیٰ سے سوال کرو بطون کف اپنے کے ساتھ، اور نہ سوال کرو اس سے  ساتھ ظہور کف اپنے کے ، عن مالک بن یسارقال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا سألتم اللہ فاسئلوہ ببطون الفکم ولاتسئلوھا بظہور ھا وفی روایۃ ابن عباس قال سلوا اللہ ببطون اکفکم ولا تسئلو بظہور ھافاذا فرغتم فامسحوا بھا وجھہ[3] رواہ ابوداؤد ۔اور ترمذی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب ہاتھ دعا میں اٹھاتے تو نہیں چھوڑتے تھے۔ یہاں تک کہ مسح کرتے اپنے منہ کو عن  عمر قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا رفع یدیہ فی الدعاء لم یحطہما حتی یمسح بھماوجہہ رواہ الترمذی اور نیز مشکوٰۃ کے صفحہ 187 میں ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جب بندہ ہاتھ اٹھاکر دعا کرتا ہے تو اللہ شرم کرتا ہے کہ اس کے ہاتھ خالی پھیردے۔ عن سلمان قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان ربکم حی کریم یستحیی من عبدہ اذا رفع یدیہ ان یردھما صفر ا رواہ الترمذی و ابوداؤد والبیہقی فی الدعوات الکبیر۔

علاوہ اس کے دعا میں ہاتھ اٹھانا شریعت میں قبلنا سے بھی ثابت ہے، چنانچہ بخاری صفحہ 475 میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب حضرت ہاجرہ کو چھوڑ چلے، پھر جب کہ ثنیہ کے پاس پہنچےتو قبلہ کی طرف منہ پھیر کر  ہاتھ اٹھاکر دعا کی، امام نووی صاحب  عبداللہ بن عمرو بن العاص کی حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں۔  ھذا[4] حدیث مشتمل علی کثیر من الفوائد و منہا استحباب رفع الیدین فی الدعاء انتہی او رادب المفرد کے صفحہ 89 میں ہے، عن [5] عکرمۃ عن عائشۃ انہ سمعہ منہا اٹھا رأت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یدعو  رافعا یدیہ یقول اللھم انما انا بشر فلا تعا قبنی ایما رجل من المؤمنین اذیتہ او شتمتہ فلا تعاقبنی فیہ۔ وعن[6] ابی ہریرۃ قال قدم الطفیل بن عمر الدوسی علی  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقال یا رسول اللہ ان دو ساعصت وابت فادع اللہ علہیا فاستقبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم القبلۃ ورفع یدیہ فظن الناس انہ یدعو علیہم فقال اللہم اھد دو سا وائت بہم۔پس ان احادیث سے ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہاتھ اٹھا کر دعامانگتے تھےاوردعاء میں ہاتھ اٹھانا مسنون طریقہ ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ حررہ محمد عبدالغفور عفی عنہ۔ (سید محمد نذیرحسین)

مسئلہ:

کیافرماتے ہیں علمائے دین کہ فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا جیسا کہ اس علاقہ کے علماء کادستور ہے، کسی حدیث قولی یا فعلی سے ثابت ہے یا نہیں؟ اگرچہ فقہاء اس کو مستحن کہتے ہیں اور دعا میں ہاتھ اٹھانے کے متعلق بھی احادیث میں آیا ہےلیکن خصوصاً اس دعا کے متعلق بھی کوئی حدیث ہے یا نہیں۔

اس مخصوص دعا کے بارے میں بھی حدیث ہے،انس نبیﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا، جو آدمی ہر نماز کے بعد اپنے ہاتھ پھیلا کر یہ دعا کرے، ’’اے میرے اور ابراہیم و اسحاق و یعقوب کے خدا، اے جبریل، میکائیل، اسرافیل کے خدا میں اپنی دعا کی قبولیت کا تجھ سے سوال کرتا ہوں، میں بے  قرار ہوں، میں مبتلا ہوں، میرے دین کو محفوظ رکھ، میں گنہگار ہوں، مجھے اپنی رحمت سے ڈھانپ لے، میں مسکین ہوں، میرا فقر دور کردے، تو اللہ پر حق ہے کہ اس کو خالی ہاتھ نہ لوٹائے ، اگر اس حدیث پر یہ اعتراض کیا جائے کہ اس کی سند میں عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن متکلم فیہ ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ استحباب کے ثبوت کے لیے ضعیف حدیث بھی کافی ہے چنانچہ ابن الہمام نے فتح القدیر کتاب الجنائز میں اس کی تصریح کی ہے، اسود عامری اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے صبح کی نماز رسو ل اللہ ﷺ کے ساتھ پڑھی ، آپ نے سلام پھیرا اور رخ ہماری طرف کیا ، اپنے ہاتھ اٹھائے اور دعا مانگی تو معلوم ہواکہ فرض نماز کےبعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا آنحضرت ﷺ سے ثابت ہے۔ واللہ اعلم                 (سیدمحمدنذیرحسین)



