ادا کرناسنتوں فجر کا وقت ہونے جماعت فرضوں فجر کے اسی مسجد اور مکان میں درست ہے یا نہیں۔ بینواتوجروا
متبعان سنت نبوی پرمخفی نہ رہے کہ صحیح مسلم و ترمذی و ابوداؤد و نسائی و ابن ماجہ وغیرہ میں مذکور ہے کہ اذا اقیمت الصلوٰۃ فلا صلوٰۃ الا المکتوبۃ (ترجمہ )’’جب قائم کی جائے نماز یعنی جب مؤذن اقامت شروع کرے تو اس وقت نماز پڑھنی درست نہیں سوائے فرض کے ‘‘ اور ابن عدی نے ساتھ سند حسن کےآگے اس کے یہ نقل کیا ہے کہ اے رسول خداﷺ کے اور نہ دو رکعت سنت فجر کی۔ یعنی کسی نے پوچھا کہ اقامت کے وقت سنت فجر کی بھی نہ پڑھے فرمایا حضرتﷺ نے کہ جب اقامت ہونے لگے تو سنت فجر کی بھی پڑھنی نہ چاہیے اور اس مضمون کی حدیث اور بھی محلی شرح موطی میں مذکور ہے اب معلوم کرنا چاہیے کہ جب رسول خداﷺ نےسنت فجر کی پڑھنے کو وقت اقامت کے منع فرمایا تو پھر اور کے کہنے یا لکھنے کا کیا اعتبار ہے۔
کیونکہ خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں اطاعت پیغمبر خداﷺ کی لازم کردی چنانچہ فرماتا ہے: ما اتکم الرسول فخذوہ و نھکم عنہ فانتھوا (ترجمہ) ’’جو چیز تم کو رسولﷺ دے یا کوئی کام ارشاد کرے پس اس کو لے لو یعنی قبول کرو اور بجا لاؤ اس کو ‘‘تو جب حضرتﷺ نے سنت پڑھنی وقت قائم ہونے جماعت فرض کےمنع کردیا تو امت کو چاہیے کہ اس پر عمل کرے یعنی نہی فرمانے پر آنحضرتﷺ کے عمل کرے یعنی جماعت قائم ہونے کے وقت سنت نہ پڑھے ورنہ مخالف پیغمبر ہوگا۔
خلاف پیمبر کسے را گزید
کہ ہرگز بمنزل نخواہد رسید
قال اللہ تعالیٰ ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یجبکم اللہ (ترجمہ) ’’فرمایا خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں کہ کہہ دے تو اے رسول اگر خدا کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو دوست رکھے گا تم کو خدا۔‘‘ محلی شرح موطا میں ہے: اذا اقیمت الصلوٰۃ فلا صلوۃ الا المکتوبۃ حدیث مرفوع اخرجہ مسلم والاربعۃ عن ابی ہریرۃ و اخرجہ ابن حبان :
(ترجمہ) ’’جب نماز کھڑی ہوجائے تو فرض نماز کے علاوہ اور کوئی نماز نہیں ہوتی‘‘ یہ مرفوع حدیث ہے ایک لفظ یہ ہیں ’’تو صرف وہی نماز ہوگی جس کی اقامت ہوئی‘‘ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ صبح کی سنتیں بھی نہیں پڑھنی چاہیں؟ تو آپ نے فرمایا صبح کی سنتیں بھی نہیں پڑھنی چاہیں کچھ لوگوں نے اقامت کی آواز سنی اور سنتیں پڑھتے رہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’کیا دو نمازیں اکٹھی پڑھی جارہی ہیں؟‘‘ اور یہ صبح کی نماز کا واقعہ ہے۔ امام بیہقی نے کا یہ جو بعض لوگوں نے الارکعتی الفجر (مگر صبح کی سنتیں پڑھنی جائز ہیں) اس کا بالکل کوئی اصل نہیں ہے حضرت عمر اگر اقامت کے بعد کسی کو الگ نماز پڑھتے دیکھتے تو اس کو مارتے ۔ اقامت ہوگئی ایک آدمی سنتیں پڑھتا رہا عبداللہ بن عمرؓ نےاس کو کنکریاں ماریں ۔ حنفی کہتے ہیں کہ اگر آخری رکعت مل جانے کا یقین ہو تو کسی ستون کے پیچھے یامسجد کے صحن میں صبح کی سنتیں پڑھ لے اور بعض احناف کہتے ہیں کہ نہ پڑھے کیونکہ نبی ﷺ نے ایک آدمی کو روک دیا تھا اور فرمایا تھا کیا دو نمازیں اکٹھی ہورہی ہیں ۔ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو اقامت کے بعد سنتیں پڑھتے دیکھا تو اس کو کندھوں سے پکڑ کر کہا یہ سنتیں اس سے پہلے پڑھ لی ہوتیں۔ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھا رہے تھے ایک آدمی آیا اس نے پہلے سنتیں پڑھیں پھر جماعت میں شامل ہوگیا جب آپﷺ نماز سےفارغ ہوئے تو فرمایا ان دونوں نمازوں میں سے تو نے کون سی نماز پسند کی ہے، کیا اپنی اکیلی نماز یا ہمارے ساتھ نماز، اگر امام مسجد کے اندر پڑھ رہا ہو اور کوئی آدمی باہر صحن میں سنتیں پڑھے تو بعض نے کہا ہے یہ جائز ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ نہ پڑھے کیونکہ مسجد کا اندر اورباہر ایک ہی مکان کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ اگر امام اند رکھڑا ہو تو صحن میں کھڑی ہونے والی صفوں کی نماز اس کی اقتداء میں ہوجاتی ہے اگر یہ دو جگہیں الگ الگ سمجھی جائیں تو باہرکے لوگوں کی نماز نہ ہوتی، لہٰذا احتیاط اسی میں ہے کہ نہ پڑھی جائیں محل شرح موطا اور بحرالرائق میں بھی اسی طرح ہے۔ الراقم محمد نذیر حسین عفی عنہ (سید محمد نذیر حسین 1281)