السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
صحت وضعف حدیث میں جب محدثین کا اختلاف ہو تو ترجیح صحاح ستہ محدثین کےقول کو دینا باصول محدثین متاخرین کے قول پرصحیح ہے یا نہیں ؟ اور اس پرمحدثین کا کلیہ قاعدہ کیاہے؟ کیونکہ ہر ایک مذہب والا اپنی مستندروایت کوصحیح ثابت کرنے کے لیے کسی نہ کسی محدث کی تصحیح وتوثیق کو ذکرکرتا ہے۔ جس سے طبیعت میں الجھن پیدا ہوتی ہے۔ جزاكم الله خيرا
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ کے سوالات کے جوابات مندرجہ ذیل ہیں :
1۔شرح نخبہ میں ہے :
’’الجرح مقدم علی التعدیل ان صدرمبینامن عارف باسبابہ فان خلاالمجروح قبل الجرح مجملاعلی المختار،،(شرح نخبه بحث جرح تعدیل)
یعنی جرح تعدیل پرمقدم ہے۔ بشرطیکہ اس کی وجہ بیان کی جائے۔ اور جرح کرنے والا اس میں پورا ماہرہو۔ اگر راوی مجروح کی کسی نے تعدیل نہ کی ہو تو پھر مختار مذہب یہ ہے کہ جرح مبہم بھی قبول کی جائے گی۔
اس عبارت میں آپ کے سوال کا جواب ہے کہ اختلاف کے موقعہ پر ماہرفن کا قول اس بارہ میں معتبر ہے مگرمبہم نہیں۔ بلکہ اس کے ساتھ ضعف کی وجہ بھی بیان کرے۔ ہاں اگر اختلاف نہ ہو تو پھر وجہ بیان کرے یا نہ کرے دونوں صورتوں میں ماہرفن کا قو ل معتبر ہو گا گویا اختلاف نہ ہونے کے وقت صرف ایک شرط ہے کہ اس فن میں پوری مہارت رکھتا ہو اور اختلاف کے وقت دوشرطیں ہیں۔ پوری مہارت اور وجہ ضعف کا بیان۔ جب پوری مہارت شرط ہوئی تو جتنا کوئی زیادہ ماہر ہوگا اتنا ہی اس کا قو ل زیادہ قابل قبول ہوگا۔ خواہ وہ اصحاب ستہ سے نہ ہو۔ جیسے امام احمدؒ ،علی بن مدینی،یحییٰ بن سعیدقطان اور ان کے مثل۔ یہ اصحاب ستہ نہیں ،مگر اصحاب ستہ خود ان کےقول پراعتماد رکھتے ہیں۔ جو لوگ اصحاب ستہ کو ان بزرگوں پرترجیح دیتے ہیں۔ وہ جادئہ مستقیم پرنہیں۔ یہ وہ ہستیاں ہیں کہ اصحاب ستہ ان کے خوشہ چین ہیں ایک امام بخاری ؒ ان کی صف میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔ باقی سب ان سے نیچے ہیں۔‘‘
ایک بات یہاں یہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے۔کہ فن حدیث کی بناء چونکہ رائے قیاس پرنہیں بلکہ واقعات پر ہے۔ اس لیے اس فن کے ماہروں میں کوئی زیادہ اختلاف نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ امام ذہبی ؒ کہتے ہیں۔
’’لم یجتمع اثنان من علماء ہذاالشان علی توثیق ضعیف ولاعلی تضعیف ثقة ،،(شرح نخبه بحث جرح تعدیل)
’’یعنی دومحدث بھی کسی ضعیف راوی کی توثیق پراورثقہ راوی کی تضعیف پرجمع نہیں ہوئے۔‘‘