[1]   عبداللہ بن زبیر نے ایک آدمی کو دیکھا اس نے پوری نماز پڑھنے سے پہلے ہی ہاتھ اٹھاکر دعا مانگناشروع کیا، آپ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہونے کے بعد ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔

[2]   میں کہتا ہوں ک اس حدیث کو صاحب مجمع الزوائد نےبھینقل کیا ہے ۔حیث قال عن محمد بن ابی یحییٰ قال  رأیت عبداللہ بن الزبیر ورأی رجلا رافعا یدیہ یدعو قبل ان یفرغ من صلاتہفلما فرغ منہا قال ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لم یکن یرفع یدیہ حتی یفرغ من صلوتہ رواہ الطبرانی و ترجم لہ فقال محمد بن یحییٰ الاسلمی عن عبداللہ بن الزبیر و رجالہ ثقات انتہی۔ مجمع الزوائد قلمی جلد 4 صفحہ334 کتاب الادعیۃ باب ماجاء فی الاشارۃ فی الدعاء ورفع الیدین۔ وعن علی رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم اذاصلیتم الصبح فافز عواالی الدعاء و باکروا فی طلب الحوائج اللھم بارک لامتی فی بکورھا انتہی۔ اس حدیث کو علی متقی نے کنزالعمال جلد 1 صفحہ 175 میں صحیح مسلم، ابوداؤد، نسائی وغیرہ کے حوالہ سے ذکر کیا ہے۔ وعن ابی بکرۃ رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال سلوا اللہ ببطون اکفکم ولاتسئلوہ بظہور ھارواہ الطبرانی فی الکبیر و رجالہ رجال  الصحیح غیرعمار بن خالد الواسطی وھو ثقۃ مجمع الزوائد جلد 4 صفحہ 334، کنزالعمال جلد1 صفحہ 175، فض الوعاء صفحہ 4 وہ وفی روایۃ ابن عباس  رضی اللہ عنہما مرفوعا عند ابن ماجۃ اذا دعوت اللہ فادع ببطن کفیک الخ حاصل ان حدیثوں کا یہ ہے کہ آپ نے فرمایا ، صبح کی نماز کے بعد یعنی فرض نماز کے بعد دعامانگو اور جب دعامانگو تو ہاتھ اٹھاکر دعا مانگو ، نتیجہ یہ ہواکہ فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھاکر دعا مانگو، وہو المدعی، واللہ اعلم ۔ ابوسعیدمحمد شرف الدین مصح فتاوی ہذا۔

[3]   سندہ ضعیف و اخرجہ ایضا الطبرانی فی الکبیر والحاکم فی المستدرک عن ابن عباس مرفوعا کنزالعمال۔ ابوسعید محمد شرف الدین

[4]  یہ حدیث بہت سے فوائد پر مشتمل ہے اس سے دعا میں ہاتھ اھانے کا استحباب معلوم ہوتا ہے۔

[5]   حضرت عائشہؓ نے کہا میں نے آنحضرتﷺ کو ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے دیکھا،  آپ کہہ رہےتھے ، اے اللہ میں بھی ایک آدمی ہوں، اگر میں نےکسی مومن کو کوئی تکلیف دی ہو یا کوئی سخت کلامی کی ہو، تو مجھے معاف کردینا۔

[6]   طفیل  بن عمر ودوسی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا اے اللہ کے رسول دوس نے نافرمانی کی اور دین حق کا انکار کیا ، آپ ان پربددعا کریں تو آنحضرتﷺ قبلہ کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے ہاتھ اٹھائے لوگوں نے سمجھا کہ آپ ان پر بدعا کریں گے، آپ نے فرمایا، اے اللہ دوس کو ہدایت دے او ران کو میرے پاس لا۔


فتاوی نذیریہ

جلد 01 ص 566

محدث فتویٰ

تبصرے