جو آدمی ایک یازیادہ نمازیں قصداً چھوڑ دے ،رسول اللہﷺ کے کہنے کے مطابق کہ ’’جس نے جان بوجھ کر نماز کو چھوڑ دیا وہ کافر ہے‘‘ کافر کہہ سکتے ہیں یا نہیں؟
جمہور اہل سنت کے نزدیک تارک نماز مسلمان ہے کافر نہیں بشرطیکہ دوسرے موجبات شرک و کفر کا ارتکاب یا ضروریات دین کا انکارنہ کرے اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل سنت کے نزدیک اعمال داخل جزء ایمان نہیں ہیں بلکہ دین کو مکمل کرنے والے ہیں اور معتزلہ و خوارج اعمال کو اصل ایمان کا جزء قرار دیتے ہیں اور تاریک عمل خواج کے نزدیک کافر ہے اورمعتزلہ کے نزدیک کفر و ایمان کے درمیان ہے اور اعمال کا ایمان سے علیحدہ ہونا اس بات سے ظاہر ہے کہ اعمال کا عطف ایمان پر ڈالا گیا ہے اور معطو ف و معطوف علیہ الگ الگ چیزیں ہوتے ہیں اور کسی چیز کا عطف اسی چیز پرنہیں ہوتا، تفسیربیضاوی اور تفسیرمظہیر میں ایسا ہی لکھا ہے۔
اور بہت سی حدیثیں بھی اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اعمال اصل ایمان سے خارج ہیں۔ مثلاً رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو آدمی شہادت دےکہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اور محمدؐ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور عیسیٰ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اس کی لونڈی کے بیٹے ہیں ، اس کاکلمہ جس کو مریم کی طرف ڈالا اور اس کی طرف سے روح ہیں،جنت اور دوزخ حق ہیں تو اللہ اس کو جنت میں داخل کرے گا ، خواہ اس کے اعمال کیسے ہی ہوں اور حضرت معاذ والی حدیث کہ میں آنحضرتﷺ کے پیچھے سواری پربیٹھاہوا تھا، آپ نے فرمایا، اے معاذ کیا تو جانتا ہے کہ اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے اور بندوں کا حق اللہ پرکیا ہے، میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانیں، فرمایا اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ اس کی عبادت کریں، اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں اور بندوں کاحق اللہ پر یہ ہے کہ وہ ان کو عذاب نہ کرے، میں نےعرض کیا، کیا میں لوگوں کو اس کی خوشخبری نہ سناؤں، آپ نے فرمایا رہنےدے،بھروسہ کربیٹھیں گے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو سچے دل سے شہادت دے کہ اللہ کے سوائے کوئی معبود نہیں اورمحمدؐ اللہ کے رسول ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کو آگ پر حرام کردیں گے اور ابوذرؓ سے آپ نے فرمایا جو بندہ لا الہ الااللہ کہے،پھر اسی پر مرجائے، وہ جنت میں داخل ہوگا،اگرچہ زنا اور چوری کرے اور شفاعت کی لمبی حدیث ہے، جوابوسعید سے بخاری اور مسلم میں مروی ہے، معلوم ہوتا ہے کہ کبائر کے مرتکب اور تارک نماز کاکافر نہیں ہیں، بلکہ نافرمان ہیں جوبالآخر شفاعت یا خدا کی رحمت سے جنت میں چلے جائیں گے۔حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ، فرشتوں ، نبیوں اورمؤمنوں نے سفارش کرلی اب صرف ارحم الراحمین باقی رہ گیا۔ پھر خدا دوزخ سے ایک مٹھی ان لوگوں کی نکالے گا جنہوں نے کوئی نیک کام نہ کیا ہوگا ، آخر حدیث تک ،اور آنحضرتﷺ نے فرمایا جو آدمی اس حال میں مرے کہ اس کو علم ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوائے کوئی معبود نہیں ہے تو وہ جنت میں داخل ہوگا اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، دو چیزیں واجب کرنے والی ہیں ، ایک آدمی نے پوچھا یارسول اللہﷺ وہ کیا ہیں، آپ نے فرمایا، جواللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے مرجاوے گا وہ دوزخ میں جائے گا، اور جوشرک نہ کرے گا، جنت میں جائے گا۔ اور آنحضرتﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ میری اُمت میں سے ایک آدمی کو بلائیں گے ، اس کے ننانوے دفتر بدیوں کے ہوں گے ،ایک ایک دفتر حد نگاہ تک ہوگا،اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ، ان میں سے کسی گناہ کا انکار کرتے ہو؟ یا کسی کے متعلق عذر کرنا چاہتے ہو؟ کہے گا نہیں، تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ، آج کسی پر ظلم نہیں ہوگا، اپنا حساب دیکھ، وہ کہے گا میرا حساب ہی کیا ہے، نیکی ہے ہی نہیں حساب کیسا؟ تو اللہ تعالیٰ کاغذ کاایک پرزہ نکالیں گے ، جس پر لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوگا جو اس نے سچے دل سے پڑھا ہوگا،اسےترازو کے دوسرے پلڑے میں رکھاجائےگا تو وہ بوجھل ہوجائے گا، اور ننانوے بدیوں کے دفتر ہلکے ہوجائیں گے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، تین باتیں ایمان کااصل ہیں، جو آدمی لاالہ الا اللہ کہے، اس کو کسی گناہ کے باعث کافر نہ کہنا چاہیے، اگرچہ وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، الحدیث۔ اس حدیث میں معتزلہ اور خوارج کا رد ہے، جوکبیرہ کے مرتکب کو کافر کہتے ہیں،مواقف اور عقائد نسفی میں ہے کہ کبیرہ گناہ سے مؤمن ایمان سے خارج ہوجاتا ۔
قصہ مختصر یہ کہ اہل سنت وجماعت کا عقیدہ ہے کہ اعمال جزء ایمان نہیں ہیں ، آیات و احادیث اس پر گواہ ہیں ، جمہور صحابہ و تابعین ، مجتہدین و محدثین کا یہی مسلک ہے باقی رہیں وہ احادیث جن میں تارک نماز کو کافر کہا گیا ہے، مثلاً جابر و عبداللہ بن بریدہ کی احادیث ، سو یہ بربنائے تشدید ہے اور یا پھر کفر سے مراد کفران نعمت ہے نہ کہ اصل کفر ،احادیث میں تطبیق کی یہی ایک صورت ہوسکتی ہے۔ البتہ کئی ایک بزرگ کفر کےقائل ہیں مثلاً ابراہیم نخعی، ابن مبارک، احمد، اسحاق، عمرو ابن مسعود وغیرہ سو یہ تغلیظا تاریک نماز کو کافر کہتے ہیں اور تاریک نماز کے کافر نہ ہونے پر یہ حدیث بھی دلیل ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ، اللہ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جو اچھاوضو کرے اور وقت پر پڑھے اور رکوع خشوع اچھا کرے ت واللہ اس کو بخشے گا یہ اس کا وعدہ ہے اور اس کے وعدہ میں خلاف نہیں ہے اور جو ایسا نہ کرے گا اس ک لیے اللہ کے ذمہ کوئی عہد نہیں ہے ، چاہے تو اسے بخشے چاہے تو سزا دے، اس حدیث میں بھی دلیل ہے کہ تارک نماز کافر نہیں اور کبیرہ کے مرتکب کے لیےنہ سزا ضروری ہے اورنہ وہ ہمیشہ کا جہنمی ہے۔
ہاں معاذ کی حدیث میں ہے کہ جو نمازوں پرمحافظت نہ کرے اور جان بوجھ کر نماز چھوڑ دے تو اس سے اللہ کا ذمہ اُٹھ گیا۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس سےمعلوم ہوتا ہے کہ تارک نماز کے لیے امان نہیں ہے۔ چنانچہ اسی حدیث کی بناء پر امام شافعی نے تارک نماز کے لیےقتل کاحکم دیاہے اور دوسرے اماموں نے بھی ایسا ہی کیا ہے اور امام ابوحنیفہ اور مالک اس کومارنے اورتعزیر لگانے اور قید کرنے کا حکم دیتے ہیں، یہاں تک کہ وہ توبہ کرے اور امام احمد سےمشہور روایت یہ ہے کہ تارک نماز کافر ہے، لیکن مندرجہ بالا احادیث ان کے برخلاف حجت ہیں اورکفر دون کفر تو مشہور ہے یعنی کفر حقیقی کے ماتحت کفر مجازی بھی ہیں اور عبداللہ بن عباس ؓ سے اس آیت ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ہم الکافرون (جو اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرے وہ کافر ہے) کا مطلب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا اس سےمراد اللہ کا کفر نہیں ہے ۔ اوس اور خزرج لڑنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائیں، تم کیسےکفر کرسکتے ہیں، حالانکہ اللہ کی آیتیں تم پر پڑھی جاتی ہیں، اس سے مراد اللہ کاکفر نہیں تھا بلکہ خدا کی نعمت اتفاق و اتحاد کاانکار تھا۔ واللہ اعلم۔