جب دومحدث بھی ضعیف کے ثقہ اور ثقہ کے ضعیف کہنے پرمتفق نہیں ہوئے تو اختلاف کا دائرہ بہت محدود ہوگیا- ایسی حالت میں جس کو خدا نے تھوڑی بہت علمی قابلیت عنایت کی ہو اور اس کی نیت میں اخلاص اور طبیعت میں انصاف ہو تو اس کے لیے یہ معمولی اختلاف کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرسکتا۔ اول تو وہ خودہی فریقین کے کلام سے راجح مرجوح معلو م کرلے گا ورنہ اپنے سے اعلم کی طرف رجوع کرے گا۔ اصحاب ستہ کو اس بارہ میں معیار مقررکرنا اور ہراختلاف کے موقعہ پر انہی کے قول کوترجیح دینا یہ اسی تقلیدی جمود سے مشابہت ہے جو مقلدین ائمہ میں پایا جاتا ہے۔ مثلاً حنفیہ نے اپنے مذہب کی بناء زیادہ تر تین اصحاب (امام ابوحنیفہؒ اورصاحبین) پر رکھی ہے۔ اب جوصرف چھ کو مانے اور ان کے برابر یا ان سے بڑوں کی پرواہ نہ کرے وہ انہی سے مشابہت کنندہ ہوا یا نہ؟ یہی وجہ ہے کہ اصول حدیث میں اصحاب ستہ کو دیگر امامان حدیث پرکوئی ترجیح نہیں دی۔ بلکہ اصول حدیث میں ان کے خلاف موجودہے۔ دیکھیے ! اصحاب ستہ میں امام بخاریؒ سب سے اول نمبر ہیں۔ ان کا دوسرے اماموں کے ساتھ اصح الاسانید میں اختلاف ہے یعنی اس بارے میں اختلاف ہے کہ سب سے زیادہ صحیح اسناد کونسی ہے امام اسحقٰ بن راہویہ ؒ کہتےہیں۔ سب سے زیادہ صحیح زھری عن سالم عن ابیہ اور امام احمدبن حنبل ؒ بھی اسی طرح کہتے ہیں۔ اور امام عمروبن علی فلاس ؒ کہتے ہیں۔ محمدبن سیرین عن عبیدة عن علی رضی اللہ عنہم ہے اور امام بخاری ؒ کےاستاذ امام علی بن مدینی ؒ بھی اسی طرح کہتے ہیں۔ اوربعض دیگرمحدثین ؒ بھی یہی کہتے ہیں۔ پھربعض نے کہاہے کہ یہ اصح الاسانید اس وقت بنے گی جب کہ محمدبن سیرین ؒ سے ایوب سختیانی ؒ روایت کریں۔ اوربعض نے کہاہے ابن عون ؒ روایت کریں۔ اور امام یحییٰ بن معین ؒ کہتے ہیں کہ اصح الاسانیدأعمش عن ابراھیم عن علقمة من عبداللہ ہے اور امام ابوبکرؒ بن ابی شیبہ ؒ کہتے ہیں کہ اصح الاسانیدزھری عن علی ابن الحسین عن ابیہ عن علی ہے اور امام بخاری ؒ کہتے ہیں۔ اصح الاسانید مالک عن نافع عن ابن عمر رضی اللہ عنہم ہے۔ اور امام ابومنصورعبدالقادر بن طاہرتمیمی اسی پر بناء رکھتے ہوئے کہتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر اسناد شافعی عن مالک عن نابغ عن ابن عمر مقدمہ ابن الصلاح کے ص 7 میں اس اختلاف کو اضطراب کہا ہے اور اضطراب وہ اختلاف ہے جس میں کسی جانب کو ترجیح نہیں ہوتی۔ اور حافظ ابن حجرؒ شرح نخبہ میں اس کی تصریح کرتے ہوئے فرماتےہیں :
