سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(66) سجدہ تعظیمی

  • 567
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1814

سوال

(66) سجدہ تعظیمی

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سجدہ تعظیمی غیراللہ کو یعنی انبیاء اور اولیاء کو کرنا شرک اکبر ہے یا حرام کبیرہ گناہ؟ اور آدم علیہ السلام کوجو ملائکہ  سے سجدہ کرایا گیا وہ سجدہ تعظیمی تھا یات عبدی ؟ اور خدا نے ملائکہ سے سجدہ کیوں کرایا جب کہ  اس  نے شرک  کوکسی شریعت میں جائزنہیں کیا ؟

دوسرےحضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں نےحضرت یعقوب علیہ السلام  کوسجدہ تعظیمی کیاتھا۔ قال اللہ تعالی :

(وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا ۖ )--سورة یوسف100

اس سے ظاہرہےکہ شریعت یوسفی تک سجدہ تعظیمی جائز تھا اگرشرک ہوتا تو کسی شریعت میں جائز نہ ہوتا کیونکہ شرک  تمام شرائع انبیاء میں حرام تھا۔ جولوگ سجدہ تعظیمی کوشرک  اکبر کہتے ہیں ۔ وہ  اسلام میں غلو کرتے  ہیں  یا نہیں؟ ازراہِ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیں جزاكم الله خيرا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

بے شک شرک کفر کسی شریعت میں جائزنہیں مگر اس کی صورتیں بدلتی رہتی ہیں۔ مثلاً آدم علیہ السلام کے وقت بہن بھائی میں نکاح جائز تھا۔ اب کوئی شخص جائز کہے تو وہ کافر ہے اوربحکم آیہ کریمہ:

﴿أَفَرَءَيۡتَ مَنِ ٱتَّخَذَ إِلَٰهَهُۥ هَوَىٰهُ﴾--سورة الجاثية23

مشرک ہے۔ ٹھیک اسی طرح سجدہ تعظیمی کہو یا تعبدی کہو جب خدا کے حکم سے ہو تو وہ غیر کی عبادت نہیں جب خدا کےحکم کےخلاف ہو تو وہ غیرکی عبادت ہے- کیونکہ قرآن مجیدمیں ہے ان الحکم الاللہ ۔نیزقرآن شریف میں ہے

﴿أَمۡ لَهُمۡ شُرَكَٰٓؤُاْ شَرَعُواْ لَهُم مِّنَ ٱلدِّينِ مَا لَمۡ يَأۡذَنۢ بِهِ ٱللَّهُۚ﴾--سورة الشوريٰ21

یعنی حکم صرف خدا ہی کے لیے ہے کیا ان کے لیے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین مقررکیا ہے جس  کی خدانے اجازت نہیں دی۔

قرآن مجیدمیں ہے :۔

﴿لَا تَسۡجُدُواْ لِلشَّمۡسِ وَلَا لِلۡقَمَرِ وَٱسۡجُدُواْۤ لِلَّهِۤ ٱلَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمۡ إِيَّاهُ تَعۡبُدُونَ﴾--سورة فصلت37

’’تم سورج کو سجده نہ کرو نہ چاند کو بلکہ سجده اس اللہ کے لیے کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے، اگر تمہیں اس کی عبادت کرنی ہے تو‘‘

اس آیت میں مطلق سجدہ سےنہی فرمائی ہے اور ساتھ ہی یہ فرمایا ہے کہ اس ذات کو سجدہ کرو جس نے ان کو پیدا کیا ہے۔ اس سے اس طرف اشارہ ہے کہ یہ حکم سورج چاندپربندنہیں بلکہ سجدہ خالق کا حق ہے مخلوق کا نہیں خواہ سورج چاند ہو یا کوئی اورمخلوق ہو۔ اور ان کنتم ایاہ تعبدون سے مطلب یہ ہے کہ اگرکوئی سجدہ غیرکو ہو گیا تو پھر خاص خدا کے عابد نہیں رہوگے۔ بلکہ مشرک ہو جاؤ گے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے قرآن مجیدمیں ہے :

﴿قُلۡ إِن كُنتُمۡ تُحِبُّونَ ٱللَّهَ فَٱتَّبِعُونِي﴾--سورة آل عمران31

’’کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو‘‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر میرے مقابلہ میں کسی اورکی اتباع کروگے خواہ وہ کسی طرح سے ہو تو پھرخدائی محبت کا دعوی جھوٹاہے۔ ٹھیک اسی طرح آیت بالا کا مطلب سمجھ لیناچاہیے۔ کہ جب غیرکوسجدہ ہوا (خواہ اس کا نام سجدہ تعظیمی رکھو یا کچھ اور) تم خاص خداکے عابدنہیں رہ سکتے۔ بلکہ مشرک ہوجاؤگے۔گویا ہماری شریعت میں سجدہ مطلقاً حرام کردیا گیاہے خواہ اس کا نام کوئی کچھ رکھے۔ اور اس کی تائید احادیث سے بھی ہوتی ہے ۔

