چہ می فرمائیند علماء دین متین کہ چند چرصہ سے بہ سبب شورش مخالفین اسلام و گرمی قتال و جدال باسلطنت اہل اسلام جیسا کہ خلیفہ روئے زمین خادم حرمین الشریفین سلطان روم خلد اللہ ملکہ و سلطنۃ کے ساتھ واقع ہے تمام مقامات متبرکہ یعنی مکہ معظمہ و مدینہ منورہ و جوامع شام و بیت للقدس وغیرہ میں فتح یابی اہل اسلام کے واسطے دعائیں مانگی جاتی ہیں اور دعائے قنوت پڑھی جاتی ہے مسلمانان ہند کوبھی ایسے وقت میں نماز ہائے فجر وغیرہ میں دعائے قنوت پڑھنی چاہیے یا نہیں۔بینوا توجروا۔
درمختار اور البحر الرائق وغیرہ میں مذکور ہے کہ قنوت نہ پڑھے وتر کے سوا دوسری نماز میں مگر کسی مصیبت کے وقت کہ امام قنوت پڑھے جہری نمازوں میں اور بعض فقہاء کا قول یہ ہے کہ سب نمازوں میں پڑھے جہری ہوں یا سری۔ ولا[1] یقنت لغیرہ الالنازلۃ فیقنت الا مام فی الجھریۃ وقیل فی الکل در مختار فی شرح النقایۃ معز یا الی الغائیۃ وان نزل بالمسلمین نازلۃ قنت الامام فی صلوٰۃ الجھر وھو قول الثوری واحمد وقال جمہور اہل الحدیث القنوت عندالنوازل مشروع فی الصلوٰۃ کلھا انتہی ما فی البحر الرائق اور اشباہ و نظائر میں نماز فجر میں قنوت پڑھنا لکھا ہے۔
(ترجمہ) ’’ امام جہری نمازوں میںقنوت کرے اگر مسلمان پرکوئی مصیبت نازل ہو تو جہری نمازوں میں امام قنوت کرے اور یہ ثوری و احمد کا مذہب ہے۔ بحر ، شرنبلالی اورنبایہ میں اسی طح ہے۔اشباہ والنظائر میں ہے کہ صرف صبح کی نماز میں قنوت کرے۔ شرح مینہ میں ہے مصیب میں دعا قنوت پڑھنا آنحضرتﷺ کے بعد صحابہ کا بھی معمول رہا ہے اور ہمارا یہی مذہب ہے اور اسی پر جمہور ہیں۔ طحاوی کہتے ہیں اگر کوئی مصیب نازل ہو تو فجر کی نماز میں قنوت کرے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی کیا اور تمام نمازوں میں قنوت کرنا صرف امام شافعی کا مذہب ہے ۔ کیونکہ مسلم میں ہے کہ آپ نے ظہر اور عصر میں بھی قنوت پڑھی ہے اور بخاری میں ہے کہ آپ نے مغرب کی نماز میں بھی قنوت کی ہے گویا امام شافعی کو فجر کے علاوہ دوسری نمازوں میں قنوت منسوخ ہونے کی اطلاع نہیں ہوئی اور یہ جو عام مشہور ہے کہ یہ قنوت منسوخ ہوگئی اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ فجر کے علاوہ منسوخ ہوئی قنوت جماعت میں ہے۔ منطر و قنوت نہ کرے مقتدی امام کے تابع ہے اگر امام بلند آواز سے قنوت کرے تو مقتدی بلند آواز سے آمین کہے اور قنوت رکوع کے بعد کرے شرنبلالی نے مراقی الفلاح میں اس کی تصریح کی ہے اور حمودی نے کہاکہ رکوع سے پہلے قنوت پڑھے لیکن صحیح پہلا قول ہے۔‘‘
اور اس حاشیہ شامی سےمعلوم ہوتا ہے کہ موقع قنوت پڑھنے کا بعد رکوع اخیررکعت کے اس حالت خاص میں ہے اور مقتدی بھی متابعت امام کی کرے قنوت پڑھنے میں مگر جس وقت امام پکار کر پڑھے تو مقتدی آمین کہے اور دعا قنوت جومعمول ہے ، سو پڑھے اور یہ دعا پڑھے۔
اللھم[2] اغفرلنا وللمؤمنین والمؤمنات والمسلمین والمسلمات والفابین قلوبہم واصلح ذات بینھم وانصرھم علی عدوک و عدوھم اللھم العن کفرۃ کتابک الذین یصدون عن سبیلک و یکذبون رسلک و یقاتلون اولیائک اللھم خالف بین کلمتھم و زلزل اقدامھم و انزل بھم بأسک الذی لا تردہعن القوم المجرمین۔ وقت سخت مصیبت کے قنوت کا پڑھنا رسول اللہ ﷺ سے اور خلفائے راشدین سے پایا گیا ہے اور حضرت ابوبکر صدیقؓ نے محاربہ مسیلمہ کذاب میں دعاء قنوت پڑھی ہے ۔ اسی طرح حضرت فاروقؓ اور علی مرتضیٰ سے ثابت ہوا ۔چنانچہ ماہران اخبار پر مخفی نہیں۔
(ترجمہ) ’’فتح القدیر میں ہے کہ مصیبت کے وقت دعا قنوت ہمیشہ سے چلی آرہی ہے ۔ منسوخ نہیں اہل حدیث نے بھی اسی طرح کہا ہے اور انہوں نے انسؓ کی حدیث کو اسی معنی پرمحمول کیا ہے کہ آنحضرتﷺ ہمیشہ قنوت کرتے رہے۔مطلب یہ کہ مصیب کے وقت ہمیشہ پڑھتے رہے۔ ویسے نہیں اور پھر آپ کے بعد خلفاء راشدین بھی قنوت کرتے رہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے مسیلمہ کذاب سےجنگ کے دنوں میں قنوت کی اور حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ نے بھی اپنی خلافت میں قنوت کی ، اشباہ والنظائر میں ایسا ہی ہے۔‘‘ (سید محمد نذیر حسین)
[1] وتروں کے علاوہ کسی نماز میں قنوت نہ پڑھے ہاں اگر کوئی مصیبت نازل ہو تو جہری نمازوں میں قنوت کرے بعض کہتے ہیں تمام نمازوں میں کرے جہری میںقنوت کرناسفیان ثوری اور احمد کامذہب ہے اور تمام نمازوں میں قنوت کرنا تمام محدثین کامذہب ہے۔
[2] اے اللہ ہم کو اور تمام مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں اور مسلمان مردوں اورمسلمان عورتوں کو بخش دے ان کے دلوں میں الفت ڈال دے ۔ ان کے حالات درست کردے ان کو اپنے اور ان کے دشمنوں پر فتح نصیب فرما۔ اے اللہ اپنی کتاب کےمنکروں پر لعنت فرما جو تیرے راستہ سے روکتے ہیں۔ تیرے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں، تیرے دوستوں سے لڑائی کرتے ہیں، اےاللہ ان میں پھوٹ ڈال دے ان کےقدم لڑکھڑا دے ، ان پر اپنا وہ عذاب نازل فرما جس کو تو مجرم قوم سے واپس نہیں پھیرتا۔