’’والمعتمدعدم الاطلاق لترجمةمعینة منہا،،
(شرح نخبہ بحث خبرصحیح)
یعنی قابل اعتماد بات یہ ہے کہ (بوجہ اختلاف ائمہ حدیث) ان اسانید سے کسی کومعین کرکے اصح الاسانیدنہیں کہہ سکتے۔
خیال فرمائیں کہ امام بخاری ؒ کا اس بارے میں کوئی خاص لحاظ نہیں کیاگیا۔ اگر اصحاب ستہ کے قول کو ترجیح ہوتی تو اول نمبر اس میں امام بخاری ؒ تھے۔ جب ان کے قول کو ترجیح نہ ہوئی تو باقی کو بطریق اولی ٰ نہ ہوئی۔ پس اصحاب ستہ کو اس بارے میں کوئی خصوصیت نہیں بلکہ جتنا کوئی اس فن میں زیادہ ماہرہوگا اتنا ہی اس کا قول زیادہ قابل اعتماد ہوگا۔ ہاں اصحاب ستہ کو ایک اور درجہ سے ترجیح ہو سکتی ہے۔ وہ یہ کہ ان کی چھ کتابیں دوسری کتب پر ترجیح رکھتی ہیں۔ یعنی ان چھ کتب کی احادیث بلحاظ صحت دیگر کتب پرمقدم ہیں۔ مثلاً جیسے بخاری کی احادیث مسلم کی احادیث پر اورمسلم کی ترمذی وغیرہ پرمقدم ہیں۔ اسی طرح ترمذی وغیرہ کی صحیح احادیث دیگر کتب پرمقدم ہیں۔ اگر تعارض کے وقت موافقت نہ ہوسکے تو ان کے مقابلہ میں دیگر کتب کی احادیث متروک العمل ہوں گی۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کتب کثرت مد اول اور علماء امت میں عام قبولیت کی وجہ سے غلطی سے مامون ومضمون ہیں۔ نہ کسی کو ان میں وسعت اندازی کی گنجائش ہے۔قریب قریب ایسی ہیں جیسے قرآن مجیدحد تواتر کوپہنچ گیا ہے۔ گویا ان کی احادیث کو محدثین کے ہاں خوب چھان بین ہوچکی ہے اس لیے ان کی صحیح احادیث دوسری کتب کی صحیح احادیث پرمقدم ہوں گی۔ ہاں بعض دفعہ ایسا ہوتاہے کہ دوسری کتب کی کوئی حدیث دیگر قرائن کی وجہ سے صحت میں بڑھ جاتی ہے۔ مثلاً کئی صحیح سندوں سے مروی ہویا ایسی اسناد سے مروی ہو جس کوکسی بڑے محدث نے اصح الاسانید کہا ہے اور ان چھ کتابوں کی حدیث میں یہ بات نہ ہو یا کسی اور وجہ سے ترجیح ہو تو ایسی حالت میں دوسری کتب کی حدیث مقدم ہونگی۔ چنانچہ حافظ ابن حجرؒ نے شرح نخبہ میں صحیح حدیث کے درجات بیان کرتے ہوئے تصریح کی ہے کہ ایسے موقعہ پرمسلم کی احادیث بخاری کی احادیث پر اور بخاری مسلم کی احادیث پر دیگر کتب کی احادیث مقدم ہوں گی۔ ٹھیک اسی طرح ترمذی ابوداؤد وغیرہ کوسمجھ لینا چاہیے۔ غرض دیگر وجوہ سے ترجیح ہو جائے تو دوسری کتب کی احادیث مقدم ہوسکتی ہیں ورنہ اصل یہی ہے کہ ان چھ کتب کی صحیح احادیث کوترجیح ہو۔ لیکن ان چھ کتب کی صحیح احادیث کو ترجیح ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اب ان اصحاب ستہ کی دوسری کتب کو یا ان کی ہر ایک بات کو ترجیح ہو۔ کیونکہ چھ کتب کی ترجیح کی وجہ کثرت تدادل اور علماء امت میں عام قبولیت اورغلطی سے مامون ومصئون ہونا ہے۔ لیکن ان کی دوسری کتب میں یہ بات نہیں نہ ان کی ذات کوبلحاظ تبحرعلمی کے دوسرے تمام ائمہ حدیث پرترجیح ہے۔ بلکہ کئی اور ان سے بڑھ کر ہیں یا ان کے برابر ہیں۔ چنانچہ اوپر بیان ہوچکاہے۔
ایک بات یہاں پر یہ بھی یاد رکھنی چاہیے کہ فن حدیث چونکہ واقعات پرمبنی ہے اورمحض نقل کی قسم سے ہے اس لیے زیادہ ماہر اس میں وہی ہوسکتا ہے جو قرب کے زمانہ میں ہو اور رائے قیاس کو اس میں دخل نہ دے۔ اگر ان دونوں شرطوں سے کوئی فوت ہوجائے تو اس کی مہارت بھی کالعدم ہوگی یا کم ہوگی۔ مثلاً ایک راوی کے حالات جیسے اس کے ہمعصرعلماء کو یا اس کے قرب والوں کومعلوم ہوسکتے ہیں۔ ہمیں معلوم نہیں ہوسکتے۔ اس لیے ان کے مقابلہ میں ہماری مہارت کا کچھ اعتبارنہیں ہوگا۔ اسی طرح ایک شخص واقعات اور حالات فراہم کرنے کے لیے اپنی زندگی کچھ یا ساری وقف کردیتا ہے اور ایک شخص گھربیٹھا ایک واقعہ کو دوسرے واقعہ پر اور ایک حالت کو دوسری حالت پرقیاس کرکے نتائج اخذ کرتا ہے۔ یہ دونوں برابرنہیں ہوسکتے۔ پہلے کے مقابلہ میں دوسرے کی بات کا کوئی اعتبارنہیں ہوگا۔ مثلاً محدثین کا اصول ہے کہ مرسل حدیث حجت نہیں خاص کرمتصل کے مقابلہ میں۔ کیونکہ مرسل حدیث وہ ہے کہ تابعی کہے رسول اللہﷺ نے یوں فرمایا۔ اور درمیان میں صحابی کا نام نہ لے اور واقعات سے ثابت ہو چکاہے کہ بہت دفعہ تابعی صحابی سے روایت نہیں کرتا بلکہ دوسرے تابعی سے کرتاہے۔ اور حافظ ابن حجرؒ نے شرح نخبہ میں مرسل کی بحث میں لکھاہے کہ تفتیش حالات سے معلوم ہوا ہے کہ ایک تابعی دوسرے سے وہ تیسرے سے وہ چوتھے سے اس طرح سات تک روایت پائی گئی ہے اور تابعی سارے کے سارے ثقہ نہیں بلکہ ان میں بہت ضعف بھی ہیں۔ اس لیے مرسل حجت نہیں۔ ہاں اگر تابعی کے حالات سے معلو م ہو جائے کہ وہ ثقہ ہی سے روایت کرتاہے۔ جیسے سعیدبن مسیب ؒ تو ایسے تابعی کی روایت کو امام شافعی ؒ وغیرہ معتبر کہتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو معتبر نہیں۔ جیسے زہری وغیرہ کی روایت۔ غرض یہ اصول تو جیسا کچھ ہے واقعات اور حالات پر مبنی ہیں۔ اس کےمقابلہ میں حنفیہ کا اصول ہے کہ تابعی تو کجا تبع تابعی اگرقال رسول اللہ وغیرہ کہہ دے (جس کومحدثین کی اصطلاح میں مقطوع کہتے ہیں) تو وہ بھی حجت ہے۔ حجت ہی نہیں بلکہ متصل (جس میں تابعی صحابی سے روایت کرے اورصحابی قال رسول اللہ ﷺ وغیرہ کہے) پربھی مقدم ہے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ تابعی رسول اللہﷺ کا نام لے گا تو ساری ذمہ داری تابعی پرعائد ہوگی۔ اس لیے جب تک اس کو پوری تسلی نہیں ہوگی رسول اللہﷺ کا نام نہیں لے سکتا۔ ورنہ خطرہ ہے کہ رسول اللہﷺ پر مفتری ٹھہرے۔ برعکس اس کے جب صحابی کا نام لے گا کہ اس نے رسول اللہﷺ سے اس طرح روایت کیا ہے۔ تو اس صورت میں تابعی نے صحابی پر ساری ذمہ داری ڈال دی۔ اور جب ذمہ داری دوسرے پرہوتی ہے تو انسان کو اتنا فکر نہیں ہوتا۔ بلکہ بے پرواہی سے نقل کر دیتاہے اس لیے مرسل تو کجا مقطوع بھی صرف حجت ہی نہیں بلکہ متصل پرمقدم ہے۔ ملاحظہ ہونورالانواربیان اقسام السنہ ص 185
حنفیہ نےجوکچھ دلیل دی ہے بظاہر تو بڑی آراستہ پیراستہ ہے۔ مگر جب واقعات اس کے خلاف پائے گئے اور بہت تابعین کو دیکھاگیا کہ وہ رسول اللہﷺ کی طرف نسبت کرتے ہیں اور درمیانی واسطے کمزورہوتے ہیں۔ جیسے زہری تابعی ؒ وغیرہ کے حالات سے معلوم ہوا تو پھر حنیفہ کی قیاسی دلیل یہاں کیا کرسکتی ہے۔ اور حنفیہ کا یہ ایک اصول نہیں بلکہ اکثر اسی طرح رائے قیاس کے تابع ہوتے ہیں۔ جیسے یہ اصول کہ غیرفقیہ صحابی مثلاً انکے نزدیک ابوہریرہ اور انس کی حدیث اگر قیاس کے خلاف ہو تو قیاس کو ترجیح ہوگی۔ اور ایک حدیث کو دوسری حدیث پرکثرت راویوں سے ترجیح نہیں ہوگی۔ اسی طرح کتاب اللہ کے عام حکم کی یا حدیث مشہور کی تخصیص خبرواحدسے نہیں ہوسکتی۔ خواہ بخاری مسلم کی ہو وغیرہ وغیرہ۔ غرض اس طرح رائے قیاس سے اصول وضع کرکے احادیث کو ردکرتے ہیں۔ اور امام کے مذہب کی پاسداری کرتے ہیں۔ اور ان کا نام اصول اجتہاد رکھتے ہیں۔ ایسے اصولوں کو مہارت حدیث سے کوئی تعلق نہیں۔بلکہ یہ فن حدیث سے کمزوری کی علامت ہے۔خاص کر جب کہ ایسے اصول وضع کرنے والوں کا زمانہ بھی سلف ؒ سے بہت دور ہو۔ تو ایسی حالت میں ان کے اصولوں سے حدیث کی جان پہچان کس طرح ہوسکتی ہے۔ بلکہ صحت وضعف ،حجبت ،عدم حجیت کا معیارمحدثین کے اصول ہیں۔ جو واقعات پرمبنی ہیں خاص کر امام علی بن مدینی ؒ ،امام یحیی ٰ بن سعیدؒ وغیرہ ان کے اصول اصل اصول ہیں۔ اور انہی کے اصولوں سے احادیث کے صحت وضعف حجیت عدم حجیت کی پڑتال ہوگی۔ اور ان کا احادیث کے صحت وضعف پرحکم لگانا سب پرمقدم ہوگا۔ بلکہ مقدمہ ابن الصلاح میں تو لکھا ہے کہ صحت وضعف کا حکم انہی ائمہ حدیث کا معتبر ہے۔ اس وقت کا اعتبار نہیں۔ مقدمہ ابن الصلاح کی اصل عبارت یہ ہے :