فتاوی ابن تیمیہ میں ہے :

اماتقبیل الارض ورضع الراس ونحوذلک ممافیہ السجودممایفعل قدام بعض الشیوخ وبعض الملوک فلایجوزبل لایجوزالانحناء کالرکوع کماقالواالنبی صلی اللہ علیہ وسلم الرجل منایلقی اخاہ اینحنی لہ قال قال لا۔ولمارجع معاذمن الشام سجدللنبی صلی اللہ علیہ وسلم  فقال ماہذایامعاذقال یارسول اللہ رأیتہم فی الشام یسجدون لاساقفتہم ویذکرون ذلک عن انبیاءہم فقال کذبواعلیہم لوکنت امراحداً ان یسجدلاحدلامرت المرأۃ ان تسجدلزوجہامن اجل حقہ علیہایامعاذان لاینبغی السجودالا اللہ ۔وامافعل ذلک تدیناوتقرباً فہذامن اعظم المنکرات ومنا اعتقدمثل ہذاقربۃ ودینافہوضال مفتربل یبین لہ ان ہذالیس بدین ولاقربۃ فان امرعلی ذلک استیب والاقتل ۔(فتاوی ابن تیمیہ ؒ جلداول ص 116)

’’یعنی زمین کو بوسہ دینا اورسرزمین پررکھنا اورمثل اس کے جس میں سجدہ ہے۔ جوبعض مشائخ اوربعض بادشاہوں کے سامنے کیا جاتاہے یہ جائز نہیں بلکہ جھکنا مثل رکوع کے بھی جائز نہیں۔چنانچہ صحابہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہﷺ سے کہا کہ ہم سے کوئی اپنے بھائی سے ملتا ہے تو کیا اس کے لیے جھکے؟ تو فرمایا نہ۔ اور جب معاذ﷜سفرشام سے واپس آئے تو رسول اللہﷺ کوسجدہ کیا۔فرمایا۔ اے معاذ!یہ کیا؟ کہا میں نے اہل کتاب کودیکھاکہ وہ اپنے علماء کو سجدہ کرتے ہیں۔ فرمایا یہ جھوٹ ہے اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کا حکم دیتا تو عورت کوحکم دیتا کہ خاوندکوسجدہ کرے بوجہ حق اس کے کہ اس پر۔ اے معاذ! سوائے خدا کے کسی کے لیے سجدہ لائق نہیں اور دین اور ثواب سمجھ کرسجدہ کرنا بڑے کبائرسے ہے جو اس کا اعتقاد رکھے وہ گمراہ مفتری ہے۔ اس کے لیے بیان کیاجائے کہ یہ دین اورثواب نہیں اگر اصرارکرے تو اس سے توبہ طلب کی جائے۔ اگر توبہ نہ کرے تو قتل کیا جائے ۔‘‘

قریب قریب اسی قسم کی روایتیں مشکوۃ باب عشرة  النساء وغیرہ میں موجود ہیں۔کہ سجدہ وغیرہ کو جائز نہیں اگر جائز ہوتا تو عورت کو خاوند کے لیے سجدہ کا حکم ہوتا۔ اورمشکوۃ کےاسی باب میں آپﷺ کی قبرکو سجدہ کی ممانعت مذکورہے اور جب آپﷺ کو یا آپﷺ کی قبرکوسجدہ کی اجازت نہیں توغیرکے لیے کس طرح اجازت ہوگی۔ بلکہ مشکوۃ باب القیام میں قیام تعظیمی سے بھی آپﷺ نے منع فرمایا ہے توسجدہ کس طرح جائز ہوگا ؟

خلاصہ یہ کہ نماز کی مشابہت کسی غیر کے لیے جائز نہیں نہ قیام نہ رکوع نہ سجدہ۔ یہی وجہ ہے کہ نماز کی قبروں میں ممانعت ہے تاکہ عبادقبورسے مشابہت نہ ہو اورجب مشابہت منع ہے تو حقیقۃ قیام یا رکوع یا سجدہ غیرکے لیے کیونکرجائز ہوگا۔

وباللہ التوفیق

فتاویٰ اہلحدیث

کتاب الایمان، مذاہب، ج1ص147 

محدث فتویٰ

 

تبصرے