’’اذاوجدنافیمانروی من اجزاء الحدیث وغیرہاحدیثاصحیح الاسنادولم نجدہ فی احدالصحیحین ولامنصوصاعلی صحتہ فی شئی من مصنفات ائمۃ الحدیث المعتمدة المشہورة فانالانتجرء علی جزم الحکم بصحة فقدتعذرفی ہذہ الاعصارالاستقلال بادراک الصحیح بمجرداعتبارالاسانیدلانه مامن اسنادمن ذالک الاوتجدفی رجاله من اعتمدفی روایته علی مافی کتابه عریاعمایشترط فی الصحیح من الحفظ والضبط والاتقان فالأمراذافی معرفة الصحیح والحسن الی الاعتمادعلی مانص علیہ ائمة الحدیث فی تصانیفہم المعتمدة المشہورة التی یومن فیہالشہرتہامن التغییردالتحریف وصارمعظم المقصودبمایتداول من الاسانیدخاجاً عن ذالک المہم سلسلة الاسنادالتي خصت بہاہذہ الامة زادہااللہ شرفا’أمین۔،،
(مقدمہ ابن الصلاح ص 76) یعنی جن کتب حدیث کے اجزاء کی ہم روایت کرتے ہیں ان میں اگر کسی حدیث کی اسناد ہم صحیح مانیں اورصحیحین سے کسی میں وہ حدیث نہ ہو اور نہ کتب متدادلہ معتبرہ مشہورہ میں اس کی صحت کی تصریح ہو تو ہم صرف اسنادصحیح پاکر حدیث کی صحت کا حکم لگانے پر دلیری نہیں کرسکتے۔ کیونکہ ان اسانید سے ہر ایک اسناد میں ایسے راوی ہیں جن کی روایت پر اس کتاب کے موافق اعتماد کر لیا گیا ہے۔ جو شرائط صحت حفظ ضبط اتقان سے خالی ہے۔ پس اب دار ومدار صحت اورحسن کا ائمہ حدیث کی تصریحات پر ہوا۔ جو ان کی تصانیف معتبرہ مشہورہ میں پائی جاتی ہیں۔ جو بوجہ شہرت تفسیر وتحریف سے محفوظ ہیں۔ اور اسانید متدوالہ کا اہم مقصدصحت وضعف سے بے تعلق ہو کر صرف یہ ٹھہرا کر سلسلہ اسناد جس کے ساتھ اس امت کو خاص کیا گیا ہے قائم رکھا جائے خدائے تعالی اس امت کو شرف میں اور زیادہ کرے۔ ابن الصلاح ؒ 643ھ میں فوت ہوئے ہیں۔ جب اس وقت یہ حالت تھی تو اب اس میں بھی معاملہ نازک ہے۔ پس مشہور ائمہ حدیث کی طرف ہمیں زیادہ احتیاجی ہوئی۔ خلاصہ یہ کہ جتنا قرب کا زمانہ ہوگا اور جتنا کوئی فن حدیث میں پیش پیش ہوگا اتنا ہی صحت وضعف اور جرح وتعدیل کے متعلق اس کا قول اول نمبرہوگا۔ نہ رائے قیاس والوں کا اس میں دخل ہے نہ اصحاب ستہ کی اس میں تخصیص ہے۔ رائے قیاس والوں کوداخل کرنا افراط ہے اور اصحاب ستہ کی تحصیص تفریط ہے۔ افراط تفریط سے بچنا چاہیے اور متوسط راستہ اختیارکرنا چاہیے۔ اگر اصحاب ستہ کا کسی حدیث کے صحت وضعف میں اختلاف ہو جائے تو وہاں فیصلہ کی یہی صورت ہے کہ جرح تعدیل پرمقدم کے اصول پر فیصلہ یہی تو راستہ ہے جو افراط وتفریط سے خالی ہے۔ پس اس کی پابندی چاہیے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب